اسمارٹ ایجوکیشن کا ناگزیر تقاضا

جیسے جیسے سائنسی، تکنیکی اور صنعتی ترقی کی نئی لہر تیز ہوتی جارہی ہے ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تعلیمی ترقی کے مستقبل کو تشکیل دینے میں تیزی سے اہم ہوتی جارہی ہے۔ اس ارتقاء کے مطابق ، شنگھائی میں ورلڈ ڈیجیٹل ایجوکیشن کانفرنس نے گلوبل ڈیجیٹل ایجوکیشن ڈویلپمنٹ انڈیکس کی نقاب کشائی کی ، جو عالمی سطح پر ڈیجیٹل تعلیم کی ترقی کا ایک پیمانہ ہے۔

مختلف ممالک میں ڈیجیٹل تعلیم کی ترقی کی سطح کا جائزہ لینے کے لئے دنیا کے پہلے جامع انڈیکس کے طور پر ،یہ بین الاقوامی تنظیموں اور 200 سے زیادہ ممالک اور خطوں سے وسیع عوامی اعداد و شمار جمع کرتا ہے اور ان کا تجزیہ کرتا ہے۔ یہ انڈیکس نسبتاً حتمی اعداد و شمار اور ڈیجیٹل تعلیم کی پیش رفت میں سرفہرست 62 ممالک کا انتخاب کرتا ہے، جسے وسیع پیمانے پر ماہرین کی مشاورت کے ذریعے بہتر کیا گیا ہے انڈیکس کا مقصد صرف درجہ بندی نہیں ہے ، بلکہ ممالک کو ڈیجیٹل تعلیم کی ترقی کے لئے اپنے راستوں اور اہداف کی نشاندہی کرنے میں مدد کرنا ہے۔تاحال ، ڈیجیٹل تعلیم میں سرفہرست 62 ممالک میں سے 13 فیصد ڈیجیٹل تبدیلی کے ابتدائی مراحل میں ہیں، 68 فیصد اعلیٰ معیار کے وسائل کا اشتراک کرتے ہیں، اور 19 فیصد ڈیٹا پر مبنی، ذاتی تعلیم کی اعلیٰ سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

اسی کانفرنس میں "چائنا اسمارٹ ایجوکیشن 2023 رپورٹ" کی بھی نقاب کشائی کی گئی جس میں ڈیجیٹل تعلیم کے ایک اعلیٰ درجے کے مرحلے کے طور پر اسمارٹ تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ چین کی مخصوص ترقیاتی ضروریات کی عکاسی کرتے ہوئے، رپورٹ چین کی اسمارٹ تعلیم کی ترقی میں چار اہم مراحل کی نشاندہی کرتی ہےجن میں وسائل کا اشتراک، ڈیٹا پر مبنی طریقے، مصنوعی ذہانت انضمام، اور تعلیمی ماحولیاتی نظام کی تشکیل نو ، شامل ہیں.رپورٹ میں ڈیجیٹل تبدیلی کے حوالے سے چین کی پالیسیوں اور طریقوں کا احاطہ کیا گیا ہے، جس میں مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے وسیع پیمانے پر اطلاق کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔چینی ماہرین یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی سے چلنے والی شاندار تعلیم اور انسان۔ مشین ہائبرڈ اساتذہ کا ظہور ہماری روزمرہ زندگی میں ایک حقیقت بن جائے گا۔

حالیہ برسوں میں ، چین نے عوامی ڈیجیٹل تعلیم کے وسیع پیمانے پر استعمال میں تیزی سے پیش رفت دیکھی ہے۔ چین نے دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی وسائل کا ڈیٹا بیس قائم کیا ہے ، جسے چین کی اسمارٹ ایجوکیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آن لائن لائبریری چین کے کم ترقی یافتہ وسطیٰ اور مغربی علاقوں میں دیہی اسکولوں کو اعلیٰ معیار کا تعلیمی مواد فراہم کرتی ہے ، جبکہ یونیورسٹیوں کو مشرقی جامعات سے اعلیٰ صلاحیت کے وسائل تک رسائی کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ 2013 میں اپنے قیام کے بعد سے ، چین میں دستیاب بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورسز کی تعداد تقریباً 77 ہزارہو چکی ہے ، جو 1.27 بلین سے زیادہ گھریلو طلباء کو خدمات فراہم کرتی ہے۔ دریں اثنا، چین بھر کے اسکول اپنی تدریس میں مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا تجزیہ اور ورچوئل رئیلٹی جیسی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو شامل کر رہے ہیں۔نصاب میں ویڈیو اینی میشن کو ملانے کے لئے اسمارٹ سافٹ ویئر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے،کھیل کے میدان ذہین آلات سے لیس ہیں جو طلباء کی کھیلوں کی کارکردگی کو درست طریقے سے ٹریک کرتے ہیں اور طلباء کی تربیت اور رہنمائی کے لئے ذاتی صحت کی رپورٹس تیار کرتے ہیں جو واقعی متاثر کن ہے
.
ملک میں ڈیجیٹل تعلیم کے مزید فروغ کا تذکرہ کیا جائے تو، ٹیکسٹائل میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء 3 ڈی ورچوئل کپڑوں کے ڈیزائن کے لئے ڈیجیٹل ٹریننگ رومز کا استعمال کر رہے ہیں. عالمی صنعت کے معیارات سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ،تعلیمی اداروں نے نصاب میں جدید ترین ٹیکنالوجیز کو شامل کیا ہے ، جیسے کپڑے کی ڈیجیٹلائزیشن ، تھری ڈی کپڑوں کی ماڈلنگ اور ڈیزائن ، اور وی آر ورچوئل اسٹورز ، وغیرہ۔ مواد کے انتخاب سے لے کر ڈیجیٹل ملبوسات کی پیداوار تک ، طلباء کو ایک ہموار عمل کا تجربہ ہوتا ہے جو کارکردگی کو بڑھاتا ہے۔ڈیجیٹل تربیت طلباء کو فیشن انڈسٹری میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناس کرواتی ہے جبکہ اُن کی تخلیقی ڈیزائن کی مہارت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔مجموعی طور پر ڈیجیٹل منتقلی سے تعلیمی شعبے میں خصوصی ڈیٹا مہارت، اختراعی نظام تعلیم اور ذہین ٹیکنالوجی کے گہرے انضمام کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے ، جو آئندہ ملک کی معاشی سماجی ترقی کے لیے کلیدی عنصر ہے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1139 Articles with 431324 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More