بسم ﷲ الرحمن الرحیم اسلام علیکم
کل سے اچھرہ بازار واقعے کی گونج ہے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جہاں بھی شدت پسندی ہوجاۓ اسلام برا ہوجاتا ہے تصویر کا دوسرا رخ کوئی نہیں دیکھتا افسوس کہ ساتھ یہ بات کہنی پڑھ رہی ہے کہ بہت قابل صحافی بھی جتنا گند اچھال سکتے ہیں اچھالتے ہیں۔ خیر حقیقت تو نہ وہ جانتے ہیں اور نہ میں یہ تو صرف میرا رب جانتا ہے۔ ہم تو صرف حسن اتفاق دیکھتے ہیں جس کی ہوا چلی ہے پہلا حسن اتفاق اچھرہ بازار میں جب عوام مشتعل ہوئی ایک خاتون پر عوام کچھ نہ کر سکی اور صرف چیخنے پر پولیس عین موقعے پر موجود تھی اتفاق سے افیسر بھی خاتون تھیں اور اسی دن وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے منتخب پہلی خاتون ہوئیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں بھی اسکا ذکر کردیا عوام سمجھدار ہوگئی ہے آگے نتیجہ خود اخذ کر لے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ شدت پسندی کیا اسلام میں ہی نظر آتی ہے فلسطین میں کون سے مسلمان ہیں جو شدت پسند ہیں وہاں نظر نہیں آتی شدت پسندی فلسطین تو کسی کو اب یاد نہیں افسوس اسکا تو تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہمارا آتا ہوا پیسہ کہیں راستے میں نہ رک جائے ابھی وہ دوبارہ باہر بھیجنا بھی تو ہے معذرت یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر بھی بات ہوگی۔
خیر شدت پسندی کا کوئی دین نہیں وہ امریکہ، کینیڈا سب نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے ہمیں بس اسلام کو بدنام کرنا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف اسلام ہی نہیں باقی سب۔ کچھ ہے افسوس صد افسوس رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی۔
قصور ہم ماؤں کا ہے جو حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمر رضی ﷲتعالیٰ عنہما جیسے بیٹے پروان نہ چڑھا سکیں۔
پہلے ہم آزادی نسواں کی جنگ اس دین اسلام سے تو کرلیں جو صرف اور صرف عورت کو تحفظ دیتا ہے اسلام کو بدنام کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں یہ نظریہ نہ ہوتا تو آج بھی غلام ہوتے ہم اسلام کا قرض نہ اتار سکے
برسوں کی مسلسل محنت کا انعام تو پایا ہے لیکن مزدور کو جس کی خواہش تھی یہ وہ انعام نہیں
|