زندگی میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو بہت زیادہ خوشی دیتے ہیں مگر ان لمحات میں سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں، مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں انجئنیرینگ کرلونگا لیکن آج اسٹیج پر چلتے ہوئے مجھے ایک انجانی سے خوشی کے ساتھ اندر سے ایک کمی بھی محسوس ہورہی تھی اور میں اللہ تعالی کا اپنی بہترین زندگی گزارنے پرشکر گزار ہوں۔ اس کے ساتھ میں نے اپنے لیے دعائیں کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میں اپنے اساتذہ کا بھی شکریہ اداکرنا چاہوں گا اور ان دوستوں اور ہم جماعتوں کا بھی جنہوں نے میرا ہر وقت ہر لمحہ ساتھ دیا . اس موقع پر اپنے والدین اور خاص کر ( بابا ) کی کمی بڑی شدت سے محسوس کررہا تھا . ’’میرے والد ( بابا ) کی آنکھوں میں آج کے دن جو چمک، خوشی اور جذبات ہوتے ان کی کمی آج سے پہلے میں نے کبھی اتنی محسوس نہیں کی تھی جو آج ہورہی تھی . میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے آج اپنے والد ( بابا ) کے نام کو فخر محسوس کرانے کا موقع ملا۔
انجئنیرینگ کی ڈگری ہاتھ میں آنے سے پہلے میں خوشی کی کسی اور ہی دنیا میں تھا ۔ ہواوں میں اڑنا تو ایک محاورہ ہی ہے. مگر حقیقتاً میں جانے کس دنیا میں گُم تھا ۔ میں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا ، جو میں نے چاہا تھا وہ میں نے پالیا تھا۔ منزل متعین نہیں تھی مگر راستے خوشگوار تھے، اور ابھی میں راستوں کی خوشگواریت کو محسوس کررہا ہوں ، مگر ڈگری ہاتھ میں آنے کے بعد کے جذبات پہلے والے جذبات اور احساسات سے یکسر مختلف اور الٹ تھے، خوشی اور غمی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ کبھی بھی چیزیں مترادف نہیں ہو تیں، ہمیشہ متضاد ہوتی ہیں، قدرت کا نظام بھی تضادات کے تحت چل رہا ہے۔ اسی طرح خوشی غمی بھی ساتھ نہ ہو تو کسی بھی ایک جذبے کا پتہ نہیں چلتا، خوشی غم کے بغیر اور غم خوشی کے بغیر نا مکمل ہے۔ ان کا ادراک تبھی ہوتا ہے جب آپ کا کسی ایک سے واسطہ پڑے۔ خیر ڈگری ہاتھ آنے کے بعد میرے جذبات خوشی میں بدل گئے سوال در سوال کا سلسلہ شروع ہو گیا، وہ سوال، جن کا جواب نہیں پتہ تھا، پہلے تو ڈگری حاصل کرنا ایک پہاڑ سر کرنا لگتا تھا مگر اب چند لمحوں میں یہ پہاڑ میرے سر پر تھا اور میں اس کے بوجھ تلے دبتا جارہا تھا ، پتہ نہیں چند لمحوں میں میرے ساتھ کیا سے کیا ہو گیا تھا؟ یہ بوجھ میرے سر سے ایک دم پلک جھپکتے میں اُترگیا مجھے پتہ نہیں اندر سے کیا ہورہا تھا. میں نے یک دم واپس گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ مجھ سے پوری تقریب بھی اٹینڈ نہ ہو سکی، گھر پہنچتے ہی سب گھر والے خاص کر میری والدہ نے مجھے سینے سے لگایا اور میرے بہن بھائی مجھ سے لپٹ گئے مجھے مبارکباد دینے لگے ، ان کے چہرے سے بہت خوشی جھلک رہی تھی ۔ گھر میں سب کے سب میری ڈگری دیکھنے لگے، بہن بھائی مجھ سے ٹریٹ مانگنے لگے۔ میرا چھوٹا بھائی بہت ہی خوش نظر آرہا تھا کہ آج کے بعد بھیا کو اب اچھی نوکری مل جائیگی اس کی شاید یہ سوچ ہوئیگی کہ ( اب میری پڑھائی پر وہ مُشکلات نہیں آئینگی جو دوسرے بہن بھائیوں کی تعلیم کے دوران والد ( بابا ) کو آتیں تھیں ) وہ گھر پر چیختا چلاتا تھا کہ وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا بار بار یہ ہی کہہ رہا تھا کہ امی بھائی جان نے بڑی ڈگری لی ہے، میں نے آج سے پہلے کبھی مستقبل کی کبھی پلاننگ نہیں کی تھی کیونکہ ( پلاننگ کرنے والی ذات تو اوپر والا پہلے ہی کر بیٹھا ہے ) ہم تو صرف کوشش کرسکتے ہیں کہ ڈگری کے بعد کیا کرنا ہے، میرا تمام فوکس ڈگری لینے پر ہی تھا اور یہ سب کچھ شاید جانے انجانے میں یا بچپن سے ہی میرے ذہن میں تھا اور اسی بات کو لے کر میں آج کامیاب تھا ۔ کافی دیر میں خوش ہونے کی اداکاری کرتا رہا پھر نڈھال سا ہو کر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا اور جانے کب آنکھ لگ گئی , کب اُٹھا کچھ پتہ نہیں۔…. مگر کچھ دنوں کے بعد ہی پتہ چلا کے عذاب تو ڈگری مکمل کرنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے. اس کی بنیاد ایم کیٹ ، سی ایس ایس، اور ان گنت مقابلہ بازی کے امتحانات ہوتے ہیں. ایک اوسط درجے کا طالب علم جو ڈگری حاصل کرنے کے بعد پھر وہ صفر سے ان مقابلہ بازی والے امتحانات کی تیاری وہ بھی اپنے گھر کے یعنی ( پاکستانی )جیسے معاشی و سنگین حالات میں شروع کردیتا ہے. تقریبا 10 سے 12 سال تک امتحانات، نتائج، انٹرویو اور پھر آخر میں جاکر اس مُلک میں تگڑی سفارش یا یا پھر ڈھیروں قائداعظم کی تصویر والے ( رزق حلال عبادت ہے ) اس طرح کی عبارت لکھے والے کاغذ منظور نظر عنایت پیش خدمت ہوں تو آخر میں کہیں جاکر 16 یا 17 اسکیل کی نوکری میسر آتی ہے. اس وقت ہماری زندگی کے شباب کے وہ 35 سال کی عمر میں سر کے بالوں میں چاندی اُمڈ آن پڑی ہے. ( کبھی یہ محاورتن صنف نازک کے لیے استعمال ہوتا تھا) ڈھل چکی ہوتی ہے اور ہماری زندگی میں آنے والی دوسرے پیا گھر سُدھارگئی ہوتیں ہیں . ہمارے کئیریر بنتے ہوئے ہمیں وہ بہت سے اپنے بچوں کی ٹیم سے ہمیں ماموں کہلواتی شاید وہ جان کر ہمیں ازیت دینا چاہتی ہے. جب کہ ہم ابھی اس ڈگری کی خاطر ابھی تک سہرا بھی نہ سجاسکے. ہمارے جیسے مڈل کلاس معاشرے میں ڈگری صرف خاندان والوں کے لیے ہی عزت ہوتی ہے. اس وقت ایک طالب علم کے لیے وہ اس وقت تک عذاب مسلسل ہے، جب تک وہ کوئی باعزت والی نوکری حاصل نہ کرلے. ڈگری والے عذاب کے دوران طالب علم پر صرف پریشر اور ذمہ داری کا بوجھ ڈالا دیا جاتا ہے. گھر والے ہر وقت چلتے پھرتے آئے دن اوّل درجے لانے کی تلقین کا واعظ بیاں کرتے رہتے ہیں اور اساتذہ مسلسل اپنی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لیے اپنے ٹیوشن کا منجن بیچنے کا طالب علموں کو فارماسوٹیکل کمپنی کی طرح ان گنت استعمال کے فوائد تو بتاتے ہیں مگر اس کے سائیڈ ایفیکٹ سے اپنا پلو جھاڑ لیتے ہیں. آج کل اساتذہ میں کچھ ایسے گھُس بیٹھیے بھی موجود ہیں جو طلباء و طالبات ذہنی و نفسیاتی طور پر آئے دن تشدد کرتے ہیں اور یہ تعداد آج کل ہر ادارہ میں کہیں نہ کہیں یہ گھُس بیٹھیے براجمان ہیں کیونکہ اس طرح کے اساتذہ کمزور طالب علم کو نفسیاتی مریض بنادیتے ہیں. یہ ڈگری اک عذاب ہے . ایک طالب علم سے بہت کچھ چھین لیتا ہے. بچہ بچپن میں آزاد پنچھی کی طرح اپنے ہر کام میں وہ ہواوں میں اُڑ رہا ہوتا ہے. پھر اس کے بعد تمام عمر ( عمر قید ) یعنی اوّل آنے کی ایسی دوڑ میں لگادیا جاتا ہے پھر وہ وقت کے اس ( خود غرض ) لمحمے میں اپنے بہن ، بھائی، رشتہ دار ، دوست اور پھر اس تک کو کھو بیٹھتا ہے جس سے انجانے میں عشق سمجھ بیٹھا وہ سراب کی طرح ہوتا ہے. ان تمام چیزوں کے پیچھے ڈگری کے عذاب ہی مسلط ہوتے ہیں. طلباء و طالبات کے گھر والے بھی سمجھیں کہ ایک طالب علم کن کن مسائل سے دوچار ہیں. ان ہر اتنا پریشر ڈالیں کہ ایک طالب علم کی برداشت میں ہو . خدارا انہیں ذہنی و نفسیاتی مریض نہ بنایں. ان ڈگریوں کو اس نسل ہر عذاب کی صورت میں مُسلط نہ کریں. اللہ تعالی ہر طالب علم کی حفاظت فرمائے . آمین ثمہ آمین
|