اللہ حافظ میاں صاحب
(haseeb ejaz aashir, Lahore)
اللہ حافظ میاں صاحب حسیب اعجا زعاشرؔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ قوم ہو یا شخصیات اُن کا عروج دیرپا ہونا ناممکن نہیں مگر ہمیشہ رہنا بھی ممکن نہیں۔جو گر کر سیکھتے نہیں وہ سنبھل کر پھر سے گر جاتے ہیں پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وقت اُنہیں سیکھا چکا ہوتا ہے مگراب وہ سنبھل نہیں سکتے۔پاکستان کے تین بار وزیراعظم بننے والے میاں محمد نوازشریف کی بات کریں تو میاں صاحب کا تقریباً چالیس سالہ سیاسی سفر مسلسل اُتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے مگر اُنہوں نے اِس طویل دورانیے میں سیکھا کیا ہے وہ ایک سوالیہ سوال نشان ہے؟ جی میاں صاحب راقم الحروف آپ سے مخاطب ہے، تعجب تومیاں صاحب اِس بات پر ہے کہ جب خان حکومت ساڑھے تین سالوں میں کچھ ڈلیورنہیں کر سکی تو کیا ضرورت تھی کہ جو وقت آئندہ نئے الیکشن کی تیاریوں پر صرف کرنے کا تھا وہ وقت خانے حکومت کے ڈالے ہوئے گند کی ذمہ داری ڈیڑھ سال لگا کر مسلم لیگ (ن) کو اپنے سر لینے کی؟صاف نظرآرہا تھا کہ پی ٹی آئی جس انداز میں ملک چلا رہی ہے اگر پانچ سال پورے کر گئی تو پاکستانی سیاست بابنگ دہل کہہ دی گی کہ ”اللہ حافظ خان صاحب“۔تعجب تو اِس بات پر ہے کہ آپ تو تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا نے والے تھے، طاقتوروں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف تھے، بیساکھیوں کے خلاف تھے،ہارس ٹریڈنگ کے خلاف تھے،پھر اچانک۔۔یہ سب کچھ کیوں؟جماعت کا موقف سامنے آیا کہ ہم نے ریاست بچانے کیلئے سیاست کو داؤ پر لگا دیاہے،جب آپ اپنے نظریات سے ہی ٹکراؤئیں گے تو سیاست ہی نہیں اپنی عزتیں بھی داؤ پر لگیں گی۔ن لیگ کا ووٹر اب بھی تذبذب کا شکار ہے کہ خان صاحب سے اگر ریاست کو خطرہ تھا تو اب وہ آپ کی حکومت کے اقدامات سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں۔دوسری جانب حالیہ الیکشن میں ن لیگ کو پڑنے والا اینٹی اسٹیبلشمنت ووٹر بھی اِس بار ن لیگ سے کسی حد تک بیزار نظر آیا۔ووٹرز کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ جن پر پاکستان کو معاشی و اقتصادی طور پر مفلوج کرنے،سیاسی طور پر غیرمستحکم کرنے اور شریف خاندان کے خلاف سیاسی انتقامی کاروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات خود مسلم لیگ ن لگاتی رہی ہے،جو پہلے مشرف حکومت میں حصے دار تھے پھر عمران خان کے دست راست بنے،اُن سیاسی اور غیرسیاسی عناصر کے ساتھ مسلم لیگ(ن) نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیسے کر لی؟ جو کل تک ایک فسانہ تھا آج میاں صاحب آپ کی حکمت عملی سے وہ خان صاحب کا ووٹر ایک حقیقت بن چکا ہے۔ملک میں اِ س وقت آٹھارہ سے پینتیس سال کے ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ اکسٹھ لاکھ ہے، اکثریت خان کے دیوانے ہیں ہرروز بننے والا نیا آئی ڈی کارڈ درحقیقت کارڈ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ووٹ ہے۔میاں صاحب آپ نے اِن نوجوانوں کو مسلم لیگ ن کے ساتھ منسلک کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا کیونکہ آپ ذہنی طور پر پرانی طرزسیاست کے چنگل سے نہیں نکل سکے،آج بھی وہی اخباری اشتہارات اور بڑے بڑے بل بورڈز،فلیکس او ربینرز کی دنیا۔۔۔ جبکہ پی ٹی آئی اِن رسمی مہم سازی سے بہت آگے نکل چکی ہے۔آپ نے کبھی عوامی رائے لی اور نہ کبھی عوامی رائے کی طرف کان دھڑے کہ آپ کی بنائی گئی سوشل میڈیا ٹیم کر کیا رہی ہے؟۔ میاں صاحب یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ کی سوشل میڈیا اپنا بنایا ہوا چورن بھی بیچنے سے قاصر ہے۔ بڑے بڑے منصوبہ جات کو کیش ہی نہیں کر سکی،صرف ایک خوبصورت دلکش پوسٹ بنا دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ خان کی سوشل میڈیا آپ کا بنایا ہوئے چورن مسلسل اپنے نام سے بیچ رہی ہے،پورے الیکشن کو”انصاف صحت کارڈ“کے کامیاب منصوبہ کے نام سے کیش کیا گیا، نوجوانوں کو پتا ہی نہیں کہ یہ اصل میں مسلم لیگ ن کا منصوبہ تھا۔ ایسی مربوط اور منظم مہم سازی کرتے ہیں کہ دنیا والے اُس سیاہ سفید پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ میاں صاحب بس اب بہت ہوگیا، کینٹ علاقے میں پڑنے والا ووٹ اِس بات کی عکاس ہے کہ بڑوں کے تیور کیا ہیں؟ کہ آپ جن کے آنکھوں کے تارے ہوتے تھے اب اُن کی آنکھوں کو بھی کھٹکنے لگے ہیں۔ تعجب ہے کہ آپ کو اِس بات کا ادراک نہیں کہ پاکستان کی سیاست کی خاصہ ہے کہ جس کو دبایا جاتا ہے وہ اتنا اُبھر کر اوپر آتا ہے، جس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ ہوجائے عوام میں مقبول ہوجاتا ہے، جس کے خلاف ادارے کھڑے نظر آئیں عوام ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے، جس پر جتنے کیسز بنائے جاتے ہیں وہ اُتنا معصوم نظرآتا ہے،خصوصاً الیکشن سے قبل جو جو اندر ہوتا ہے اُس کے لئے عوام اُتنی باہر ہوتی ہے۔اِن بنیادوں پر مسلم لیگ ن 2013میں بھی مقبول تھی جبکہ 2018میں مقبول ترین تھی اور اب یہ طریقہ کار تحریک انصاف کو مقبول کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے،پہلے اسٹیبلشمنٹ کے سہارے مشہور ہوئی پھر اینٹی اسٹیبلمشمنٹ بن کر مقبول اور اِس کو عملی شکل دینے میں میاں صاحب آپ کا کردار اہم رہا۔ میاں صاحب آپ سے بہتر یہ کون جان سکتا ہے کہ سیاست عصاب کی جنگ ہے اور یہ جنگ آپ ہارے ہارے نظر آرہے ہیں،جو اندازِ بیان آپ کو الیکشن مہم میں تھاوہ ایک شکست خوردہ انسان کا ہی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے ووٹرز سے ہی شکوے کر تے نظر آئے،تعجب تو اِس بات کا ہے کہ آپکا موقف تو یہ رہا ہے کہ2018کاالیکشن دھاندلی زدہ تھا،کہا گیا کہ آپ کے امیدواروں کو فارم 45نہیں دیئے گئے بلکہ صاف کاغذ پر نتائج دیئے گئے تو پھر آپ کا اپنے ووٹرز سے ووٹ نہ ڈالنے شکوہ کیسا؟کل تک جن طاقتوروں کا نام لے لے کر آپ گلے شکوے کرتے تھے آج اُن ناموں کو مبینہ دھندلی زندہ الیکشن کے شورشرابے میں پس پردہ آپ کے گیم پلان سے جوڑا جا رہا ہے،دوسری طرف پی ٹی آئی کے بیانئے کو روز ایک نئی تقویت اور نیا حوصلہ مل رہا ہے،آپ اور آپ کی ٹیم تو دفاعی محاذ پر نظر نہیں آ رہے۔ قصہ مختصر فی الوقت تو مسلم لیگ (ن) کی اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنتی نظرنہیں آ رہی،الیکشن کو ایسا متنازعہ بنایا جا رہا ہے کہ کالعدم بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں،دوبارہ گنتی بھی ہو سکتی ہے، اداروں کی مداخلت سے دوبارہ بھی ہوسکتے ہیں،چونکہ تحریک انصاف بھی حکومت بنانے سے انکار کر چکی ہے تو ایسے میں اگرآپ کی حکومت بن بھی گئی تو زیادہ دیر چلتی نظر آرہی ہے،چل گئی تو دوبارہ آتی نظر نہیں آ رہی۔اِس بار آپ کا حریف آپ کی اشیر آباد سے زیادہ تگڑا ہوچکا ہے جو حسبِ سابق آپ کے حکومتی اقدامات میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے اور اگر وہ اِس بار سڑکوں پر نکلا تو آپ اُن کے سامنے ریت کی دیوار کی مانند ہیں کیونکہ عوامی حلقے میں ایسا تاثر قائم کر دیا گیاہے کہ آپ کو پس پردہ غائبی مدد حاصل ہے اوردوسری جانب آپ کا حریف تن تنہا رہ گیا ہے، ادارے اُ سکے خلاف ہو چکے ہیں مگر پھر بھی فرسودہ نظام کے خلاف لڑ رہا ہے۔میاں صاحب ذرا سوچیں کہ آپ کس سے گلا کریں گے اور کس سے شکوہ؟ایسے میں اگر دوبارہ الیکشن ہو جائیں جلدی یا تاخیر سے،تحریک انصاف کو منظم ہوتے زیادہ وقت درکار نہیں اور وہ بھاری اکثریت سے کلین سوئیپ کرنا مشکل نہیں کیونکہ مسلم لیگ(ن)کا دل شکستہ ووٹر شاید اُس جذبے سے اب باہر نہ آئے۔ پھر نئی حکومت کی مرضی کہ وہ صدارتی نظام لائے، جس کو چاہے الیکشن دھاندلی کے الزامات میں اندر کرے،جس پر چاہے ریجیم چینج میں بیرونی ہاتھوں میں آلہ کار بننے کا الزام لگا کر اندر کروا دے،کوئی کچھ نہیں بول سکے گا،کوئی اُس کے لئے باہر بھی نکلے گا اور کوئی اُسے باہر نکالنے والا بھی نہ ہو گا۔ بہرحال سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں،منظر بدلتے موسم بدلتے حالات بدلتے چہرے بدلتے وقت نہیں لگتا۔اگلی لڑائی میں اپنے حریف کیساتھ بھرپور مقابلہ کرنا ہے اور مسلم لیگ ن کی بقاء کے ساتھ ساتھ اپنے نام کو بھی زندہ رکھنا ہے تو آپ کو جرات کا مظاہرہ کرنا ہے اگر ریاست کو سیاست پر مقدم رکھا ہے تو پھر رکھ کر دیکھائیں اور ہر مشکلات کا پاکستان میں رہ کر مقابلہ کر کے دیکھائیں اور نئے الیکشن کی تجویز پیش کریں یا پھر تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اُنہیں حکومت سازی کی دعوت دیں اِس سے پہلے کے اندرونی انتشار سے بیرونی عناصر فائدہ اُٹھا لیں۔ورنہ یہ الفاظ سند کیلئے محفوظ رکھ لیں کہ پاکستان کی سیاست سے یہ صدائیں سنائی دینے لگی ہیں کہ ”اللہ حافظ میاں صاحب“ [email protected] 03344076757 14-02-2024 |