“ میرا جسم میری مرضی “

پاکستان میں جب سے کچھ لبرل قسم کی مخلوق نے اپنے مفادات کے لیے ہماری نوجوان نسل اور خاص کر یہ کیمبرج جیسے اداروں سے نکل کر ٹیڑھے منہہ سے چند انگریزی نماء جملے کیا بولنے آگے اُن ہی مغرب کی تقلید کرنے میں جُٹھے ہوئے ہیں.
اور وہ بھی اُس مغربی معاشرے کی نکالی پر جن کی اکثریت نئ نسل کو یہ پتہ نہیں کہ ہمارے اصل والدین کون ہیں.
ان کا معاشرہ جس تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے. اُس ہی سے متاثر چند بدبخت ہمارے معاشرے کو بھی اُس ہی ڈگر پر لے کر جانا چاہتی ہیں.
جن کو باقاعدہ ہمارے معشرقی اور اسلامی معاشرے میں جو عورت کا احترام بتایا گیا ہے.
اس کا مغربی معاشرہ عسر و عشیر بھی نہیں
مغربی معاشرہ میں صرف پانچ فیصد خواتین ایسی جن کی ازواجی زندگی دس سالوں میں محیط ہے اکثریت مغربی خواتین کی ازواجی زندگی صرف پانچ سالوں پر محیط ہے اکثریت بغیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ خواتین ہیں.
اس ہی سے مغربی معاشرے سے متاثر ایک بہن کی رواداد
شادی سے پہلے
بیٹی :
پاپا میں کسی کی غلامی نہیں کر سکتی۔
باپ :
کوئی کسی کی غلامی نہیں کرتا میری بچی۔
سب اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔
جو کام عورتوں کے لئے مشکل ہوتے ہیں، وہ مرد کرتے ہیں اور جو مردوں کے لئے مشکل ہوتے ہیں، وہ عورتیں کرتی ہیں، یونہی مل جل کر گزارا ہوتا ہے۔
شادی کے بعد :
بیوی :
میں کھانا گرم نہیں کروں گی.
شوہر :
تو اپنے باپ کے گھر واپس چلی جاؤ۔
میں تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صبح سے شام تک محنت کرتا ہوں اور تم میری ضروریات پوری نہیں کرسکتی تو ٹھیک ہے پھر مجھے بھی تمہاری ضرورت نہیں۔
طلاق کے بعد :
(اسلام آباد کی سڑکوں پر بینر اٹھائے ہوئے.
کھانا خود گرم کر لو۔
کھانا خود گرم کر لو۔
کھانا خود گرم کر لو۔
کھانا خود گرم کر لو۔
باپ کے مرنے کے بعد :
بھائی :
دیکھو میری بہن!
میں اب فیملی والا ہوں، میری بیوی تمہیں اور برداشت نہیں کر سکتی،
تم اپنا بندوبست کہیں اور کر لو۔

نوکری کی تلاش میں :
دفتر والے :
ہمارے پاس ایک فی میل ریسپشنسٹ کی جگہ خالی ہے، آپ ماشاء اللہ خوبصورت ہیں، آپ ہمارے ہاں کام کر سکتی ہیں۔
ڈھلتی عمر :
دفتر والے :
بی بی!
ہم معذرت خواہ ہیں، آپ کے کام میں اب پہلے جیسی تندہی نہیں رہی لہٰذا آپ کہیں اور نوکری ڈھونڈ لیں، ہمیں اب آپ کی ضرورت نہیں رہی۔
ظالم بڑھاپا :
نئی جگہ والا :
محترمہ! آپ کی اتنی عمر ہو گئی ہے، اب میں آپ کو کیا نوکری دوں، اب تو آپ کو آرام سے اپنے بچوں کی کمائی کھانی چاہیئے.
بینر والی آنٹی :
میرے بچے نہیں ہیں، کوئی نہیں ہے میرا۔
نیو دفتر والا :
اوہ!
چلیں میں آپ کے لئے کچھ کرتا ہوں۔
میرا 20 لوگوں کا اسٹاف ہے،
کیا آپ ان سب کے لیئے کھانا پکا سکتی ہیں ؟
میں آپ کو چھ (6) ہزار روپے ماہانہ دوں گا.
لبرل آنٹی :
صرف چھ (6) ہزار ؟
نیو دفتر والا:
میں جانتا ہوں کہ ان چھ ہزار میں آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوتی، مگر میں مجبور ہوں، میرے پاس اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔
بینر والی آنٹی :
ٹھیک ہے۔
مجھے منظور ہے.
اس کی آنکھوں سے آنسو زارو زار بہہ رہے تھے
اور سوچ رہی تھی کہ :
کاش !
جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی۔۔!!

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 310 Articles with 114766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.