عدلیہ سے متعلق انکشافات ،ہر شعبے کا یہی حال ہے!
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے6ججز کے مشترکہ خط میں بیان کئے گئے انکشافات اہم ترین موضوع بن گئے ہیں۔اس خط کی بنیادی حقیقت عدلیہ پہ ملک کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی کے دبائو کی صورتحال ہے۔اسی حوالے سے خط میں ججز کے خلاف مختلف واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ان انکشافات سے ایک بحث شروع ہو گئی ہے جس میں اس مشترکہ خط پر کاروائی کے طریقہ کار، کاروائی کے امکانات اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ممکنہ ردعمل پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں شرکاء بھی اس حوالے سے اس معاملے کا احاطہ کر رہے ہیں۔اس سے ملک کا ہائبرڈ نظام ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے ۔یہ صورتحال مارشل لاء سے بھی بدترین ہے کیونکہ مارشل لاء کی صورت ذمہ داری بھی منسلک ہوتی ہے جبکہ موجودہ طریقہ کار میں سب کچھ کرنے کے باوجود خود کو ذمہ داری سے بری الذمہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب عدلیہ میں انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت کا معاملہ سامنے آیا ہو۔ تاہم اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے6ججز کے اس مشترکہ بیان سے صورتحال کی سنگینی واضح ہوئی ہے اور یہ بھی کہ یہ معاملات مستقل صورتحال کے طور پر درپیش ہیں۔یہی موقع ہے کہ ہر وہ جج جسے انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت کا سامنا ہے، معاملے کو سامنے لائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا شمار ملک پہ مسلط ماروائے آئین و قانون حاکمیت کے سہولت کار کے طور پر ہو گا۔صحافی ، تجزئیہ کار ملک کے ہر شعبے میں انٹیلی ایجنسیوں کی حاکمانہ مداخلت کی مسلسل صورتحال کی نشاندہی کرتے آئے ہیں اور اب تو ایک عام شہری کے سامنے بھی یہ حقیقت بے نقاب ہے۔سیاست میں مداخلت بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سیاست کو اپنی مرضی سے چلانے کے لئے سیاست کو مکمل طور پر مٹی کے بت کی طرح تخلیق کرنا،میڈیا کو مختلف طریقوں سے کنٹرول کرنا،سرکاری محکموں، سرکاری عہدیداروں کو اپنی ہدایات کے مطابق فیصلے، اقدامات پر مجبور کرنا،عدلیہ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا، یہ سب وہ طریقہ کار ہیں جن سے ملک پہ ماورائے آئین و قانون مسلط حاکمیت کو قائم رکھا گیا ہے۔یہی دھونس و ہٹ دھرمی پہ مبنی وہ صورتحال ہے جس نے ہماری سیاست کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ اب سیاسی جماعتیں، سیاسی شخصیات پارلیمنٹ کے ماتحت کردار پر راضی ہیں اور ان کی کوششیں محض حکومت میں آنے کے لئے ہوتی ہیں اور وہ مسلط نظام کی تابعداری میں بہتر کام کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔یہی وہ بھیانک صورتحال ہے جس سے ملک کا ہر شعبہ کمزوری سے دوچار بلکہ تباہ حال ہوا اور نامرادی ملک اور عوام کا مقدر بن چکی ہے۔
ججز کے ان مشترکہ انکشافات پر بحث میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی واضح موقف اپنانے کے بجائے گوں مگوں کی حکمت عملی نمایا ںہے۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ایک مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے اسی موضوع پر ایک ٹی وی مزاکرے میں نہایت محتاط گفتگوکی اور ایک دوسرے رہنما طارق فضل چودھری کی گول مول باتوں کوعوامی حلقوں میں ناپسندیدگی سے دیکھا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ سیاستدان صرف اس وقت جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر سخت روئیہ اپناتے ہیں کہ جب وہ اپنی ذات، اپنے مفادات کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ نئی قائم ہونے والی حکومت کے اتحادیوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پہ لازم ہے کہ وہ اس معاملے پہ اپنی اپنی جماعتوں کے موقف کا اعلان کریں۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے کم اہم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر انداز کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ماورائے آئین و قانون حاکمانہ مداخلت ہی وہ بنیادی وجہ سے جس سے ملک کا سیاسی نظام تباہ ہوا، معیشت برباد ہوئی، دہشت گردی سمیت ان گنت سنگین مسائل ملک و عوام کے لئے عذاب مسلسل بنے ہوئے ہیں اور ہمارا حال اور مستقبل سنگین خطرات پہ مبنی بے یقینی کا شکار ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|