جنرل عاصم منیر کی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی
(Imran amin, Sheikhupura)
عمران امین
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے بعد سے جنرل عاصم منیر نے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں بھی قیام امن کو ترجیح دی ہے۔عسکری قیادت نے پاکستان کی معاشی ترقی اور امن و خوشحالی کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک کے سربراہان، ریاستی عہدیداران اورسفیروں سے اہم ملاقاتیں کیں اور ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ملک کو درپیش معاشی مسائل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران پاکستان کا مختلف ممالک کے ساتھ معاشی،عسکری اور سماجی شعبوں میں تعاون بڑھا جن میں خصوصی طور پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین نمایاں نظر آتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں عجیب چکر چل رہا ہے سیاست دانوں کی نالائقیوں کی وجہ سے پہلے ملک کی معیشت خراب ہوتی ہے اور پھر افواج پاکستان کے سپہ سالار کوذمہ داری دی جاتی ہے کہ ملکی اقتصادی حالت کو بہتر کریں اور غیر ممالک سے امداد حاصل کریں۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اپنے ایک سالہ دور میں گیارہ غیر ملکی دورے کر چکے ہیں اور ان دنوں اپنے بارہویں غیر ملکی دورے پر امریکہ میں ہیں۔انہوں نے پچھلے سال نومبر میں عہدہ کا حلف اُٹھا نے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا۔اُس وقت پاکستان کی اقتصادی حالت بہت پریشان کُن تھی اورواضح امکانات تھے کہ شاید پاکستان ڈیفالٹ کر جائے۔اس دورے کا واحد مقصد ملکی معیشت کی بحالی اور سعودی قرضوں میں سہولت پر بات کرنا تھا۔ سعودی عرب سمیت دنیا کے تمام ممالک امدادیاقرضوں کے معاملے پرسیاسی حکومتوں سے بات کرنے کی بجائے افواج پاکستان سے معاملات کرنا زیادہ معتبرسمجھتے ہیں۔آرمی چیف کا دوسرا دورہ متحدہ امارات کا تھا جس میں ملکی اقتصادی حالت کے سدھار کے لیے بات چیت مقصود تھی البتہ اُن کا تیسرا دورہ برطانیہ کا تھا،کچھ نادان پاکستانی صحافیوں کی جانب سے غلط دعویٰ کیا گیا کہ دورہ برطانیہ کے دوران جنرل عاصم منیر ایک خصوصی جہاز کے ذریعے امریکہ گئے ہیں،اس غلط دعویٰ کی آئی ایس پی آر کی جانب سے تردید کی گئی۔
اُن کا چوتھا دورہ ایک بار پھر متحدہ عرب امارات کا تھا جس میں SIFCپلیٹ فارم کے قیام پربات ہوئی جس کا مقصد ملکی معیشت کو بہتر کرنا اور درست سمت میں لانا تھا۔ جنرل عاصم منیر کا پانچواں دورہ چین کا تھا، اُس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے اس دورے سے اس تاثر کو قائم کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان نئے بلاک کا حصہ بننے جا رہا ہے اور پرانے ساتھی امریکہ کو گڈ بائے کہہ دیا ہے۔پاکستانی سپہ سالار کا چھٹا دورہ ایران کا تھا جہاں انہوں نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی،اس کے بعد ایرانی صدر نے پاکستان کا جوابی دورہ بھی کیا۔ جنرل عاصم منیر نے پاکستانی معیشت کو لاحق خطرات کو بھانپتے ہوئے اپنا ساتواں دورہ متحدہ عرب امارات کا رکھا۔اُن کا آٹھواں دورہ ازبکستان،نواں دورہ ترکی، دسواں آذر بائی جان اور گیارھواں دورہ کویت کے ساتھ ایک بار پھر متحدہ عرب امارات کا تھا۔پاکستان میں سیاسی اور مفاد پرست حلقے آرمی چیف کے امریکی دورے کو اگلے سال ہونے والے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں اور مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اگر ہم دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ خالصتاً مالی،عسکری اور جغرافیائی معاملات سے جڑا ہوا ایک دورہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امریکہ کو پوری دنیا میں تنہائی کاسامنا ہے اگر فلسطین،اسرائیل جنگ بندی کی قراردادکو امریکہ ویٹو نہ کرتاتو اُس کو بہت بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ نا تھا۔ اُس کے پرانے ساتھی برطانیہ، اٹلی، سپین، فرانس وغیرہ بھی اُس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی کھٹائی کا شکار ہیں۔امریکی صدر نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت امریکہ کے باشندوں کے خلاف کام کر رہا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں بھارتی نژاد امریکی کاقتل ان تعلقات کو مزید الجھا رہا ہے دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ کو اندرون ملک بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سے دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا دہشت گردی کے اس عفریت کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے اور تازہ ترین رپورٹس کے مطابق افغانستان کی سرزمین دہشت گرد ی کے ان واقعات میں براہ راست ملوث ہے لہذا پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو سمجھتے ہوئے امریکہ ایک بار پھر سے ہمارے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔
بد قسمتی سے ان تعلقات میں پچھلے ڈیڑھ سال سے سرد مہری کا عنصر شامل ہوا تھا جب ایک سیاسی جماعت نے اپنی دکان چمکانے کے لیے،پاک امریکہ تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی اور بظاہر کامیابی بھی حاصل کی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ پاک امریکہ تعلقات کو خراب کرنے کی یہ مہم ناکام ہو گئی ہے اور ایک سال بعدہی ہمارا سپہ سالار افواج پاکستان امریکہ میں موجود ہے جہاں اُن کی اعلیٰ امریکی عسکری،کاروباری اور حکومتی عہدیداران سے ملاقاتیں ہوئیں جن سے دونوں ممالک کے درمیان عسکری،معاشی اور سماجی معاملات میں مزیدپیش رفت ممکن ہو سکے گی۔اس کے علاوہ امریکہ کو روس یوکرائین،فلسطین اسرائیل جنگ اور مڈل ایسٹ کے معاملات کو سدھار نے کے لیے پاکستان کی مضبوط حمایت کی ضرورت ہے۔دوسری طرف پاکستان کو بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکی امداد اورحمایت درکار ہے۔پاکستان کے لیے غیر قانونی افغانیوں کے موثر انخلاء کے لیے امریکی آشیر باد کاملنا مفید ثابت ہوگا۔اس کے علاوہ ملکی معیشت کی بحالی کا چیلنج بھی منہ کھولے کھڑا ہے اگرچہ اس وقت ISFC اور سی پیک سے ہماری اقتصادی طور پر بہتری کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد ہماری گرتی معیشت کو کھڑا کرنے میں معاون ہوگی اور آئی ایم ایف کی امدادی قسط کے بروقت اجراء کے سلسلے میں امریکہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنرل عاصم منیر کے کامیاب امریکی دورے پر پاکستان کے روشن مستقبل کا دارومدار ہے اور ہم پر اُمید ہیں کہ ایک بار پھر ہمارا سپہ سالار کامیاب ہوگا۔
ڈی آئی خان میں دہشت گردی کے واقعہ میں شہید ہونے والے پاک فوج کے ستائیس جوانوں کی ہمت اور جرائیت کو سلام۔شرپسند پروپیگنڈے اور دہشت گردی کے واقعات سے پاک فوج اور عوام کے رشتے کو کمزور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قوم جانتی ہے کہ اُن کے آرام کی خاطر فوج کے جوان جاگتے ہیں اور ملک کی سلامتی کے لیے اپنا خون قربان کرتے ہیں۔ہم اگر اقوام عالم کی نظر میں عزت دار ہیں تو ان کا سہرہ مضبوط افواج پاکستان کے سر ہے۔پاک فوج زندہ باد۔