سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں سنا ہے۔
کیا سنی سنائی بات پر یقین کرنا چاہئے؟
کبھی کبھار کر لینا چاہیئے۔
فراز صاحب نے تو شائد کسی ایک کے بارے میں سنا ہو گا۔
اور وہاں تو تین تین ہوں گے۔
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں۔
لیکن پھول تو ایک بھی بہت ہوتا ہے تو اتنے پھول کیا کرو گے؟
کیسے سنبھال سکو گے؟
ایک کا لفظ تو اسی کو زیبا ہے جو واحد ہے جو یکتا ہے۔
تو یہ پھول بھی تو اسی کے تذکرے سے جھڑیں گے جو اس یکتا کا محبوب ہے۔
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں۔
اور یہ خود کلامی تین دن سے جاری تھی جب ایک دن دوپہر کے وقت میں دوکان پر بیٹھا سود و زیاں کا حساب کر رہا تھا کہ موبائل پر ایک نوٹیفکیشن موصول ہوتا ہے
Haris But tagged you in a post.
"ہیں۔ یہ بٹ صاحب کو کیا ہو گیا ہے۔"
مصروفیت کی بنا پر فوری چیک نہ کر سکا لیکن ذہن کے کسی کونے کھدرے میں یہ اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا۔
شام کو معلوم ہوا کہ سیالکوٹ ٹی ہاؤس میں پروفیسر جلیل عالی صاحب ستارہ ء امتیاز کے ساتھ ایک شام منائی جا رہی ہے۔ جس کے مہمان اعزاز نظم کےمنفرد لہجے کے مالک افتخار بخاری صاحب ہوں گے اور صدارت معروف نقاد اور نثرنگار حمید شاہد صاحب تمغہ ء امتیاز کریں گے۔
" جی قادر بھائی کیا پروگرام ہے۔ چلیں؟"
" آپ کا کیا خیال ہے۔ چلیں؟" میں نے الٹا سوال کر دیا۔
"چلتے ہیں۔"
"ہاں، چلتے ہیں۔"
" اچھا ایک بات بتائیں کہ ہم وہاں سامعین کی حیثیت سے جا رہے ہیں نا"
"کیا مطلب؟" حارث بٹ کے لہجے میں حیرت تھی.
"مطلب، ہمیں وہاں کچھ پارٹی سی پیٹ تو نہیں کرنا پڑے گا، اگر کرنا ہے تو کچھ تیاری کر لیں۔"
" نہیں، میرا خیال ہے کہ ہم اس بار صرف سامعین ہی بن کر جائیں، ویسے میں ارسلان سے بات کر لوں گا۔"
اور پھر حارث بٹ نے کنفرم کر دیا کہ ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں، ہم صرف سامعین ہی رہیں گے۔
سامع ہونے کے باوجود کسی ادبی تقریب میں بالکل خالی ہاتھ جانا مجھے عجیب لگ رہا تھا۔
تو پھر۔۔۔؟
کوئی کتاب تو پاس ہونی چاہئے۔۔۔۔
پروگرام چار بجے شروع ہونا تھا۔ لیکن ہم اپنی قومی روایت کے مطابق سوا چار بجے گھر سے نکلے۔
اور جب سیالکوٹ ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے تو ابھی چند ایک شرکاء آئے تھے۔ اور منتظمین انتظامات کا حتمی جائزہ لے رہے تھے۔
کچھ دیر بعد عالی صاحب اور ان کی مسز ، حمید شاہد صاحب اور سعید راجہ صاحب تشریف لے آئے۔ یہ سبھی سیدھے راولپنڈی سے آ رہے تھے۔ جلد ہی اردو نظم کی ایک خوبصورت شناخت افتخار بخاری صاحب بھی رونق محفل ہو گئے۔
دیگر مہمانان گرامی بھی آ رہے تھے۔
کچھ دیر بعد تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
"قادر بھائی، یہ تصویر تو دیکھیں"
حارث بٹ نے دیوار پر آویزاں تصویروں میں سے استاد دامن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"واقعی۔ یہ تصویر کہیں دیکھی ہوئی لگ رہی ہے۔" میں سوچ میں پڑ گیا۔
ساتھ ہی میری نظر اپنے ہاتھ میں پکڑی عرفان جاوید صاحب کی کتاب "سرخاب" پر پڑی اور سارا معاملہ میری سمجھ میں آ گیا۔
"میں یہ پیج کھول کر ساتھ رکھتا ہوں، آپ اس پیج اور استاد کی اکٹھی تصویر بنائیں۔ بس میرا ہاتھ نہ آئے۔"
حارث بہت ایکسائٹڈ ہو رہے تھے۔
اور میں نے کلک کر دیا۔
اس دوران تقریب جاری تھی اور مقررین تجمل حسین تجمل صاحب، محمد اجمل فاروقی صاحب، ڈاکٹر عمر بن عبدالعزیز صاحب، ارسلان چوہان صاحب، عادل ورد صاحب، خالد لطیف صاحب اور آصف بھلی صاحب اپنے اپنے انداز میں خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ کچھ اور بھی احباب تھے، افسوس میں ان کے ناموں سے واقف نہیں، لیکن ان کے الفاظ بہت شاندار تھے۔
محمد اجمل فاروقی صاحب نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔
ارسلان چوہان صاحب نے عالی صاحب کی پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے بہت خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔
مہمان اعزاز افتخار بخاری صاحب نے اپنے قریبی دوست اور ساتھی عالی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔
صدر محفل جناب حمید شاہد صاحب نے عالی صاحب کی شخصیت اور ان کے کلام کے فنی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
اور جب جلیل عالی صاحب ڈائس پر تشریف لائے تو حاضرین کی کیفیت ہی کچھ اور تھی۔ عالی صاحب نے بہت گہری بات کی کہ جب کوئی شاعر غزل یا نظم سے پہلی بار نعت کی جانب پلٹتا ہے تو اس کی قلبی واردات چھپائے نہیں چھپتی اور ایک ایک لفظ اس کے جذبات کو آشکار کر رہا ہوتا ہے۔ عالی صاحب نے اپنی کتاب "نور نہایا رستہ" کے جستہ جستہ اشعار پڑھ کر بھی نوازا۔
اس کے بعد جلیل عالی صاحب نے حاضرین میں اپنے نعتیہ مجموعہ "نور نہایا رستہ" کی ڈیجیٹل کاپیاں تقسیم کیں۔
جب ہماری باری آئی تو میں اور حارث بٹ دونوں اکٹھے عالی صاحب کے قریب پہنچ گئے۔
"السلام علیکم سر. کوٹ رادھا کشن سے۔۔۔۔۔۔" میں نے کچھ توقف کیا۔
"جی جی، میں بھی وہیں سے ہوں۔"
عالی صاحب کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری۔
" جی سر، کوٹ رادھا کشن سے چوہدری عبد الروف صاحب اور ان کے اہل خانہ نے آپ کے لئے اسپیشل سلام بھیجا ہے۔"
"وعلیکم السلام کیا ان میں سے کوئی یہاں موجود ہے؟"
انھوں نے حاضرین کو کھوجتے ہوئے پوچھا۔
"نو سر، وہ آ نہیں سکے، لیکن انھوں نے فون پر اسپیشل کہا تھا۔"
"تو آپ ۔۔۔۔۔۔؟"
"جی سر، ان سے بہت قریبی تعلقات ہیں، خاص طور پر ان کے بچوں سے، ادبی نوعیت کے۔"
"ہاں، وہ بہت اچھے انسان ہیں اور ان کے بچے بھی بہت محبت کرنے والے ہیں۔"
عالی صاحب کا لہجہ خلوص اور محبت سے شرابور تھا۔
عالی صاحب سے محبت بھرا تحفہ وصول کرنے کے بعد ہم دونوں بخاری صاحب کی خدمت میں جا پہنچے۔ ان کے ساتھ ہی حمید شاہد صاحب بھی تشریف فرما تھے۔
"السلام علیکم سر، کیسے ہیں آپ؟"
"وعلیکم السلام۔ الحمدللہ میں ٹھیک ہوں۔"
بخاری صاحب کے ماتھے پر وہ شوخ و شریر لٹ موجود تھی، جس کی خوبصورتی میں کبھی فرق نہیں آیا چاہے وہ "سرخاب" کے اوراق پر نمایاں ہو یا بخاری صاحب کی روشن پیشانی پر اٹھکیلیاں کر رہی ہو۔
"سر، اگر آپ اجازت دیں تو ایک تصویر آپ کے ساتھ۔"
"ہاں ہاں۔ کیوں نہیں, آپ ادھر آ جائیں۔" انھوں نے صوفے پر جگہ بنانے کی کوشش کی۔
"نو سر۔ آپ بیٹھیں، ہم پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔" میں نے "سرخاب" ان کو دکھاتے ہوئے کہا۔ "اس میں جو آپ کا اسکیچ ہے، اس کے ساتھ۔"
"یہ تو۔۔۔۔۔۔۔" وہ تھوڑا سا حیران ہوئے
"جی سر۔۔ یہ عرفان جاوید صاحب کی کتاب ہے، جو کراچی میں ہوتے ہیں۔ میں نے ان کو آج کی تقریب کا فلیکس بھی بھجا تھا۔
"اچھا اچھا، تو وہ آپ تھے۔" بخاری صاحب نے ایک قہقہہ لگایا۔
"مجھے ان کا فون آیا تھا، میں نے پوچھا کہ جی آپ کو اس پروگرام کا کیسے پتہ چلا؟ تو کہنے لگے کہ جی ہمارا بھی ایک بندہ ہے سیالکوٹ میں۔"
"جی سر۔ بہت محبت والے آدمی ہیں، یہ کتاب مجھے انھوں نے ہی بھیجی ہے۔"
اتنی دیر تک حارث بٹ اپنا سیل قریب ہی موجود ایک میم کو پکڑا چکے تھے۔ اور ہم دونوں بخاری صاحب کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔
"السلام علیکم، سر مجھے آپ سے ایک شکوہ ہے۔"
بخاری صاحب کے آٹو گراف کے بعد میں نے ڈائری حمید شاہد صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"جی"
حمید شاہد صاحب نے مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں میری طرف دیکھا۔ "شائد دل میں پیچ و تاب کھا رہے ہوں کہ یہ کون ناہنجار ہے جو اس باعزت محفل میں ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکایت کر رہا ہے۔
"جی سر۔ میں نے کئی مہینوں سے آپ کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی ہوئی ہے اور وہ ابھی تک پینڈنگ رکھی ہے آپ نے"
میں نے سادگی سے کہا تو ان کا زوردار قہقہہ نکل گیا۔
"فیس بک پر؟" انھوں نے میری طرف دیکھا اور اپنا سیل بخاری صاحب کو پکڑا کر ڈائری پر لکھنے لگے۔
"جی سر۔ میں گھر جا کر اسے پھر ریفریش کر دوں گا۔"
"ٹھہریں۔ کس نام سے ہے؟ بخاری صاحب نے سکرول کرتے ہوئے پوچھا۔
"غلام قادر۔ یہ ڈولفن والی آئی ڈی۔"
"یہ دیکھیں۔" انھوں نے مجھے دکھاتے ہوئے اسے کنفرم کر دیا.
"تھینک یو سر "
حمید شاہد صاحب کے بعد عالی صاحب نے بھی شفقت فرماتے ہوئے ڈائری کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل کاپی پر بھی اپنے قیمتی الفاظ نقش کر دیئے۔
اس دوران ریفریشمنٹ کے ساتھ فوٹو سیشن بھی ہوتا رہا۔ گروپ فوٹو بھی ہوئی۔
معزز مہمانوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتظامیہ نے ان کی صدارت میں ایک مختصر مشاعرے کا اعلان کردیا۔ اس دوران حارث بٹ کو گھر سے فون آ رہے تھے اور وہ واپس جانا چاہتے تھے۔
"لیکن ابھی تو پروگرام باقی ہے؟"
"نہیں۔ قادر بھائی، مجبوری ہے، مجھے جانا ہے۔"
"اچھا۔۔۔۔ تو پھر آپ چلیں، میں آ جاؤں گا۔"
"پکی بات ہے نا" ان کے لہجے میں شکوک تھے کیونکہ میرے پاس سواری نہیں تھی۔
"ہاں ہاں۔ آپ بے فکر ہو کر جائیں۔ میں آ جاؤں گا۔"
میرا خیال تھا کہ شائد مشاعرہ صرف نعت کے دائرے میں ہو گا۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ غزل اور نظم کا بھی احاطہ کر رہا ہے۔ میں نے اپنے سیل کو چیک کرنا شروع کیا کہ شائد کچھ برآمد ہو جائے۔
"کیا میں ایک چھوٹی سی نظم یا غزل پڑھ سکتا ہوں؟"
میں نے اپنے قریب کھڑے اجمل فاروقی صاحب سے پوچھا۔
"نہیں، صرف نعت۔" پھر کچھ توقف کے بعد بولے۔" میں ڈاکٹر عمر سے پوچھتا ہوں "
ڈاکٹر عمر نے میرا نام پوچھ کر اجازت دے دی۔
اسی دوران جانے کب ماجد مشتاق بھی آ چکے تھے۔
سبھی شعراء کا کلام بہت عمدہ تھا۔ آخر میں عالی صاحب نے اپنے کئی نعتیہ اشعار اور ان کے پس منظر سے بھی مستفید فرمایا۔
اور یوں یہ خوبصورت شام پرخلوص لوگوں کے ساتھ پھر ملنے کے عہد کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
مہمانان گرامی کو رخصت کرنے کے بعد پارکنگ تک آتے آتے اجمل فاروقی صاحب اور کئی احباب نے مجھے گھیر لیا، جن کے میں نام بھی نہیں جانتا لیکن ان کی محبت مجھے اب بھی ان لمحوں کی یاد دلاتی ہے۔
ماجد مشتاق نے مجھے گھر ڈراپ کرنے کی پرخلوص پیش کش کی تھی لیکن وہ ایک ضروری فون پر مصروف ہو گئے تھے اور کافی لمبی بات ہو رہی تھی۔
"قادر بھائی کیا شعر پڑھا ہے آپ نے۔ ہائے"
"وہ جو ہم تم میں راز پنہاں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"
ایک محبت بھری آواز آئی۔ جو میرے ایک شعر کا حوالہ دے رہی تھی۔
"شکریہ برادر"
"سر میں نے آپ کو پہچان لیا تھا۔ رات میں نے آپ کی تصویر دیکھی تھی۔ گول گپوں والی۔"
"تو آپ نے سفید بالوں سے مجھے پہچان لیا۔"
چند زوردار قہقہے فضا میں گونج اٹھے۔
"کیا آپ کو بھی گول گپے پسند ہیں؟"
"کھانے کے معاملے میں میرا ایک ہی فارمولا ہے۔ مفت ہو اور حلال ہو۔"
قہقہے ایک بار پھر اسٹارٹ ہونے کو تھے کہ ارسلان چوہان نے ذرا فاصلے سے آواز لگائی۔
"قادر بھائی آپ کیسے جائیں گے۔ ماجد بھائی تو فون پر بزی ہیں۔ شہنام، آپ ان کو ڈراپ کر آئیں۔"
اور جب بزم یاراں اٹھ گئی تو سیالکوٹ ٹی ہاؤس ناصر کاظمی کی آواز میں صدا دے رہا تھا۔
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اور وہ امتحاں ایسے ہوں گے کہ اس شام شہر یاراں کا حصہ بن جائیں گے۔
"قادر بھائی، میں ایک منٹ میں آیا۔ بس یہ کتابیں گھر رکھ لوں۔"
راستے میں شہنام نے ایک گلی میں بائیک موڑتے ہوئے کہا۔ اور وہ واقعی ایک منٹ سے بھی پہلے آ گئے۔
"بیٹھیں قادر بھائی۔"
اور جونہی انھوں نے کلچ چھوڑا۔ "قادر بھائی" بڑی صفائی سے گلی کے عین درمیان میں فرش نشیں ہو گئے۔ اب "قادر بھائی" کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
یا
منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر
جانے وہ عرفان کی کن منزلوں میں تھے کہ کچھ ہنسی اور ٹین ایجر آوازیں انھیں حقیقت کی دنیا میں لے آئیں۔
"آپ ابھی بیٹھ رہے تھے جب میں نے بائیک چلا دی؟"
شہنام کو مجھ سے زیادہ افسوس ہو رہا تھا۔ "چوٹ تو نہیں لگی؟"
"ارے کچھ نہیں ہوا۔ آپ اطمینان رکھیں۔"
اور جب شہنام نے مجھے گلی کی نکڑ پر ڈراپ کیا تو میرے ذہن میں بخاری صاحب کا ہی ایک شعر گونج رہا تھا۔
میں اپنے دل کے دروازے پہ اکثر اب بھی جاتا ہوں
مگر اس گھر میں اب کوئی مرے جیسا نہیں رہتا
غلام قادر
سیالکوٹ
|