میری عادت ثانیہ ہے کہ جب بھی کسی سرکاری یا نجی مقصد کے لیے
لاہور آناجانا ہوتا ہے تو ریل پر سفر کرتا ہوں۔اس کی بنیادی وجہ راولپنڈی اور لاہور
کے درمیان چلنے والی سبک رفتار اور سبک خرام ریل کاریں ہیں جن کے سٹاپ محدود ہیں ۔بسرعت
منزل پر پہنچا دیتی ہیں۔سبک رفتار ریل کار راولپنڈی سے 0030 بجے روانہ ہوکر 0500بجے
(تقریباً ساڑھے چا رگھنٹے میں)لاہورپہنچ جاتی ہے جبکہ وہی ٹرین اپنے پہییوں
پرورکشاپ کے ہتھوڑے کھا نے کے بعد سبک خرام کا روپ دھار کر1630 بجے روانہ ہو کر
2130 تک راولپنڈی واپس آ جاتی ہے۔ یہ ریل کاریں ہر لحاظ سے (صوبائی دفاتر یعنی سول
سیکرٹریٹ یا کورٹس کے اوقات کارکے اندر اندر پہنچنے اور پھر اسی روز کام وام نبٹا
کر یا معلومات وغیرہ لے کر واپس آنے کے لئے )سرکاری ملازمین کے مفاد میں ہیں۔مطلب
یہ کہ کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کے شبینہ اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔ اس دفعہ (29۔جولائی
2019) کو مجھے ایک ضروری مقدمے کے سلسلے میں PST پہنچنا تھا ۔ لیکن اس مرتبہ میں نے
اسی تاریخ پر 0700بجے والی ریل کار پر سفر کیا ۔
جس نے مجھے 1200 بجے پہنچا دیا۔ دفتر( جو کہ پرانی انار کلی کے نواح میں ہے ) میں
ساڑھے بارہ بجے داخل ہو گیا۔ دفتری بابو بریک اور نماز کے بہانے اپنے اپنےدفاتر
آدھا گھنٹہ پہلے ہی خالی کر گئے تھے۔ مجھے ان کا انتظار دو بجے تک کرنا تھا۔ اس میں
اندیشہ تو بہت تھا کہ وہ واپس لوٹنے کی بجائے گھر واپسی کا قصْد ہی نہ کر لیں۔ اب
میں بہت پچھتایا کہ اسی روز 0030 والی ٹرین کیوں نہ پکڑ لی تاکہ بروقت ان سے مڈھ
بھیڑ ہو جاتی۔ مقام صد شکر کہ متعلقہ اہلکار بروقت تشریف لے آئے،ملاقات ہو گئی اور
’حکم‘ کی مثل بھی سرکاری فیس سے تین گنازیادہ ادئیگی کرنے کے بعدفوراًہی مل گئی ۔
لاہور ریلوے اسٹیشن پر دوبجے پہنچا ،سہ پہر ساڑھے چار بجے والی سبک خرام کا ٹکٹ
راولپنڈی کے لئے میں نے ایڈوانس میں لے رکھاتھا ۔ پلیٹ فارم پرحسب معمول بڑی رونق
تھی۔ تقریباً ہر دس پندرہ منٹ کے وقفے سے کسی نہ کسی گاڑی کی آمد یا روانگی کا
اعلان بذریعہ لاؤڈ سپیکر کیا جا رہا تھا۔ ایک ہی گاڑی کی آمد کا اعلان چار مرتبہ ہو
رہا تھاتین دفعہ اردو میں ایک دفعہ انگریزی میں۔ پنجابی میں ایک دفعہ بھی نہیں امر
واقعہ یہ ہے کہ لاہور کی مجموعی عوامی زبان ابھی تک پنجابی ہے ۔یہ اعلانات معمول سے
ہٹ کر مردانہ آواز میں ہو رہے تھے۔ ماضی کی نسبت واضح طور سامعین کے کانوں تک پہنچ
رہے تھے۔
شاید اس لئے کہ پرانے بھونپو نما میگا لاؤڈ سپیکر منی الیکٹرانک سپیکروں سے بدل دیے
گئے تھے۔ اعلان کرنے والے کے لہجے سے یوں لگاکہ یہ تیس چالیس کے پیٹے میں داخل کوئی
شخص ہے جس کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کشمیری ہو یا بٹ۔ شاید
اس کا تعلق خطہ راولپنڈی سے ہوکیونکہ ریلوے کےوفاقی وزیر شیخ رشید ہیں جو بنیادی
طور پر کشمیری بٹ ہیں اورمتروکہ وقف املاک کی ایک عمارت المشہور ’لال حویلی‘ کے
مکین ہیں ۔ان کا موجودہ (مبینہ طور پر،قلعہ بند) جدید گھر ،فتح جنگ کے قریب زیر
زمین ہے۔
پلیٹ فارم پر¬مسافروں کا زیادہ تنوّع دیکھنےکو نہیں مل رہا تھا۔ عموماً مڈل کلاس کے
لوگ ہی منڈلا رہے تھے۔ اپر کلاس یا بہت زیادہ نچلے طبقے کے مسافرنظر نہیں آ رہے
تھے۔میں حیران ہوا کہ پسماندہ لوگ کیوں نہیں؟ جن سے اظہار یکجہتی کےلیے گاندھی نے
اپنا لباس مختصر کر دیا تھا۔اس کے علاوہ’برصغیرکے پاک حصے میں، ببانگ مُلاں یہ
خوشنما اعلان سننے کو ملتا رہا ہے کہ ذات پات کا نظام آج سے 1400 سو سال پہلے ختم
ہوچکا ہے۔‘یہ اعلان ہر جگہ کیوں نہیں پہنچا ؟ یہاں بھی نہیں ؟ جدید ماڈرن کاروں میں
سفر کرنے والے یہ الٹرا ماڈرن لوگ کون ہیں؟ کیا وہ ہم میں سےہیں؟ اپنی کاروں میں،
قیمتی ایندھن پھونک کر کون سا احسان جتا رہے ہیں؟
ایک ثانیے میرے ذہن میں خیال آیاکہ ٹکٹ واپس کرکے ، ائر کنڈیشنڈ بس میں سفر کر لیتا
ہوں تاکہ جتنی دیر یہاں انتظا ر کرنا ہے ، اتنی دیر میں آدھی مسافت طے ہوہی جائے
گی۔ میں ویش(لوئر مڈ ل کلاسیا )ہو کر بھی برہمنوں (اپر کلاسیوں) میں شامل ہو نا
چاہتا تھا جن کی خاطر(مسلمان ) کھتریوں نے (مسلمان ) شودروں کی جسمانی مشقت سےموٹر
وے، گرین لائن، اورنج لائن بنا دی ہیں۔ لیکن ریل گاڑی سے میری بچپن کی انسیت نے
مجھے یاد دلایا ۔’بچپن کی محبت کو دل سے نہ بھلا دینا۔‘ چنانچہ وقت کو پیچھے
دھکیلنےکے لئے پلیٹ فارم کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ،مٹر گشت کرنے لگا۔
ایک بات نوٹس کرنے والی تھی کہ ریل گاڑیوں کے آمدو رفت کے اوقات ( بڑے بڑے تختوں کی
صورت ) دیواروں پر درج نہیں تھے۔ نہ ہی کرایہ نامے آویزاں تھے۔ دوسری بات اہم یہ
تھی کہ کھانے پینے کی اشیا ءاب کھلم کھلا ٹھیلوں پر دستیاب نہیں تھیں۔ اگر آپ کا
کفلی (کلفی) کھانے کا من چاہ رہا تو مت اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائیں کہ کلفی بیچنے
والا ، رہیڑی پر خوانچوں میں کلفیاں جمائے ، ”کلفی کھوئے ملائی والی “ کی صدا لگاتا
آپکے قریب سے گزرے گا اور آپ لپک کر بیس روپے والی کلفی تیس روپے میں خرید لیں گے۔
اگر آپ گرما گرم پکوڑے کھانا چاہتے ہیں تو خاطر جمع رکھیے۔ کڑاہی کے اندرگرم گرم
تیل میں ’کھد کھد‘ کرتے ، حدت سے پہلو بچاتے مختلف الاشکال پکوڑے ، کسی پلیٹ فارم
پر نہیں ہیں۔ ہلکی پھلکی بھوک میں ’ٹک بسکٹ‘ مل جائیں گے لیکن مکئی کے بھٹے،ابلی
چھلیاں فروخت کرنے والے ، بھنے ہوئے کشمیری دانے، مکئی کے پھولے ہوئے دانے (پاپ
کارن ) بیچنے والے خوانچہ فروش بھی عنقا ہیں۔ ”نان ٹکی والے“(خمیری روٹی اور کباب)
کی صدا لگانے والےبساطی بھی کہیں نہیں، دہی کو رگڑا لگا کر لسی بنانے والا منظر بھی
ماضی ہو چکا ہے۔تاہم ایسی اشیا فروخت کرنے والوں نے اپنے ایجنٹ ضرور متمکن کر رکھے
تھے۔ جو مسافروں کی بھیڑ کے قریب آ کر راز داری سے پوچھ لیتےتھے۔”پکوڑوں کا من چاہ
رہا ہے؟ لا دوں؟“بعض قلی جو شاید اوورٹائم کر رہے تھے، فاسٹ فوڈز کےمختلف نمونے ٹرے
پر سجائے چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔مشہور آوٹ لیٹس کے کارندے مینیو کے دیدہ زیب
پرنٹڈاوراق لہراتے ، ”روسٹ چکن، چکن کڑاہی، ملائی بوٹی “ ہانکتے آرام گاہ میں آرام
کرتے مسافروں کے آرام میں مخل ہو رہے تھے۔ جونہی کوئی خاتون ہانک سنتی تو وہ اچھل
اچھل اور اترا اترا کر ، بچوں کی آڑ میں اپنےخاوند کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی
لیکن متوجہ کسی اور کا خاوند ہو جاتا۔قلی اپنے کمیشن کے لالچ میں متعلقہ چیز لا
دیتے اور چھوٹی موٹی ریز گاری لوٹانے کے مطالبے پر آئیں بائیں شائیں کرتے۔
امراء کےبچوں بچیوں کی فاسٹ فوڈ سے لگاؤ کی خاطر پلیٹ فارم 2پر ایک دکان’پیزاہٹ‘ کے
نام سےسجائی گئی ہے،جہاں پیز ا کے علاوہ،سافٹ ڈرنک، کافی،چائے، برگر،فرینچ فرائز
اورکیک رس وغیرہ بھی دستیاب ہیں۔ درجہ دوئم و سوئم کے حامل آدمی وہاں جاتے ہوئے
جھجک رہےتھے کیونکہ اس کے دروازے اور کھڑکیوں کے شیشوں پر سیاہ رنگ کیا گیا ہے جو
اس پر اجنبیت کا سایہ چڑھا رہا تھا۔پلیٹ فارم ¬3پرمیڈیکل سٹور کی سہولت بھی دیکھی
گئی جہاں کھانسی ، بخارکی دوائی،سردرد کی گولیوں اور گلے کی خراش دور کرنے والی
گولیوں اور ہنیڈ سینیٹائزرکے علاوہ اگر کچھ وافر دستیاب ہے تو وہ غیر معیاریMasks
ہیں ۔ آج کل کویڈ۔19(کرونا) وبا کا دور دورہ ہے۔ اس سے بچاؤ کی ایک تدبیر سماجی
فاصلہ(5 فٹ) رکھنا ہے، دوسری احتیاط دن میں صابن سے کم از کم بیس سیکنڈ تک بابار
ہاتھ دھونا ہے اور تیسری احتیاط ماسک کا استعمال ہے بشرطیکہ اس سے منہ اور ناک اچھی
طرح ڈھکے جا سکیں اور اس کے سوراخوں میں سے وائرس آر پار دیکھ نہ سکیں۔
آج کل، ریلوے اسٹیشن ، عوامی سہولت کم اور قید خانہ زیادہ لگتا ہے۔صرف ایک در کھلا
ہے ، جہاں دیو ہیکل واک تھرو گیٹ نصب ہے۔ مسافروں کوہمراہ اپنے سفری بیگز کے اس گیٹ
سے لازماً گزرنا ہوتاہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی دھاتی یا الیکڑانکس شے کی
موجودگی کے باوجود’ٹوں ٹوں‘ کرتا ہے یا در گزر کرتا ہے۔ایک سپاہی میٹل ڈیٹیکٹر ہاتھ
میں پکڑے واک تھرو گیٹ کے اِدھراور دوسرا اُدھر نیم چاک و چوبند کھڑا ہے ۔اس وقت
سپاہی میں اچانک توانائی آ جاتی ہے جب کوئی ڈھیلے ڈھالے کپڑے زیب تن کیےمسافرافلاس
زدہ خواتین کے ساتھ نظر آجاتا ہے تو ان کے جسموں پر میٹل ڈیٹیکٹر مس کرنا اپنی
ڈیوٹی کا حصہ جاننے لگ جاتا ہے۔ایک ماہر نفسیات دان کے طور پر وہ جانتا ہے کہ بم جب
بھی پھٹے گا تو اس محروم طبقے کی وجہ سے پھٹے گا، جو عرصے سے دھماکے سہہ رہا ہے۔
اسٹیشن کا حلیہ کچھ توبدل دیا گیا ہے اور باقی تبدیلی کے مراحل میں ہے۔کیوں نہ ہو”
تبدیلی آئی ہے۔ پی ٹی آئی ہے۔“ماضی میں یہاں ، آزادماحول کا احساس ہوتا تھا۔ ریلوے
اسٹیشن کے دالان ’بیرونی برآمدے ‘کے سار ےدر کھلےدل سے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے
تھے۔ دالان کے ماتھے پرقیام پاکستان سے قبل کا نعرہ ’کلمہ طیبہ‘بدستورموجود ہے۔شاید
اسی کی برکت سے اسٹیشن ابھی تک خدا کے عتاب سے محفوظ ہے؟
بیرونی انتظارگاہ پر جا بجامسافر لوگ اور ان کو الوداع کرنے آئےہوئے دوست ،رشتہ
دار،ریلوے اسٹیشن کو اپنے گھرجیسا سمجھ کر براجمان ہوجاتے تھے۔ ان کے ہمراہ آئے بچے
بلا جھجک چلتے پھرتے اور کلانچیں بھرتےنظر آتے تھے۔انتظار گاہ میں جگہ جگہ ریل
گاڑیوں کی آمدورفت کے جدول آویزاں ہوتے۔ہر کلاس کا کرایہ نامہ ، اپنے اپنے مخصوص
رنگ (پینٹ) میں، ٹکٹ گھرکی،دیورا پرتحریر ہوتاتاکہ لوگ اپنی حثیت کو پہچان کر ٹکٹ
حاصل کریں۔ اہم ریلوے اسٹیشنوں کافاصلہ بھی درج ہوتا۔ کہیں کہیں مسافروں کے لیے
ہدایات تحریر ہوتیں۔ انتظار کے کرب ناک ماحول کو دور کرنے کے لئے مسافرایک سے زیادہ
مرتبہ ان بورڈوں کے سامنے کھڑے ہوکر کئی دفعہ اوپر سے نیچے تک پڑھتے نظر آتے۔کئی
بزرگ اپنے جیب سے جنتری نکال کر اپنے قلم سے اس کے اندر چھپے کرایہ نامہ کو اپ ڈیٹ
کر رہے ہوتے۔
دیر سے آنے والے مسافروں کی انتباہ کے لیے کارٹون بنے ہوتے جس میں وقت پر نہ پہنچ
سکنے والاایک مسافرپلیٹ فارم کو چھوڑتی ہوئی گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش میں ٹرین
کی رفتار کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا تھا۔تصویر میں پلیٹ فارم پر کھڑے لوگ پریشان
ہیں کہ بے وقت کوشش میں گر کر اپنی ہڈی پسلی ایک ہی نہ کروا بیٹھے۔ اب یہ سب کچھ
نہیں ہے کیونکہ مسافر ’تو نہیں اورسہی اور نہیں اور سہی‘کے فی زمانہ فارمولے پر عمل
پیرا ہیں ۔ماضی بعید میں جگہ جگہ مسافروں کا سامان اٹھا کر اسٹیشن کے اندر اور باہر
پہنچانے والے قلیوں کی فی پھیرہ اجرت بھی جلی حروف میں لکھی ہوتی تھی بلکہ ان کی
وردی کے سینےپر آویزاں ہوتی تھی۔لیکن ماضی قریب میں امریکہ کی نقالی میں آزاد معیشت
(Free economy) کا دور دورہ رہا۔ بھاؤ تاؤ سے کام نکالا جا تارہا ہوتا۔ اونچے
پائنچے والےجامے پہن کر پنڈلیاں واضح طور پر دکھانے والی کافرشیں ، سرکاری ریٹ سے
زیادہ اجرت دے کر،قانون کی پاسداری کرنے والے مڈل کلاسیوں کے لئے ، قلیوں کو ان کی
پہنچ سے دور کر رہی ہوتیں ۔ قلی ایسی ہی جدید جادوائی خواتین کے انتظار میں گھات
لگائے بیٹھے ہوتے۔اب حال میں ایسی رحمتیں بکھیرتی ہستیاں دیکھنا، قلیوں کے لیے،
محال ہو رہا ہے۔
ایمرجنسی میں پہنچنے والے مسافروں کے لئے فطری ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ’قلی‘
بلا خوف قانون بھتہ( محنت سے زیادہ صلہ) وصول کرکے، سیٹ بکنگ کا بھی انتظام کر دیتے
تھے۔ ان کا دھندہ ،مصنوعی ذہانت کے حامل جدید کمپیوٹروں کی بدولت ماند پڑ گیا ہے۔
گزشتہ ’ن‘ لیگی ریلوے منسٹر ’خواجہ سعدرفیق ‘نے آن لائن بکنگ متعارف کروا کرامراء
کو ریلوے مسافر بننے کی ترغیب تو دی ہے، لیکن بے سود۔ ہما شما ہی ریلوے کے’ کام
آتے‘ ہیں جوبنفس نفیس بکنگ آفس تشریف لا کر پیشگی بکنگ کرواتے ہیں یا وہ ’بھولے‘
مسافرجواوپن ٹکٹ پر سفر کرتے ہیں۔قلی اب، نیم بے روزگار سے، یہاں وہاں آسمان والےکی
طرف منْہ کرے بیٹھے ہوتے ہیں۔
ماضی میں قطار نہ بنانے کے حامی’جرّی‘لوگ ٹکٹ گھرکی کھڑکی تک پہنچنے کے لئے لوگوں
کو پھلانگتے، الجھتے ہمارے قومی چلن کو واضح کرتے ہوئے اس خطے کی پہچان ہوتے تھے۔
دھونس اور دھکہ شاہی کے یہ پیرو کار آخر کار قانون پسنداقلیت کا منْہ چڑاتے ٹکٹ
حاصل کرکے یہ جا وہ جا۔ اب جدید الیکٹرانک کمپیوٹرز کی بدولت ہم اپنی یہ ثقافت بھی
کھو رہے ہیں۔
عمارت کی مرمت کی جا رہی ہے۔ انگریزوں کی پائیدار باقیات کو ’بسم اللہ‘ پڑھ کر چینی
تنصیبات سے بدلا جا رہا ہے۔کفایت شعاری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زیادہ مخدوش حصّوں پر
نظرِ کرم کی جا رہی ہے۔ہو سکتا ہے ایسا بائنڈنگ میٹریل تیار کر لیا گیاہو جو صدیوں
پرانے ’مواد‘کے ساتھ پیوسط ہوکر ’سیسہ پلائی دیوار‘تیار کر دے۔ پلیٹ فارمز گرووغبار
سے اٹے پڑےہیں۔ صفائی پرمامور عملہ کوڑے کووائپرکےلمبے بلیڈ کےآگے آگے دھکیلتا ایک
کنارے سے دوسرے سرے تک چلاجاتا ہے۔ اس کی واپسی پر دیواروں سے کھرچی گئی کنکریٹ کئی
بارپلیٹ فارم سے گلے آ ملتی۔کچھ نک چڑھے نو دولتیے پلیٹ فارمز اورمسافر خانے کی
زبوں حالی پرچِیں بَہ جَبِیں ہو رہے تھے۔
سرد موسم کی وجہ سے میں نے کسی کنکریٹ بینچ پر آلت ٹکانا پسند نہ کیا ۔ چلتا
چلتا(دائیں طرف )پلیٹ فارم کے آغاز تک چلا گیا۔ پلیٹ فارم 3کے قریب ریلوے ٹریک کا
چھوٹا سا مخدوش حصہ دکھائی پڑا،جو انجن اور بوگیوں کی شنٹنگ کے لئے استعمال ہونا
چاہیے کیونکہ اسٹیشن کے قریب پہنچ کر یہ حصہ بلاک کر دیا گیا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ
یہ حصہ شاید حال میں مستعمل نہیں ہوتا ہو گاکیونکہ پٹڑیوں کے بیچ دیمک زدہ لکڑی کے
خستہ حال سلیپر گئے دنوں کو یاد کر کےاشکبار تھے۔اُن کے کچھ نٹس اینڈ بولٹس کہیں
کہیں سے ریلوے کو داغ مفارقت دے گئے تھے اور باقی ماندہ کل کلاں بھاگنے کے لیے پر
تول رہےتھے۔تازہ دم نٹ اینڈ بولٹ ،ان کی جگہ لینے سے گریزاں ہیں۔ ریلوے کی پٹڑیوں
کا لیول عمودی نہ تھا،ایک پٹڑی اندر کی طرف جھکی ہوئی تھی تو دوسری متوازی پٹڑی کا
جھکاؤ مخالف سمت میں تھا۔ کافی دیر تک میں تکتا رہا، اپنے دماغ کو دھمکی بھی دی
”انہیں سیدھا دیکھو۔ جھکا ہوا نہ سمجھو۔ “میرے دماغ نے حکم ماننے سے انکار کر دیا ۔
اس نے کہا ”میرا خیال ہے آج تم نے بلڈ پریشر کی گولی EZIDAY(50mg) یاد سے نہیں
کھائی؟“ میں نے قسم کھا کر کہا ” کھائی تھی، میرے باپ۔“دماغ نے کہا ”پھر بھی سوچ
لو۔ قسم کھانے والا عموماً سچا نہیں ہوتا۔“دماغ نے کہا ”ثبوت فراہم کرنے کے لیے
ممکنہ شنٹنگ کا عمل دیکھنے یہاں کھڑا ہو جا۔اگر انجن یا کوئی بوگی اس دوران پٹڑی سے
اتر گئی تو میں یقین کر لوں گا کہ تم نے گولی کھائی تھی۔“ ایک حد تک وہاں کھڑے ہو
کرنظارہ دیکھنا چاہا لیکن شاید آج شنٹنگ ہو ہی نہ ۔ اپنے حق میں’گواہی‘ کے ممکنہ
وجود کو ختم ہی سمجھ کر واپس پلیٹ فارم 5 پر آ گیا، جہاں متوقع طورسبک خرام
نےورکشاپ کی یاترا کرکے رکنا تھا اور پھر اعلان سننے پر چلنا تھا۔ تھوڑی دیر یہاں
ٹہلا۔ اب بھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔وقت کو مارمار کر مغرب والوں کی طرف بھگانے کے
لیے ، میں پھر شنٹنگ کی جگہ کی طرف چل پڑا۔ کیونکہ وہاں آفتاب کی سہمی سہمی کرنیں
موجود تھیں جو سردی کے خلاف قدرتی مدافعت کا انمول تحفہ تھیں۔ پھر خیال آیا کہ دھوپ
تاپنے سے کہیں پانی کی کمی نہ ہو جائے اس خیال سے منرل واٹر کی بوتل خریدنے کا
ارادہ کیا بلکہ خرید ہی لی۔مشہور برانڈ والی بوتل ’نیسلے منرل واٹر ‘دستیاب نہ تھی۔
یہاں ساتھ ساتھ تین چار کیبن ایستادہ تھے لیکن کسی کے پاس بھی معیاری پانی نہیں
تھا۔ چنانچہ حکومتی بلند بانگ دعوؤں کے باوجود معیاری پانی کی قیمت میں غیر معیاری
کمپنی کی ایک بڑی بوتل (پچاس روپے میں) خریدی ۔ اس کو ہضم کرنے کے لئے بسکٹ کا ننھا
پیکٹ بھی (15 روپے) میں خریدا ۔کھوکے والے کے پاس حکومت وقت کے سکے نہیں تھے چنانچہ
اس نے پانچ روپے کی ریزگاری غیرحکومتی کرنسی (ایک ٹافی) کی صورت میں تھما کر ممنون
کیا۔ پیکٹ کھول کر مسجد کے دروازے کے قریب بینچ پر بیٹھ کر بسکٹ کھانے لگا تو دو
نظاروں نے میری آنکھیں کھول دیں۔
پہلا نظارہ یہ تھا کہ زرد رنگ کے پیکٹ پر برینڈ کے انگریزی نام کے سپیلنگ درست کر
دیے گئے تھے حتیٰ کہ اردو میں ہجےبھی صحیح لکھےگئے تھے۔ ورنہ اس سے قبل پیکٹ پر
انگریزی میں SOOPER لکھا ہوتااور اردو میں ’سوپر۔‘ ابھی ایک ہی بسکٹ زبان پر رکھا
تو اس کا ذائقہ ’کافور‘ ہوگیا ۔ پانی کی بوتل پر چسپاں لیبل کو پڑھا تو مجھے یقین
ہو گیا کہ ہم زمین سے زیادہ آسمان سے محبت کرنے کے داعی ہیں کیونکہ مشہور برینڈ
’سیون سیز ‘(seven seas) کی جگہ ’سیون ہیونز‘ (seven heavens) درج تھا۔ ڈھکنے پر
نظر کرم کردی گئی تھی ۔اسے سیل نہیں کیا گیا تھا مبادا مجھ جیسا ساٹھا باٹھا اسے
توڑنے کی بجائے تروڑنا مروڑنا شروع کر دے۔
دوسرا نظارہ یہ تھا کہ کچھ فاصلے پر پلیٹ فارم 9 سے تھوڑا اِدھر میرے کانوں نے ایک
غیر معمولی شورو غل سنا ۔ مجھے ایسا لگا کہ غائب سے آواز آ رہی ہے ’بسکٹ نہ کھانا
یہ SOOPER نہیں ہیں۔‘ پیکٹ کو مسجد کی دیوار کے ساتھ بنائے گئے کنکریٹ کے چبوترے پر
بنا ترددّچھوڑ آیا تاکہ بروز قیامت نیک گواہی سند رہے۔داغ مفارقت دیتی ہوئی دھوپ کی
سمت کا جائزہ لینے کے لیے اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کا جم غفیر ریلوے لائن
پر کھڑا، ایک بوگی کو بنظر تاسف دیکھ رہا ہے۔ میں بھی بھاگا۔ دیکھوں کیا تماشا ہوا
ہے۔ لوگوں کے جتھے نے مجھے اتنی جگہ بھی میسر نہ کی کہ ریلوے ٹریک پر جوانہونی ہوئی
ہے اسے بچشم خود ملاحظہ کر سکوں۔ میں نے اپنے خدشے کو حقیقت کا روپ دھارنے کا ثبوت
ان تماشایوں سے پوچھ گچھ کرکے حاصل کر لیا جو موقع ملاحظہ کرنے کے بعد لوٹ رہے
تھے۔انہوں نے بتایا بوگی احتجاجاً پٹڑی سے نیچے اترگئی ہے تاکہ وہ اپنی آئندہ آنے
والی جدید نسل کی کوچز کا مستقبل محفوظ بناسکے ۔ کچھ ہی دیر بعد نارووال جانے والی
گاڑی پلیٹ فارم 9 پر آ گئی، کافی مسافر ریل پر سوار ہونے کے لئے چلے گئے۔ مطلع
قدرے صاف ہوا تب میں نے دیکھا کہ انہونی نہیں ہوئی تھی بلکہ ہونی ہوئی تھی جس نے
بلڈ پریشر کی گولی کھانے کا میرا دعویٰ درست ثابت کر دیا۔ شنٹنگ کے دوران ،انجن کے
ساتھ منسلک واحد بوگی کے آہنی پہیے دونوں طرف کی پٹڑیوں سے اتر کر زمین میں دھنس
چکے تھے۔ ورکشاپ کی طرف سے ایک ریلیف ٹرین پلیٹ فارم 6 پرپہنچی، پانچ ریلوے ورکرز
ایک مضبوط سے ٹھیلے کو ریلتے ہوئے جائے حادثہ پر لے آئے، جس پردو دیو ہیکل ہیوی
ڈیوٹی جیک لدے ہوئے تھے۔ ایک ایک جیک بوگی کے اطرف فٹ کرکے مزدور وں نے قوت بازو کے
سہارے آدھا گھنٹا اپنا پسینہ بہا کر اسے اوپر اٹھا کر پہیوں سے منسلک تختےکے لئے
جگہ بنا کر اسے واپس پٹٹری پر رکھ دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ پٹڑیوں کا اندر اور باہر
کی طرف جھکاؤ اپنی جگہ برقرا رکھا گیا تاکہ کچھ دنوں بعد پھر سے مزدوری دینے کے لئے
مزدوروں کا پسینہ بہایا جا سکے۔
جب وہ کچھ میرے سامنے ہو گیا جس کا دس پندرہ منٹ قبل میں خودکلامی کر کے خدشے کا
اظہار کر رہا تھا تو اس وقت میرے ذہن میں آیا کہ کوئی تو میرے واہمے کو عملی صورت
اختیار کرتا دیکھتا تو میری روح بڑی شادماں ہوتی۔ میرے جیسے اور بھی لوگ ہوں گے جو
اس قسم کی انہونی کو ہونی میں تبدیل ہونے کی پشین گوئی کرتے ہوں گے جو واقع ہو بھی
جاتی ہوگی۔ ایسے لوگوں کو گواہ بھی مل جاتے ہوں گے۔ لیکن کیا یہ مسلئے کا حل ہے یا
محض اپنی انا کی تسکین۔ مسلئہ تو اپنی جگہ رہے گا۔ کیا وقتی حل ، مستقبل حل سے نجات
دلا سکتا ہے یا یہ کہ مستقل حل ، وقتی حل کی ضروت ہی نہیں پیدا ہونے دے گا۔ میں نے
بہت تماشا دیکھ لیا تو خیالات کے اس بھنْور میں گھرے رہنے کی بجائے واپس پلیٹ فارم
3 پر آ کرباریک باریک سوراخوں والےایک سٹیل بینچ پر بیٹھ گیا۔
اتفاق سے اس پر نشتہ آدمیوں میں سے ایک اٹھ کر چلا گیا تبھی وہاں گنجائش بن گئی۔
میں دائیں بائیں بیٹھے مسافروں کی باتیں غور سے سننے لگا اس خیال سے کہ ان میں سے
شاید کوئی تو ہو گا جو میرے تحیر سے مطابقت رکھتا ہویا عین ممکن ہے کہ ان میں سے
کوئی تو ریلوے کے ناقص نظام بارے میری بھڑاس سہہ لے گا۔ میرے خیال میں یہ شخص مناسب
رہے گا جو مجھے وہاں براجمان ہوتے ہوئے دیکھتا جا رہا تھا۔ میں نے آج کا سارا واقعہ
اس کے ساتھ مذکور کرکےسوال کیا ” کچھ اس کا بھی علاج ہے چارہ گر کہ نہیں؟“اس کے
علاوہ میں نے ایک اور سوال رکھا ” اگر ہمیں کسی محکمے کی خراب کارکردگی کا علم ہو
جائے تو ایسا کیا کیا جائے کہ محکمےکے سربراہ کو اس خرابی کا علم فی الفور ہو جائے
اور وہ ترت رفع بھی ہو۔“ مسافر کہنے لگا ”آپ تَنْد کی بات کر رہے ہیں یہاں تو تانی
ہی بگڑی ہوئی ہے۔ لہذا تان اس پر ٹوٹی کہ ہم سب کا خون ایک نسل سے تعلق نہیں
رکھتااسی لئے چبھنے والے کانٹےکی درد کسی دوسرے کومحسوس نہیں ہوتی۔“
ناگاہ میری نظر ایک بوڑھی خاتون پر پڑی جو دستکاری کر رہی تھی۔ قریشیے اور سلائیوں
کی مدد سے دستانے بُن رہی تھی۔ میں نے سوچا یہ ایک فاترالعقل بڑھیا ہے ، بینچ سے
ذرا پیچھے بیٹھی بے کار وقت ضائع کر رہی ہے۔ آج کل کہاں رواج ہے دستکاری دستانے
پہننے کا۔ اگر ہے بھی تو یہاں اس سے کون یہ خریدے گا۔ لوگ آ رہے ہیں، جا رہے ہیں۔
مگر میرے علاوہ کسی کے ریڈار میں یہ خاتون نہیں تھی۔ وہ ایسی فیکٹری تھی جس کی وہ
مالک تھی اور مزدور بھی۔ لیکن شاید ایسی مالک جسے ان منڈیوں تک رسائی نہ تھی جہاں
اسکا تیار مال مناسب داموں پر فروخت ہوسکتا ہو ۔ میری دانست میں ایسی کوشش نتیجہ
خیزکیسے ہو سکتی ہے؟ مفلوک الحال آدمی باوجود اپنے پاس قابل عمل منصوبہ رکھنے کے،
سرمایہ دارانہ ماحول میں کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
نہ جانے آج اسٹیشن پرکوئی معذور، لنگڑا لولا، نابینا، بھیک مانگتا کیوں نظر نہیں آ
رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سرمایہ کار’بھیڑیوں‘نے ان ’میلی کچیلی بھیڑوں‘ سے
چھٹکارا حاصل کر لیا۔ کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے خدشہ یہ ہے کہ لوگ اپنا پس انداز کیا
ہوا سرمایہ تھوڑا تھوڑا کرکےتقسیم کر دیں گے اور ان کی دکانوں تک سرمایہ نہیں پہنچ
سکے گا۔ میرے واہمے میں ایک دفعہ یہ بھی آیا کہ یہ بڑھیا اس روپ میں کہیں بھکارن ہی
نہ ہو؟ میں نے ’حاتم طائی‘بنتے ہوئے 50 روپے کا نوٹ خیرات کرنے کے لیے جیب میں
دھیرے دھیرے ہاتھ ڈالا تو مجھے ایک دم دھچکا لگا۔اُسی وقت ایک دبلا پتلا سا نوجوان
بڑھیا کے پاس آ بیٹھا۔ اس نے 500 روپے کا نوٹ اس کے آگے بڑھا دیا۔ بڑھیا نے اصلی
ہونے کا یقین کر کے ،اٹھ کرگدی کےنیچےمحفوظ کیا گیاتیار مال لمبے سے شاپنگ بیگ میں
ٹھونس کر اپنے محسن کے حوالے کر دیا۔ دھان پان کے اس لڑکے نے پولی تھین کے اس پیکٹ
میں ہاتھ ڈال کر دستانے برآمد کرکے ان کی گنتی کرنے کے بعد بڑھیا کے کان میں کوئی
بات کی۔بڑھیا نے اپنے پاس خام مال کا جائزہ لینے کے بعد اس کو مثبت اشارہ کرتے ہوئے
، میرا خیال ہےکہا : ”کل نہیں تو پرسوں “نوجوان تیار مال کی کوالٹی کا بنظر
غائرجائزہ لینے کے بعد اٹھا اور سیدھے ہاتھ چلتا گیا۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب
کیا۔ وہ آئس کریم کی آؤٹ لیٹ میں داخل ہو گیا۔وہاں ایک بڑے سی توند والا ایک
ساہوکار بیٹھا تھا۔ مال اس نے ساہوکار کو دیا اور خود شکایات و معلومات کے کمرے میں
چلا گیا۔ مطلب یہ کہ نوجوان ریلوے کا ایک ملاز م تھا جو مستاجرہے اورآجر سے رابطے
کا ذریعہ ہے۔ یہ بات عیاں ہو گئی کہ سرمایہ کاری کا سفینہ ڈوبنے میں ابھی صدیاں پڑی
ہیں۔اب مجھے بڑھیا پہلے سے زیادہ مظلوم نظر آئی جو اپنی محنت کے درست معاوضے سے بے
بہرہ تھی۔ میں نے آج ٹھان لی بڑھیا سے یہ معلوم کرنے کی کہ اس نے اپنا ذاتی کارخانہ
اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہی کیوں قائم کیا ہے اپنے محلے میں یا گھر کے پلیٹ فارم پر
کیوں نہیں۔ میں بینچ سے اٹھ کر اسی بینچ کے پیچھےبراجمان بزرگ خاتون کے پاس چلا
آیا۔
اس سے بات چیت کرکے جو میں نے خلاصہ نکالاوہ یہ ہے کہ’وہ اپنی شناخت کھو چکی ہے۔‘
چالیس سال رشتہ ازدواج میں گزرے۔ اس کا کوئی بیٹا پیدا ہوا نہ بیٹی۔ اس کے
دوبھائیوں نے بھی تین کنال اراضی میں سے ایک مرلہ بھی اس کے نام نہ کروایا۔ اس کے
خاوند نے اسے اسٹیشن پر چھوڑ دیا یہ طعنہ دے کر ”تم مجھے کوئی شناخت نہیں دلا سکی
تو تمھیں بھی شناخت سے محروم کرتا ہوں۔“ تب سے وہ، ریلوےملازمین کے طفیل ،سرکاری
زمین پراوڑھنا بچھونا کرکےاپنے کارخانے سے گزر بسر کر رہی ہے۔ لیکن آخر کس لیے؟اپنے
جسم کے لیےیا روح کے لیے، جنت کے لیے یا پیٹ کے دوزخ کے لیے؟ یہ تیسری دنیا کے
ریلوے اسٹیشن کا تیسرا منظر تھا۔
|