�������اللہ رازق ہے

یہ آرٹیکل آج کے جدید دور ٢٠٢٤ کے مطابق تحریر کیا گیا ہے جس میں رزق کے بارے مین بتایا گیا ہے کہ اللہ کیسے رازق ہوتا ہے

اللہ رازق ہے
پرانے دور کے لوگ کہتے تھے کہ اپنے نفس کو مارو۔ اب آج کے جدید دور اکیسویں صدی میں آپ کتنا اپنے نفس کو مارسکتے ہیں!!! میں کہتا ہوں کہ نفس کو اتنا بھی نہ مارو کہ اپنے حق سے ہی دست بردار ہوجاؤ، اپنا حق تو لو۔ اتنا نفس کو مار کر کیا کرنا!!! نفس کو مارنے میں کہیں آپ کی تعلیم روزگار شادی بیاہ وغیرہ ہی نہ تباہ ہوجائے تو ایسے نفس کو مارنا بالکل بےکار ہے۔ اپنی عقل سے سوچو کہ آپ کا حق ہے کم سے کم کہ آپ کو تعلیم اور روزگار تو ضرور ملنا چاہیے۔ ورنہ تو زندگی ہی بےکار ہے۔ زندہ رہنے کا پھر مقصد ہی کیا ہے!!! زندگی کہتے کس کو ہیں۔ اللہ نے منع تو نہیں کیا آپ کو کہ آپ شادی بیاہ اور حلال روزگار نہ کمائیں یا تعلیم حاصل نہ کریں۔ وہ تو صحابہ کرام بھی پیسے کماتے تھے۔ اپنے گھر کا خرچ کیسے اٹھائیں گے!!! نفس کو اتنا ضرور مارو کہ غصے کو قابو میں رکھو۔ اکسیویں صدی کے مطابق بہترین طریقہ نفس کو مارنے کا یہی ہے کہ غصہ کنٹرول میں رکھو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں نفس کو مارنے کے لیے روزہ رکھ لو، تو یہ بھی ٹھیک نہیں۔ روزہ صرف مخصوص دنوں میں رکھا جائے۔ اگر آپ کو پڑھنے لکھنے کا شوق نہیں تو بیشک زیادہ نہ تعلیم حاصل کرو لیکن حق حلال کا روزگار ضرور کماؤ۔ آج اکیسویں صدی کے مطابق اور میرے ذاتی تجربے کی بنا پر میں یہ کہوں گا کہ رزق دراصل کاغذ کے نوٹ ہوتے ہیں جن کو روپیہ بولتے ہیں۔ ان کو حق حلال طریقے سے کما کر پھر روٹی خرید کر توڑو تو وہ رزق ہے، بصورتِ دیگر وہ روٹی رزق نہیں بلکہ لنگر ہے۔ اگر لنگر ہی کھانا ہے تو داتا صاحب یا کسی بزرگ کے مزار پر جا کر کھا لیا جائے وہ پھر بھی بہت بہتر ہے کہ آپ نے کسی بزرگ کے مزار سے لنگر کھایا۔ حکومت کا یا اپنے گھر میں بھی اگر لنگر کھاؤ تو بھی کوئی فائدہ نہیں، کچھ حاصل نہیں۔ محنت کی کمائی سے روٹی توڑو تو وہی رزق ہے، ورنہ لنگر ہی ہے۔ روٹی کو لنگر ہی کہا جاتا ہے۔ جنت میں حلال پیسہ کمانے والے تو سب ہی ہونگے۔ مزدور بھی کماتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اربوں روپیہ کماؤ۔ اللہ رازق ہے کا مطلب روٹی نہیں ہے بلکہ بارشوں سے فصلیں سے پیدا کرنا ہے۔ یہ ہرگز نہ کہنا کہ اللہ کسی کو بھوکا نہیں مارتا، لوگ قحط سے بھی مرتے ہیں۔ ایتھوپیا میں لوگوں کو کتے بلیاں تک کھانے پڑے تھے وہ ان کا رزق بنا تھا۔ اگر کسان کھیتوں میں کھیتی باڑی کرے دانہ بو دے لیکن فصل نہ اگے برساتیں ہونے کے باوجود تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رازق نہیں ہے اس فصل پہ۔

ایک دس سال کا بچہ اگر پیسہ کماتا ہے تو وہ پچاس سال کے آدمی سے بڑا سمجھا جائے گا کیونکہ وہ رزق کماتا ہے۔ اگر پچاس سال کا آدمی کام نہیں کررہا تو وہ اس سے چھوٹا تصور ہوگا، کیونکہ یہ دنیا پیسوں کی ہے۔ حلال رزق کمانا بھی عبادت ہے۔ عمر سے دنیا نہیں چلتی۔ دنیا اسی کو مانتی ہے جو پیسے کماتا ہے۔ وہ دس سال کا بچہ بھی آپ سے سینیئر سمجھا جائے گا اگر وہ پیسے کما رہا ہے اور آپ کچھ نہیں کررہے۔ اسی طرح دفتروں میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر آپ سے پہلے کوئی نوکری پہ لگا ہے یا اس کی تنخواہ آپ سے زیادہ ہے تو وہ آپ سے سینئیر کہلائے گا، وہاں عمر نہیں چلتی۔ قارئین سمجھیں گے کہ مصنف صاحب جذباتی ہوگئے، بھئی جذباتی کی بات نہیں ہے، بات سمجھنے کی ہے۔ آج کے جدید دور کے مطابق چلیں۔ یہ نبیوں کا دور نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔

جتنی بھی عزت پانی ہے دنیا میں پاؤ۔ دنیا میں عزت حاصل کرو۔ دنیا میں حق حلال طریقے سے پیسہ کما کے نام پیدا کرو۔ دنیا میں قائداعظم سمیت تمام مشہور بڑے بڑے لوگوں نے دنیا میں ہی نام و عزت کمائی اور ساتھ میں پیسہ بھی بہت تھا ان تمام لوگوں کے پاس۔ مرنے کے بعد تو انسان کی پہچان ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا نام تک نہیں پکارا جاتا۔ مرنے کے بعد تو انسان کو مرتے ہی مردہ کہا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد کیا عزت حاصل کرنا؟؟؟ عزت ذلت سب دنیا میں ہے۔ میں نے یہ آرٹیکل آج کے جدید 2024 کے دور کے مطابق تحریر کیا ہے جیسا کہ عملی طور پر آج کل ہوتا ہے۔ اس میں وہ باتیں لکھیں ہیں جو میں نے عملی طور پر اپنی آنکھوں سے ہوتی ہوئی اس دنیا میں دیکھی ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ پیسوں کے بغیر کیسے زندہ رہیں گے؟ یہ 400 سال پرانا دور نہیں ہے سن 1600ء عیسویں کا، جب اولیاکرام کا دور تھا۔ اس وقت تو لوگ آسمان پر اڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے بھئی۔ 400 سال پہلے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس، ٹوکن ٹیکس، ٹول ٹیکس، صفائی ٹیکس، بینر یا ایڈورٹائزینگ ٹیکس، سانس لینے کا ٹیکس، زندہ رہنے کا ٹیکس، وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ فائلر اور نان فائلر کا زمانہ نہیں تھا نہ تصور تھا۔ بجلی پانی گیس کے بل نہیں آتے تھے نہ ہی یہ سہولیات تھیں۔ آج کا دور مہنگائی، بےروزگاری اور پیسوں کا دور ہے۔ مشکل وقت ہے۔

حق حلال طریقے سے ایمانداری کے ساتھ پیسے کمائیں اور اپنے گھر کا خرچ اٹھائیں۔ عملی زندگی میں بجلی پانی گیس کے بل پیسوں سے ادا ہوتے ہیں، نمازوں سے نہیں۔ بینک والے پیسے مانگتے ہیں دو رکعت نماز نہیں مانگیں گے آپ سے، کہ دو رکعت نماز جمع کروا دو بل جمع ہوجائے گا۔ گھر کا خرچ ہمیشہ پیسوں سے چلتا ہے۔ اسی طرح مساجد اور دینی مدرسوں کے بل اور اخراجات بھی پیسوں سے ہی پورے ہوتے ہیں نمازوں سے نہیں۔ نماز تو عبادت ہے کرنا ہے یا نہیں آپ کی مرضی۔ حساب کتاب عبادات سمیت پیسوں اور اعمال کا ہوگا۔ غریب آدمی اگر کسی کو قتل کردے تو کیا حساب نہیں دے گا؟ جنت کے درجے دراصل درجے نہیں ہوتے۔ بس وہ تو ایک رہنے کی جگہ ہے۔ جنت جنت ہی ہوتی ہے چاہے اس کا کوئی بھی درجہ ہی کیوں نہ ہو، بیشک آخری درجہ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ دوزخ تو نہیں ہے نا، ہے تو جنت ہی۔ اگر ایک مزدور اینٹیں اٹھاتا ہے، اس کے بیوی بچے بھی ہیں، سائیکل یا موٹرسائیکل بھی چلاتا ہے، حق حلال کے رزق کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے، اگر وہ جنت کے آخری درجے میں بھی چلا جائے تو وہ اس شخص سے کروڑ درجے بہتر ہے جو رزق نہیں کماتا بلکہ لنگر کھاتا ہے۔ جنت میں حلال پیسہ کمانے والے سب ہونگے۔ مرنے کے بعد انسان کی روح اگر دنیا میں واپس آجائے اور پیسہ کمانے لگے تو وہ صرف اللہ کے فرشتوں کے لیے ہی کمائے گا جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر آپ اللہ کے فرشتوں کے لیے ہی پیسہ کما کے ان کو کپڑے خرید کر دیں گے۔
 
آرٹیکل کا نتیجہ: بس جو کچھ بھی کرنا ہے دنیا میں ہی کرنا ہوتا ہے مرنے کے بعد کچھ نہیں کرنا ہوتا۔

kashif farooq
About the Author: kashif farooq Read More Articles by kashif farooq: 10 Articles with 69042 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.