پرانے زمانوں میں مختلف سلطنتوں میں خاص جگہوں یا بازاروں میں
slave markets ہوا کرتے تھے جہاں امیر، سرمایہ دار یا بادشاہ اپنے لیے غلام خریدتے
تھے ان غلاموں میں عورتوں کو کنیز کے شکل صورتوں میں خریدی جا سکتی تھی اور جوان
لڑکوں کو اپنے گھریلوی کاموں کےلیے خریدتےتھے.
لیکن یہ غلامان صرف اپنے مالک کے ماتحت ہر لحاظ سے کام کرتے تھے اور ان کے نہ صرف
اجسام بلکہ سوچ و خیالات بھی انہی کے اختیار میں ہوتےتھے جو بہت دردناک اوراستحصال
پزیری زندگی گزارتےتھے.
لیکن جب اللہ تعالی کا محبوب مبارک اللہ تعالی کےنورِ عشق کےساتھ دنیا کے سینے پر
تشریف فرما ہوئے تو دنیاکےاندھری حیات میں سکونِ روشی کاشمع روشن ہوااور ہر کمزور
اوربےبس دل نے پرامنی کاٹھنڈی سانس محسوس کیااور بہت سے غلامانِ وقت نے ازادی کا
سورچ آہستہ آہستہ چمکتاہوا دیکھ لیا.اور جب سرورکونین مبارک نےاپنے حسن اخلاق
کےجلوے دکھانے شروع فرمائے تو ایک ایک روح کوپاکیزگی بخشنے کےلیے سرورکونین کےقریب
آئے، بہت سے عاشق رسول بھی بن گئے.ان میں نہ صرف غریب لوگ شامل تھے بلکہ وہ لوگ بھی
تھے جو معاشرے نے انکو اگنور کیےہوئے تھے اور بہت سے صاحبِ استطاعت ہستیاں بھی شامل
ہوئے.
ان ہستیوں نے اپنے خرچے پربہت سے غلامانوں کو ازاد کر دیے تھے. لیکن غلامانوں کے
کئی اقسام تھے جن میں کچھ یوں ہیں.
1: جسمانی غلام
2: اللہ تعالی اور رسول پاک کے عشق میں غلام
3: ذہنی غلام
4: کاروباری غلام
5: علاقائی غلام
6: قیدی غلام یعنی مجرم شدہ لوگ جو آئین ان کو سزا دے کر قید کر دیے جاتے ہیں.
لیکن slave markets سے جو غلامان خریدے جاتے تھے تو ان کے غلامی کبھی ختم نہ ہوتی
تھی ( غیر مسلم بادشاہوں یا امیروں کی خرید کردہ غلامان) کیونکہ وہ دوبارہ اپنے
مالکوں کے غلام بن جاتے تھے.
لیکن ہمارے نبی پاک مبارک نے نہ صرف ان غلاموں کو انسانی وروحانی، معاشرتی و
معاشی،فرض شناسی کےحقوق دینے کی فرمانیں فرمائی بلکہ ان کے برابر حقوق کے بارے میں
تمام مسلمانوں کو تا قیامت ہدایت فرمایا ہے اور الحمدللہ اج یہ سسٹم (جسمانی غلامی
) ختم ہوئی ہے لیکن باقی اقسامِ غلامان اب بھی کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے جس طرح
کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی امریکہ کے غلام ہیں،انگریزی تعلیم اورزبان کےغلام
ہیں،بے مقصداورخواہشات کےغلام ہیں.
اور امریکہ کے بعد ہم تمام عام پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور نالائق سیاستدانوں کے غلام
ہیں. اسی طرح اج کل دنیا کے ہر کونے میں مختلف جرائم کی مارکیٹیں بھی نظر اتے
ہیں.جن میں بلیک منی مارکیٹ ، جسم فروشی کے مارکیٹ، منشیات کے مارکیٹ، سربازی
مارکیٹ، جوا کے مارکیٹ، اسلحہ فروشی کے مارکیٹ،جھوٹ بازی مارکیٹ، دھوکہ و دغا بازی
مارکیٹ، ایمان فروشی مارکیٹ، عزت و ناموس فروشی مارکیٹ، مفاد پرستی مارکیٹ، بوسیدہ
بوسیدہ اور غلیظ سوچ و خیالات کے مارکیٹیں.
لیکن ان تمام مارکیٹوں کا اصل بنیادی مارکیٹیں پارلیمنٹ اور یا تعلیمی ادارے ہیں
جہاں سے باقی تمام مارکیٹوں کے لیے کئی مختلف نظریات جنم لیتی ہیں جو مذہب سے لے کر
ثقافت ، معاشیات اقتصادیات، کھیل کود اور معاشرتی زندگیوں کو اپنے لپیٹ میں لے کر
اخلاقی دائروں میں نہ صرف کھوکھلا بنادیتی ہیں بلکہ بربادی کےدہانے پر لاکرکھڑا
کردیتی ہیں.
Market of filthy Thoughts.
غلیظ سوچوں کا مارکیٹ
تعلیمی اداروں اور پارلیمنٹ سے اچھے، باشعور،انسانیت نواز اور خدمتِ خلق کے نظریے
اور سوچ بھی پیدا ہوتے ہیں مگر میں یہاں اُن غلیظ امیز سوچ اور بوسیدہ نظریات کے
بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جن کی بدولت عوامی حقوق پامال ہوئے ہیں،ہورہےہیں،عوامی
مقام و عزت اور ابرو کے جنازے نکل چکے ہیں،نکل رہےہیں،دہشت و وہشت
زدہ،ظالمانہ،استحصال زدہ اور نفرت انگیز ماحول کو نافذ کرناچاہتاہے.
انہی کی وجہ سے 75 سال عوام کو کالے دھندلا بوسیدہ خوابوں کے تمناؤں میں گھسیٹی جا
رہی ہے جوترقی یافتہ اورترقی پزیر دنیامیں آج تک ہم صرف
وہشانہ اور دہشت زدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.
سب سے پہلے میں بات تعلیمی اداروں کے کروں گا جہاں اخلاقی اقدار ,کرداری معیار،
مذہبی میدان اور اسلامی فضاؤں کے اندر عزت و ابرو ، شفقت و محبت، خدمت و احسان ،
معافی، عفو درگزر، سچائی عاجزی ، سخاوت، عدل و انصاف، ہمدردی، خوش اخلاقی وغیرہ کے
پیکروں کو علم و عرفاں کی بدولت رونق اموز بناچاہیئے . مگریہاں ان کے برخلاف اور
متضادی طورپر جوانوں میں فرقہ واریت، خیالاتِ تکبرانہ ، دولت کمانےکاجذبہ، خود
نمائی اور نمود اور نمائش ، تنگ نظری ، حسدو بغض، بے حیائی اور غیر معیاری زندگی کے
طرز و طریقے پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو نہ صرف ایک بچے کو ناسورِ معاشرہ یا
ناسورِ زمانہ بناتا ہے بلکہ وہ تکبر کے پیکر اور ظالمانہ خیالات کا مالک بن جاتا ہے
جوبعد میں جوان ہوکر مختلف شکلوں وصورتوں میں عام عوام پر کسی نہ کسی حال میں
تھوڑابہت ظلم کرتاہوا نظرآتاہے.مثال کے طورپر اٹھ فروری دو ہزار چوبیس میں دھندلی
عوام کےذریعے نہیں بلکہ بڑے عہداداروں کی مدد سے کروائی کی گئی ہیں.
ہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ ان اداروں سے باضمیر لوگ بھی نکلتے اور نکل چکے ہیں جنہوں
نے بہت سے مشکل جگہوں پر اپنی ایمانداری سے کام لیا ہے.ظلم وجبر کامقابلہ کیا.
اچھا ان مارکیٹوں میں اُن چیزوں کی خرید وفروخت ہوتی ہیں جو اللہ تعالی اور رسول
پاک کی تعلیمات کے برخلاف ہو اور نہ ان کا صحابہ کرام کےزندگیوں کے طورطریقوں اور
ضابطوں سے تعلق ہوتاہے.
یہاں سب سے پہلے غلیظ سوچ کی بات ہوگی
یہ اُن تعلیمی اداروں سے پیدا ہوتی ہے جہاں مرد اور عورت کے درمیان فرق ختم ہو
جائے،وجودِزن اور وجودِ مردکےحیاداری لحاظ سے فاصلہ ختم ہوجائے. مثال کے طور پر غیر
مسلم ممالکوں میں مرد اور عورت کو ہر لحاظ سے برابر تصور کیےجاتےہیں یعنی ان کے
مابین غیر اخلاقی اور غیر حیائی طور پر ازادی کا تصور ہے لیکن ہمارے مذہب میں اگرچہ
مرد اور عورت کو برابر حقوق دیے جاتے ہیں لیکن مرد اور عورت دونوں خدا اور رسول پاک
کے احکامات کے دائرے میں قید ہیں اگر عورت کو پردے کے مطابق بیان فرمان ہوچکاہے تو
اسی طرح مرد کے لیے بھی ہے لیکن ایک مسلم لڑکی غیر مردسے فری مائنڈڈ خیالاتوں میں
نہ بات کر سکتی ہے.نہ ایک دوسرے کےساتھ ایسے کھڑے اورٹھہرسکتےہیں اور نہ اسلام اس
کی اجازت دیتی ہے.
اور اسی طرح بہن، بھائی، ماں، بیٹی ، بھابھی اور دیور، بھانجی اور مامو ، بھتیجی
اور چچا کے درمیان میں اخلاق اور حیا،عزت و وقار کے پردہ ہیں لیکن ان لوگوں میں
نہیں ہیں. اسی طرح نکاح سے پہلے عورت سے نہ جسمانی تعلقات کی اجازت ہے اور نہ دوستی
کا مگر وہاں یہ حدود نہیں اور ان کے ان نظریاتوں کا اثر اب مسلم سوسائٹی پر پڑی
ہوئی ہے جن کی وجہ سے بہت سے جرائم نے جنم لیا ہے.(اگرکوئی یہ کہتاہے کہ کوایجوکیشن
سے عورت میں بولڈنس آتی ہے اور تاکہ وہ زندگی کےہرموڑ پر مرد سے کوئی خطرہ محسوس نہ
کرسکے اور مقابلہ کرنے کی قابل بن جائے.لیکن زیادہ عورتوں استحصال اور عورتوں کی
خود کی بےحیائی ہی تو مزید بڑہ رہی ہیں،تقریبا 95فی صد تعلیم یافتہ عورتوں کی طلاق
ہوتی ہے پھرآخروجہ کیا ہوسکتا ہے؟) ان اداروں میں صرف شہرت پانے کے لیے، نمود و
نمائش ، پیسہ کمانے کے لیے اور مالکانہ شخصیت پیدا ہونے کےلیے جوسوچ دی جاتی ہے اصل
میں وہی سوچ قرآن پاک اوراحادیث مبارکہ کےنور سے محروم سوچ ہے.ہاں ان کی زبانوں پر
اور کچھ ظاہری اعمالوں میں اسلام نظر اتاتو ہے مگر روحانی طور پر اندھے، بہرے اور
گونگے ہیں
مثال کے طور پر اللہ تعالی کے محبوب نے تکبر ختم کر کے تمام اصحاب کرام
کوعاجزی،خوداری،حیادار،ہمدرد،احسان کرنےوالے اورقربانی کرنےوالے عظیم ہستیاں
بیایاہے. جوآج بھی ہر معزز اورمحترم صحابی مبارک کی مثالیں تاریخ کےاوراق پر سنہری
الفاظوں میں تحریرشدہ ملتےہیں. اسی طرح ہمارے پیارے نبی پاک نے خود بھی گھر میں
جھاڑو مارےہیں ،غریبوں کوکھاناکھلایاہے،جنگوں میں حصہ لیاہے.فتح مکہ کےدن اپنے
دشمنوں کومعاف فرمایاہے. لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کو جب بھی حیثیت ملتی ہے
یا بڑا عہدہ ملتاہے تو پھر ہم ظالم اورمتکبر بن جاتےہیں اورہمارے نیچھے کام کرنے
والے ہمارے نظروں میں ہمارےغلام بن جاتے ہیں .
اس طرح ان اداروں سے فرقہ واریت کے لیے بھی شخصیات پیدا ہوتے ہیں یعنی ایک خدا اور
رسول کے ماننے والے انفرادی و اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں اور ایک
دوسرے کے خلاف اکثر غیر مہذبانہ گفت و شنید بھی کرتے ہیں جس سے نہ صرف تذلیلِ
انسانیت و مسلمانی کے اثار پیدا ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف لڑائی بھی شروع
ہوتی ہے جس طرح اج کل مختلف نظریات و خیالات سے لوگ مختلف گروپوں میں شامل ہیں یا
تقسیم ہو چکی ہیں.
کبھی کبھی پارلیمنٹ ہاؤس سے ایسے بیلز پاس ہو جاتی ہے جو کافی حد تک اسلام کے
اخلاقی اقدار کے خلاف ہوتے ہیں جیسا کہ ہم جنسوں کی تعلقات یا عورتوں کی ازادی کے
ہم خیال پالیسیاں. یہ چونکہ اسلامی ممالک میں ممکن نہیں لیکن دوسرے مذاہب کے لوگ
کرتے ہیں.
ہمارے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایسے تقاریرے پیش ہوتی ہے جو نہ صرف اخلاقیات سے گرے ہوتے
ہیں بلکہ اکثر ان میں ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے الزامات، بہتان لگاتے ہیں اور
کبھی ایک دوسرے کے تذلیل میں اس حد تک چلے جاتے ہیں جہاں ایک ہوشیارانسان ہوتے ہوئے
بھی نہ صرف انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے بلکہ ان سے جوان نسل بھی وہ اثر لے کر باہر
ایک دوسرے کے خلاف انہی الفاظ استعمال کرتے
ہیں جو کافی حد تک لڑائی کا باعث بن جاتی ہے.
یہی پارلیمنٹ والے 75 سال سے عوامِ پاکستان کو جھوٹ جھوٹ بول کر مزید غربت کے،دہشت
کے،جاہلانہ سوچ اوروحشیانہ رویوں کے دلدل میں دھکیل دے رہے ہیں.
کبھی لوگوں کو مستقبل کے جھوٹے خواب دکھا کر دھوکہ دیتےہیں، کبھی عوام کےمفاد
کےبجائے مزید غلامی کےپنجروں میں قید کےلیےغلط اور بےمعنی رائے اور پالیسیاں بھی
پیش کی جاتی .
پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کی بنیاد اکثر ایسے سوچوں پر رکھی جاتی ہے جن کی
سبب قوم کے باشعور لوگ اگے انے کی بجائے نیچے جاتے ہوئے نظر اتے ہیں مطلب یہ ہے کہ
چاہے وہ تعلیمی ادارے ہو یا پارلیمنٹ وہاں سے غلیظ امیز سوچ و خیالات اور نظریات
جنم لے کر ہمارے ارد گرد تمام معاشی استحکام، اخلاق اور کردار اقدار، ماحول اور
یکجہتی کےرشتہ داری کے بنیادی اقداموں کو برباد کر دیتے ہیں اور تمام مفادپرستانہ
پالسیوں کی وجہ سے اپنے قوم کےاندر دوری اور بغض پیدا ہوتی ہیں جسکی وجہ سے قوم کی
یکجہتی اور اتفاق واتحاد کو کافی حد تک نقصان پہنچتاہے اور ابھی بھی پہنچا ہے
جیساکہ خیبرپختون خواہ اور بلوچستان کےعوام کےساتھ آج تک ایک جارحانہ اور ظالمانہ
رویہ رکھاہوا ہے جوہرلحاظ سے ان کو اپنےحقوق نہیں دیئے جاتے اور اس کےساتھ ساتھ
جھوٹ موٹ دہشتگردی کےواقعہ ان صوبوں میں پرپاکرکے ہزاروں بلوچ اورپشتونوں کوقتل
کرتے ہیں اوراس سے پہلے بھی قتل کرچکے ہیں.
لیکن یہ تو غلیظ امیز سوچ کی بات ہےاس کے برعکس مثبت سوچ و خیالات اور نظریات بھی
موجود ہیں جن سے وہ لوگ مستفید ہو کر معاشرے میں یا ملک میں تبدیلی لا سکتی ہے جو
واقعی ملک وقوم کاخیرخواہ ہیں یا وہ ملک کی سالمیت کوبچانا چاہتےہیں.پر ہمیں ایک
ایسا لیڈر کاانتحاب کرنا ہوگا جو واقعی اپنے اصحاب کرام کی حصوصیات،انوارِایمان
اورعشقِ مصطفوی کےجلوےرکھتےہو.
یہ تمام چیزیں تب مثبت، درست اور مفید امیز ہوں گے جب حقیقی معنوں میں قران پاک اور
احادیث مبارک کو پڑھا جائے، تسلیم کیا جائے اور عمل میں لایا جائے.لیکن قرآن پاک پر
مکمل اصولوں اورگہرائی کےساتھ سمجھانےوالے صوفی لوگوں کی ضرورت ہیں جواس دورِحاضر
میں کہی نظرنہیں آتے.
اللہ تعالی کرے کہ ہمارے ہاں سچےاورحقیقی صوفی لوگ پیداہوجائے تاکہ وہ ہمارے دلوں
کو نور ایمان سے منور کرسکے اور ہم ایک قوم بن کر ترقی کرسکے . آمین
|