میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
جناب مفتی آصف عبداللہ قادری (دامت برکاتہم العالیہ) کی شخصیت عالم اسلام ،
پاکستان اور خاص طور پر کراچی والوں کے لئے کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ کے
مختلف موضوعات پر کئے گئے بیانات عام انسانوں کے دل پر براہ راست اثر انداز
ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ آپ کی کی گئی قرآن مجید فرقان حمید کی آسان اور
جامعہ تفسیر نے کئی لوگوں کو قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے میں بتدریج اچھا
موقع فراہم کیا ہے آپ کے ایک بیان بعنوان ' رحمت اور زحمت میں فرق ' کو سن
کر اسے اپنے الفاظ میں تحریری شکل دینے کی ہمت اور جرئت کررہا ہوں جو انہوں
نے نورالقران کی ایک مخصوص نشست میں بیان فرمایا تھا دعا کریں کہ اللہ رب
العزت مجھے حق بات کہنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور قبلہ مفتی صاحب کے علم و عمل میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی عطا
فرمائےآمین آمین بجاہ الامین صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی میری تحریر رحمت اور زحمت میں فرق کے
عنوان سے ہے جسے ہم قرآن اور حدیث سے سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ رب العزت
کی کونسی نعمتیں ہمارے لئیے رحمت کا درجہ رکھتی ہیں اور کونسی نعمت جو
ہمارے لئے ہوتی تو رحمت ہیں لیکن ہم ان کو ہم اپنے لئے زحمت بنا دیتے ہیں
رب العزت نے اپنی انتہائی مبارک اور پاک کتاب قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ
بقرہ کی آیت نمبر 216 میں ارشاد فرمایا کہ
وَعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى
اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ؕ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ
وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔
ترجمعہ کنزالایمان :
اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور
قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ
جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
مفتی آصف عبداللہ قادری ( دامت برکاتہم) اس ترجمعہ کا خلاصہ کچھ یوں بیان
فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شہ ہمیں پسند نہ آئے اور وہ ہمارے لئے
بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ کوئی شہ ہمیں پسند ہو اور اس میں ہمارے لئے شر
ہو یعنی ہمارے حق میں بہتر نہ ہو تو یہ معاملات اللہ رب العزت خوب جانتا ہے
ہم نہیں جانتے۔
تفسیر : مفتی آصف عبداللہ قادری (دامت برکاتہم)
اس ایت کی تفسیر میں مفتی اصف عبداللہ قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے
ہیں کہ بعض اوقات انسان کی زندگی میں اللہ کی طرف سے ایسی نعمتیں عطا ہوتی
ہیں جو ہمیں اچھی نہیں لگتی لیکن وہ اللہ کی طرف سے ہمارے لیے بہتر ہوتی
ہیں اور بعض اوقات اسی نعمتیں بھی ہوتی ہیں جو اللہ کی طرف سے ہمارے حق میں
بہتر نہیں ہوتی اس لئے وہ ہمیں نہیں ملتی اور بعض اوقات اللہ کی طرف سے
ہمیں کچھ ایسی نعمتیں عطا ہوتی ہیں جن کو ہم اپنے لیے زحمت بنا دیتے ہیں
جبکہ وہ بھی ہمارے لیے رحمت سے کم نہیں ہوتی۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے
عطا ہونے والی وہ کون سی نعمتیں ہیں جو ہمارے لئے رحمت بن کر ہمیں ملتی ہیں
اور کون سی نعمتیں ہمیں اللہ رب العزت سے دور کر دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ
کی ناراضگی کا سبب بن کر ہمارے لئے زحمت بن جاتی ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں کہ اگر ہم شریعت
کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم کے احکامات پر عمل کریں اور قرآن و حدیث کی رہنمائی حاصل کریں تو یہ
رحمتیں ہمارے لئے روز محشر اجر وثواب کا باعث بھی ہوں گی اور جنت میں داخلے
کا سبب بھی بنیں گی ۔سب سےہم یہ دیکھیں گے وہ کیا چیز ہے کیا شخصیت ہے جس
کو ہمارے معاشرے میں عام طور پر بوجھ اور زحمت سمجھا جاتا ہے لیکن وہ اللہ
تعالی کی خاص نعمت ہے اللہ کی خاص رحمت ہے جس کے فضائل صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے خود کئے ہیں یعنی بیٹی کا پدا ہونا بیٹی کی پیدائش کی اطلاع اگر
کسی گھر میں دی جائے اور کہا جائے کہ اپ کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی ہے تو
بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کا موڈ اف ہو جاتا ہے پریشان ہو جاتے ہیں اور وہ
بیٹی کو زحمت سمجھنے لگتے ہیں کیا بیٹا ہی اللہ کی رحمت اور نعمت ہے بیٹی
کو رحمت ہم کیوں نہیں سمجھتے بس بیٹے کی ولادت کی خواہش ہی کی جاتی ہے اور
شادی کے فوراً بعد بیٹے کی ولادت کا انتظار رہتا ہے آخر کیوں ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ اصل میں علم
دین اور قرآن و حدیث کے نور سے دوری کا نتیجہ ہے جبکہ عام طور پر بیٹی کے
فضائل سے لوگ واقف نہیں ہیں ایک حدیث کے مطابق سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تین بیٹیاں عطا
فرمائیں اور ایک دوسری روایت کے مطابق کہ جسے بیٹیوں کی وجہ سے آزمایا گیا
تو اگر اس نے صبر کیا انہیں پانی پلایا انہیں کھانا کھلایا اور اچھی طرح ان
کا خیال رکھا اور اپنی کوشش کے مطابق انہیں اچھا لباس دیا اور اعلی پرورش
کی بیٹیوں کو حقیر نہ جانا بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو ترجیح نہ دی اور
ان کی اچھی کفالت کی تو قیامت میں یہ بیٹیاں جہنم کی آگ کے سامنے آڑ بن کر
کھڑی ہوں گی یعنی اگر باپ کو جہنم میں داخل کرنے کا حکم ہوا تو وہ آڑ بن کر
کھڑی ہوں گی رکاوٹ ہوں گی یعنی اپنے باپ کو جہنم میں جانے سے بچائیں گی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ فضیلت صرف اس
وقت ممکن ہوں گی جب باپ ماں اور بیٹیاں سب کے سب مسلمان ہوں اور اپنے
بیٹیوں کی شرعی طور پر تربیت کی صبر کیا اور اللہ تعلی کی اس نعمت کا شکر
ادا کیا کبھی اسے زحمت نہ سمجھا تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ وہ اور میں دونوں (اپنی دونوں انگلیاں ملا کر ) اس طرح جنت
میں داخل ہوں گے اب جب تین بیٹیوں کے لئے اتنا اجر وثواب ہے تو جن لوگوں کی
تین سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو انہیں بتدریج اس کا اجر ملے گا پھر کسی نے
پوچھا کہ اگر کسی کی دو بیٹیاں ہوں تو آپ علیہ وآلیہ وسلم کا کرم اور فضل
دیکھئے کہ آپ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت اسے بھی یہ
فضیلت عطا کرے گا پھر کسی نے کہا کہ جس کی ایک ہی بیٹی ہو تو رحمت
اللعالمین نے فرمایا کہ میرا رب اسے بھی یہ ہی اجرو ثواب عطا کرے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ان احادیث مبارکہ
سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر کبھی بھی پریشان نہیں ہونا
چاہئیے عام طور پر بیٹی کی پیدائش پر لوگوں کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ
اس کی آج کے معاشرے میں رہتے ہوئے پرورش کیسے ہوگی بڑی ہوگی تو اس کے لئے
کیسا رشتہ آئے جہیز کا بھی انتظام کرنا ہوگا سسرال نہ جانے کیسا ملے وہ لوگ
ہماری بیٹی کو یا ہمیں تنگ کرنے والے نہ ہوں بعض اوقات کسی معمولی بات پر
لڑکی کو طلاق کا داغ لگ جاتا ہےاور وہ گھر واپس آجاتی ہیں یہ ساری باتیں
اپنے ذہن میں رکھ کر بیٹی کو زحمت سمجھنے کی بجائے یہ سارے معاملات اپنے رب
تعالیٰ کے سپرد کردینے چائیے اور یہ دعا کرنی چائیے کہ اے رب تو نے ہمیں
بیٹی کی شکل میں اتنی عظیم نعمت عطا فرمائی رحمت عطا فرمائی اپنا کرم اور
فضل عطا فرمایا اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں تو
نے چار بیٹیاں عطا فرمائی اور آپ علیہ وآلیہ وسلم کے یہاں سب سے پہلی ولادت
بیٹی کی ہی ہوئی اے مالک و مولا یہ بیٹی ہم نے تیرے سپرد کی آگے کے تمام
معاملات تو آسان فرما ان شاءاللہ تعالیٰ جب ہم اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی
ہوں گے اپنے معاملات کو رب کی طرف سپرد کریں گے تو کرم ضرور ہوگا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی صاحب ( ابن ماجہ ) کی ایک حدیث کا ذکر
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان
عالیشان ہے جس کا ترجمعہ ہے کہ " کیا میں تمہیں خبر دوں سب سے بہترین صدقہ
اور بہترین خیرات کیا ہے ؟ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جائے وہ یہ
ہے کہ اگر بیٹی شادی شدہ ہو اور اسے طلاق ہو جائے وہ تمہارے گھر واپس آ
جائے اور تمہارے سوا کوئی اور اس کا کمانے والا نہ ہو تو جو اس پر تم خرچ
کرو گے وہ سب سے بہترین اور عظیم صدقہ ہوگا"
لیکن وہ شخص جو بیٹی کی پیدائش پر منہ بنالے وہ
کس قدر نادان ہے یعنی نادان کا لفظ بھی ہلکہ ہے کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی
عطا کی ہوئی نعمت پر ناراضگی کا اظہار کررہا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس
کی یہ بات اس کے لئے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائے
کیوں کہ اگر ہم قرآن کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ شیوا
مسلمانوں کا کبھی بھی نہیں رہا بلکہ یہ معمول تو کافروں کا تھا جیسا کہ
قرآن مجید کی سورہ النحل کی آیت 58 اور 59 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَاِذَا بُشِّـرَ اَحَدُهُـمْ بِالْاُنْـثٰى ظَلَّ وَجْهُهٝ مُسْوَدًّا
وَّهُوَ
كَظِيْـمٌ (58)
يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوٓءِ مَا بُشِّـرَ بِهٖ ۚ اَيُمْسِكُـهٝ
عَلٰى هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٝ فِى التُّـرَابِ ۗ اَلَا سَآءَ مَا
يَحْكُمُوْنَ (59)
ترجمعہ کنزالایمان :
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا
منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے ۔58
لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب کیا اسے ذلت کے ساتھ
رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں ۔59
مفتی صاحب ان آیت کا مختصر خلاصہ فرماتے ہیں کہ اور ان کافروں میں سے کسی
کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری سنائی جاتی ہےتو اس کا چہرہ کالا ہو جاتا ہے
اور وہ غصہ میں بھرا ہوا ہوتا ہے بیٹی کی پیدائش کی خبر سے اسے اتنا برا
لگتا ہے کہ وہ اس کے سبب اپنی قوم سے چھپتا پھرتا ہے وہ سوچتا ہے کہ اس
بیٹی کو وہ ذلت کے ساتھ اپنے گھر میں رکھے یا مٹی میں اسے دفن کردے یعنی
کتنی بری سوچ ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ خوش نصیب ہیں وہ
لوگ جو بیٹی کی پیدائش پر نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ بیٹے کے پیدائش سے
زیادہ ںیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا
کرتے ہیں اور احادیث میں بیٹیوں کی پیدائش کے فضائل بھی انہی جیسے لوگوں کے
لئے ہیں یاد رکھئے بد نصیب اور بد بخت ہے وہ شخص جو اپنی بیوی کو صرف اس
لئے برا بھلا کہتا ہے اسے مارتا ہے یہاں تک کے اسے طلاق بھی دے دیتا ہے کہ
وہ صرف بیٹیاں ہی کیوں پیدا کرتی ہے اب بتائیے کہ اس میں اس عورت کا کیا
قصور ہے یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی تقسیم ہے وہ جسے چاہے بیٹیاں عطا کرے جسے
چاہے بیٹے یا جسے چاہے دونوں عطا کردے یا پھر وہ اپنی منشاء کے مطابق جسے
چاہے اسے اولاد کی نعمت سے محروم رکھے انسان کے پاس تو کوئی بس نہیں کوئی
طاقت نہیں وہ تو بے بس ہے اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ الشوریٰ
کی آیت نمبر 49 ۔
۔يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الـذُّكُـوْرَ
(49)
ترجمعہ : اللہ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمادے اور جسے چاہے بیٹے عطا فرمادے ۔
اب جب بیٹی یا بیٹا دینا اللہ رب العزت کا کام ہے تو اس میں بچاری عورت کے
منحوس ہونے کا کیا جواز بنتا ہے اسے مارنا برا بھلا کہنا اور یہاں تک بھی
واقعات ملتے ہیں کہ بعض نادان لوگ مسلسل بیٹیوں کی پیدائش کی وجہ سے اپنی
بیوی کو قتل کر دیتے ہیں اور بیٹیوں کو بھی ماردیتے ہیں مطلب یہ کہ وہ اللہ
کی تقسیم اور اس کی مرضی پر راضی نہیں ہیں ہمارے یہاں ایک مسئلہ اور ہے اور
وہ یہ کہ بیٹیوں کو زحمت سمجھنے میں ہمارے معاشرے میں ہونے والی ناجائز
مہنگائی کا بھی بڑا دخل ہے مہنگائی کے اس دور میں ایک متوسط طبقہ کا شخص کس
طرح اپنی بیٹیوں کے جہیز کا بندوبست کرے لیکن یہ سب کچھ بھی تو ہمارے اپنے
اعمالوں کا نتیجہ ہے اس کے ذمہ دار بھی تو ہم خود ہی ہیں لیکن اگر ہم بیٹی
کی پیدائش پر بجائے منہ بنانے کے اس کی تقسیم پر راضی ہوکر خوشی کا اظہار
کریں اور اس بیٹی کے تمام معاملات اپنے رب تعالیٰ کے سپرد کردیں تو وہ رب
ہمارے سارے کام بخوبی آسان کردے گا ان کا رشتہ بھی اچھی جگہ سے آجاتا ہے
سسرال بھی اچھا مل جاتا ہے اور وہ خوشی خوشی اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتی
ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں کہ کئی جگہوں پر
یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کے یہاں چار چار بیٹے ہیں لیکن وہ سب کے سب نافرمان
اور ماں باپ کو پریشان کرنے والے ہوتے ہیں ماں باپ دکھی ہوتے ہیں یہاں تک
بھی نظر آیا ہے کہ جب وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور شادی شدہ ہوتے
ہیں تو ماں باپ کو گھر سے نکال بھی دیتے ہیں کیونکہ لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں
کہ بیٹے ان کے بڑھاپے کا سہارہ ہوتے ہیں جبکہ عام طور پر وہ اپنی بیویوں کی
وجہ سے ماں باپ کو پوچھتے تک نہیں ہیں اور ان کے ساتھ ایک ہی بیٹی کیوں نہ
ہو وہ انہیں سنبھالتی ہے اس لئے ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر
بجا لاتے ہوئے جھک جانا چائیے کہ بیٹے بھی اللہ کی رحمت اور نعمت ہیں اور
بیٹیاں بھی نعمت اور رحمت ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آگے مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں ہر وقت
اپنے رب تعالیٰ سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ یا اللہ تو نے بیٹیاں دی ہیں یا
بیٹے دئیے ہیں انہیں ہمارے لئیے رحمت بنا اور اگر اولاد فرمانبردار ہے تو
کوئی غرور و تکبر نہ ہو بس ہماری اولاد کو ہمارے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ۔اصل
میں رب تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی رحمت کو ہم اپنے اعمال کی بدولت بعض
اوقات زحمت بنا دیتے ہیں بیٹیاں دنیاوی تعلیم کے حصول کے لئیے کالج و
یونیورسٹی جائے اور وہاں کھلے بالوں کے ساتھ غیر محرم لڑکوں کے ساتھ ہنسی
مذاق کرے اور اس بات پر زرہ بھر بھی نادم و شرمندہ نہ ہونا بلکہ لوگوں کو
بڑے فخر سے یہ بتانا کہ ہماری بیٹی فلاں کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتی ہے یہ
تمام معاملات غلط تربیت کا نتیجہ ہیں کیونکہ ایسی جگہوں پر صرف ماڈرن ماحول
ہی نظر آتے ہیں دین سے متعلق کسی بات کا وہاں کوئی ذکر و تذکرہ نہیں ہوتا
پھر غلط طرح کی دوستیاں اور گھر پر مسلسل موبائل کا بے جا استعمال ہماری
انہی غلطیوں کی وجہ سے وہ بیٹی ہمارے لئیے زحمت بن جاتی ہے اور ہم ہر وقت
پریشان اور غمزدہ رہتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان باتوں کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم
بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کریں بلکہ انہیں باپردہ ہوکر کسی
صحیح العقیدہ مدرسہ میں داخل کروائیں کئی لڑکیاں ایسے جگہوں پر علم حقیقی
کی تعلیم کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے میں مصروف عمل ہیں
قبلہ مفتی محمد آصف عبداللہ قادری صاحب ( دامت برکاتہم العالیہ) نے اس
عنوان کے تحت گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے ہمیں سمجھنا
ہوگا کہ جیسے بعض اوقات ہم رب العزت کی طرف سے عطا ہونے والی کسی رحمت کو
زحمت سمجھنے لگتے ہیں اور بعض اوقات ہم رحمت کو زحمت بنا لیتے ہیں اور ان
باتوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن مجید فرقان حمید کے نور سے منور ہونا پڑے
گا جیسے رب الکائنات کی طرف سے ملنے والا مال دراصل ہمارے لئیے ایک نعمت ہے
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی اولاد بھی اس رب الکائنات کی بہت بڑی
نعمت اور رحمت ہے لیکن ہم میں سے کئی لوگ اپنی غلطیوں کے سبب ان نعمتوں کو
زحمت بنالیتے ہیں جیسے اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید کی سورہ الانفال کی
آیت نمبر 28 میں ارشاد فرمایا کہ
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ-وَّ
اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔
ترجمعہ کنزالایمان :
جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد سب فتنہ ہے اور بیشک اللہ کے پاس
بڑا ثواب ہے ۔
یعنی مال اور اولاد تمہارے لئے ایک آزمائش ہے اگر مال کو حلال طریقے سے نہ
کمایا جائے اور وہ صحیح جگہوں پر صحیح طریقے سے خرچ نہ کیا جائے تو وہ مال
ہمیں جہنم میں لیجانے کا سبب بن جائے گا اور اسی طرح اگر اولاد کی پرورش
میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے احکامات پر
عمل نہ کیا اور تربیت میں کمی رہ گئی تو وہ ہمیں جہنم میں لیجانے کا سبب بن
جائے گی لیکن عقلمند انسان اپنا مال بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق
خرچ کرتا ہے اور اولاد کی تربیت بھی وہ ایسی کرتا ہے کہ وہ اس کے لئے ثواب
جاریہ بن جاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر یہ ہی مال اور یہ ہی اولاد اسے جنت میں
لیجانے کا سبب بن جاتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں سورہ النور
کی آیت نمبر 37 میں ارشاد فرماتا ہے کہ
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْـهِـمْ تِجَارَةٌ وَّّلَا بَيْـعٌ عَنْ ذِكْرِ
اللّـٰهِ وَاِقَامِ الصَّلَاةِ وَاِيْتَـآءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُوْنَ
يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۔
ترجمعہ کنزالایمان :
وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خریدوفروخت اللہ کی یاد اور
نماز برپا کرنے اور زکواہ دینے سے ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے
دل اور آنکھیں ۔
قبلہ مفتی صاحب اس کا خلاصہ کچھ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایسے مالداروں کی
اللہ رب العزت نے تعریف بیان فرمائی کہ جو اپنے بیشمار مال ودولت ہونے کے
باوجود اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس پر عمل پیرا ہونے میں غفلت نہیں کرتے
کیوں کہ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مال و دولت سے انہیں
نعمت کے طور پر نوازا ہوا ہے ایک دن اس کا حساب بھی ہوگا اور اس دن سب کچھ
الٹ جائے گا لہذہ ایسے لوگوں کو کوئی سودا اور خریدوفروخت اللہ کی عبادت
اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے نہیں روک سکتی انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے
کہ اگر کسی سودے میں ہیرا پھیری اور غلط بیانی کرکے لوگوں کے ساتھ
خریدوفروخت کرتے ہوئے دو نمبری کی جائے تو یہ ہی کمایا ہوا مال جہنم میں
جانے کا سبب بن سکتا ہے ۔
محترم پڑھنے والوں ہمارا یہ عنوان "رحمت اور زحمت میں فرق"ایک طویل موضوع
ہے اسے اختصار میں لکھنا نا کافی ہوگا لہذہ ہم آج کے اس عنوان کا پہلا حصہ
یہاں اختتام کرتے ہیں اور ان شاہ اللہ اگلے حصے کے ساتھ ایک اور تحریر لے
کر حاضر ہو جائیں گے ۔
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رحمت اور زحمت کے فرق کو سمجھنے کی
نہ صرف صلاحیت عطا کرے بلکہ اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا کرے آمین آمین
بجاہ النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|