حضرتِ انسان کی دنیا میں تشریف آوری سے روزِ حاضر تک انسانی شعور مسلسل ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ خالق کی تخلیقات کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا انداز مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ ہر گھڑی کائنات میں تدبر و تفکر کے نت نئے زاویے متعارف ہو رہے ہیں۔ حسن اور خوبصورتی کے کئی معیار متعین کیے جا چکے ہیں۔ اس سب کی وجہ سوچنے والا دماغ، جذبے سے بھرپور دل، تخلیقی و اخلاقی صلاحیتیں اور جمالیاتی ذوق ہے جو بارگاہِ خالق سے حضرتِ انسان کو خاص طور پر ودیعت کیا گیا اور جس کی وجہ سے حضرتِ انسان دیگر مخلوقاتِ ارض و سماوات سے الگ اور برتر قرار پایا ۔ انسانی فطرت میں یہ راز تحلیل ہے کہ انسان اپنے احساسات و جذبات، تجربات و رجحانات کا دوسروں سے اظہار کرنا چاہتا ہے۔ اور خوبصورت پیرائے میں کیا گیا یہ اظہار ہی ادب کہلاتا ہے۔ مغربی مفکرین کے مطابق بھی Literature consists of those writing which interpret the meanings of nature and life, in words of charm(Henry Van Dyke) ادب کی دو بڑی اصناف نثر اور شاعری ہیں اور دونوں کا حقیقی مقصد تخلیق کار کے اندر موجود حقیقی خوبصورتی کا اظہار ہے۔ جس کے ذریعہ سے اس کو بذات خود تو ایک راحت نصیب ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیق کار اپنے معاشرے کی عکاسی بھی کرتا ہے اور نسلِ نو کی تربیت کی نئی بنیادیں بھی استوار کرتا ہے
تخلیقِ ادب کا بہت بڑا مقصد جمالیاتی ذوق کی تسکین بھی ہے جمالیات ایسا ذوق ہے جو پروردگار نے خود انسان کے اندر ودیعت فرمایا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے افراد کے لیے جمالیاتی ذوق کی تسکین کی اہمیت کو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ معاشرہ ایک چراغ کی مثل ہے اور اس میں بسنے والے افراد اس چراغ میں رکھے گئے فتیلےکی مانند ہیں۔اس چراغ میں جلنے والے تیل کو جمالیاتی ذوق سمجھیں اور اس سے نکلنے والی لو حضرتِ انسان کے علم اور نظریات کی عکاس ہے۔
دوستو! چراغ میں ایک خاص مقدار میں تیل موجود ہو تو اس سے نکلنے والی لو جو درحقیقت آگ ہی ہوتی ہے اطراف کو روشن کرتی ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنتی ہے لیکن اگر تیل موجود نہ ہو تو وہی آگ فتیلے کے لیے پیغام فنا ثابت ہوتی ہے اور چراغ کو بھی سیاہ کر دیتی ہے جس شخص کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہوئی ہو اس کے نظریات چراغ کی لو کی مانند معاشرے کو روشن کرتے ہیں اس کو تہذیب و تمدن کی راہ دکھاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس جس نے اپنے فطری تقاضے کو پورا نہ کیا ہو اس کے نظریات اس کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی بربادی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ایسے افراد جن کی جمالیاتی حس کی تسکین ہوئی ہو ان کو ذہنی و قلبی سکون اور روحانی راحت حاصل ہوتی ہے ان کی فکر اور نظریات لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں اور وہ بلند مقاصد کے لیے سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں۔جبکہ وہ لوگ جن کی یہ حس تسکین سے محروم رہی ہو وہ معاشرے کے کارآمد افراد قرار نہیں پاتے بلکہ ایسے افراد کی قیادت معاشرتی زوال کا باعث بنتی ہے۔ دین اسلام کیوں کہ دین فطرت ہے اسی لئے اس میں انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو نصاب مرتب کیا گیا وہ اپنے پڑھنے والوں کو جہاں ہدایت اور رہنمائی سے روشناس کرواتا ہے وہیں ان کے جمالیاتی ذوق کی آبیاری بھی کرتا ہے۔ قرآن اور جمالیات کا آپس میں گہرا رشتہ ہے جن قارئین کو جمالیات سے گہری دلچسپی ہوتی ہے ان کیلئے فہمِ قرآن آسان سے آسان تر ہوتا چلا جاتا ہے مطالعہ قرآن سے جمالیاتی ذوق کی جلا کا سامان ہوتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ حسن اور اس کی طلب ہماری فطرت کا حصہ ہے اور جمالیاتی ذوق کی تسکین ہماری فطرت کی طلب ۔خالقِ عالمین نے اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی ہماری لطافتِ حسی اور جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان وافر مقدار میں کیا ہے۔
اب وہ لوگ جو اس فطری تقاضے کو پورا کرتے ہیں ان میں شرافتِ کردار،نزاکتِ گفتار ،لطافتِ نظریات کے ساتھ ساتھ احساسات کی باریکیاں جنم لیتی ہیں جب کہ فطری تقاضوں کو پورا نہ کرنے والے افراد کے اندر بھونڈا پن اور پھوہڑ پن دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بغداد ، ثمرقند ، بخارہ ، قرطبہ و غرناطہ کی درس گاہوں نے جہاں بڑے بڑے شاہ سوار تیار کیے وہیں بہت سے قلم کار بھی ان کی آغوش میں پروان چڑھے۔ہمارے تمام اسلامی فنون میں جن ہستیوں کو امام مانا گیا وہ تمام آئمہ انتہائی ادب شناس اور ادبی ذوق کی حامل شخصیات تھیں۔اور ان کی تمام تر تحقیقی اور تخلیقی خدمات اس پر دال ہیں۔ہمارے تمام اسلامی رہنماؤں کی ادب وابستگی بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔لیکن ڈوبتے سورج کے ساتھ کئی رشتے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئے۔مدارسِ دینیہ میں شمعِ ادب بجھا دی گئی اور شش جہت میں ظلمات کی حکمرانی ہوگئی۔ |