کمزور ملک کے مظلوم عوام
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
کیا پاکستان کو مکمل تباہی سے دوچار کرنے کے منصوبے پہ کام تیز ہو گیا ہے؟ تمام حوالوں سے صورتحال کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کو ہر حوالے سے ناکام کرنے کے ہمہ گیر منصوبے پہ بیک وقت کام جاری ہے۔معاشی بحران کی سنگین صورتحال کو ملک کا سب سے بڑا ہنگامی نوعیت کا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی دہشت گردوں کے حملوں میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔اس بات پہ اسٹیبلشمنٹ سمیت ملک کے تمام حلقوں نے اتفاق تو ظاہر کیا کہ ملک کو درپیش تمام گھمبیر مسائل سے نمٹنے کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے لیکن ساتھ ہی نواز شریف کو وزیر اعظم بننے سے روکنے کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے گئے۔ نواز شریف اس وقت وہ واحد میسر رہنما ہیں جن سے بے لگام مصائب پر قابو پانے کی توقع کیا جاسکتی تھی ۔لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اس کی جگہ ملکی سیاست و حکومت کو مکمل قابو میں رکھنے کو زیادہ ضروری تصور کیا اور ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ ملک میں الیکشن کرانے اور حکومت بنواتے ہوئے سیاسی استحکام کے تقاضے پورے کر دیئے گئے ہیں۔
صوبہ خیبر پختون خواہ میں ہونے والے دہشت گردی کے ایک حملے میں سات فوجیوں کی شہادت اور بلوچستان کے گوادر علاقے میں دہشت گردوں کے حملے نے دہشت گردی کے خطرات کی صورتحال دھماکہ خیز بنا دی ہے۔ ساتھ ہی دہشت گروں کی پشت پناہی کرنے والی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات ٹکرائوکی جانب بڑھ رہے ہیں۔سنگین تر معاشی بحران کی صورتحال میں ملک دہشت گردی کے سنگین خطرات سے دوچار ہو رہا ہے۔پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرتے ہوئے مجبور اور بے بس کرنے کی عالمی و علاقائی کوششیں تو تیز تر ہیں تاہم درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے پالیسی اور حکمت عملی کی خرابیاں اور خامیاں بھی واضح طور پر ایک سنگین مسئلے کے طور پر درپیش ہیں۔
ملک کے تمام حلقے ملک کی اصل طاقت عوام کو قرار دینے پہ اتفاق تو رکھتے ہیں لیکن عوام پر سرکاری واجبات، مہنگائی کا اتنا زیادہ بوجھ لاد دیا گیا ہے کہ انہیں انفرادی سطح پہ اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہو چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عوام پہ لادے جانے والے اس معاشی بوجھ میں آئے روز گراں اضافہ بھی معمول بنا دیا گیا ہے۔ملکی معاشی بوجھ سے خواص کو مبرا رکھتے ہوئے تمام معاشی بوجھ مجبور اور بے بس عوام پہ لاددیا گیا ہے۔اس حالت میں عوام یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بری طرح سزایاب بھی کیا جا رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے پاس بیان کرنے کو صرف ملکی مجبوریاں ہیں،اس بات کی کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں کہ ملک کو اقتصادی،دفاعی اور سیاسی طور پر تباہ کرنے پر مبنی پالیسیاں بنانے اور چلانے والے کیوں ہر قسم کی تادیبی کاروائی سے مبرا ہیں؟عوام کو تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ملک رہے نہ رہے لیکن ملک سے مستفید ہونے والے بالا طبقات کی حاکمیت کو چیلنج کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کوئی ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھا سکتا ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|