آزاد کشمیر منطقی انجام کی طرف گامزن؟
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
چالیس لاکھ آباد ی،13,297مربع کلو میٹر ( 5,134 مربع میل) رقبہ، نیلم ویلی سے بھمبر تک ایک پٹی کی طرح کا علاقہ، ریاستی جھنڈا، صدر ریاست کا عہدہ، وزیر اعظم کی سربراہی والی حکومت اور قانون ساز اسمبلی، ہائیکورٹ، ایپلٹ کورٹ کی حیثیت میں سپریم کورٹ، درجنوں کی تعداد میں محکمے و ادارے۔یہ سب اس خطے کو کشمیر کاز کے تناظر میں حاصل ہے ، معاہدہ کراچی میں اختیارات کی تقسیم کے تحت کشمیر کاز کے حوالے سے جو ذمہ داریاں، اختیارات آزاد کشمیر حکومت اور یہاں کی سیاسی جماعتوں کو حاصل ہوئے ، وہ بھی آزاد کشمیر حکومت اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے مکمل طورپر نظر انداز چلے آ رہے ہیں۔جبکہ کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت اور یہاں کی سیاسی جماعتوں کا کردار معاہدہ کراچی تک ہی محدود نہیں ہے۔
عملا آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے تحریک آزادی کشمیر، کشمیر کاز کے لئے سوائے مقامی میڈیا میں بیانات شائع کرانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ آزاد کشمیر حکومت نے اپنے مالی وسائل سے کشمیر کاز کے لئے ایسا کچھ بھی نہیں کیا کہ جس سے واضح ہو سکے کہ کشمیر کاز ان کی ترجیحات، دلچسپی میں شامل ہے۔بیانات اور تقاریر کے دوران مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دکھ بھری ،رقت آمیز آواز کا مظاہرہ تو کئی بار دیکھا گیا لیکن عملی طور پرمقبوضہ کشمیر کے لئے ایسا کچھ نہیں کیا گیا کہ جس سے ان کا اس متعلق اخلاص بھی ظاہر ہوتا۔اتنا ہی نہیں بلکہ کشمیر کے پرانے اور نئے مہاجرین کو آزاد کشمیر پہ بوجھ سمجھتے ہوئے حکومتی و سیاسی طور پر نظر انداز کیا گیا۔یہ حقیقت کھل کر عریاں ہو گئی کہ آزاد کشمیر میں کشمیر کاز کانام صرف اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافے، مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر کے سلامتی کے ذمہ داران کا آزاد کشمیر پہ اثر و رسوخ ایک بنیادی حقیقت ضرور ہے لیکن بتدریج آزا دکشمیر کی حکومت ہی نہیں بلکہ یہاں کی سیاست کو بھی وسل بجا کر لائین اپ کرنا ایک مجبوری بن گئی جس کی ایک مثال گزشتہ سال مارچ میں آزاد کشمیر اسمبلی میں ایک حکومتی وزیر کی پیش کردہ شاردہ راہداری قائم کرنے کے مطالبے کی متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرار داد ہے۔ اس قرار داد سے واضح ہوا کہ آزاد کشمیر کی حکومت ، سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات منقسم کشمیر کے حالات و واقعات سے متعلق اتنی عدم دلچسپی رکھتے ہیں کہ اس بارے میں ان کی معلومات بھی محدود تر ہیں۔اس قرار داد کی متفقہ طورپر منظور ہونے سے واضح ہوا کہ آزاد کشمیر حکومت ، پارلیمانی سیاسی جماعتیں، ارکان اسمبلی کشمیر کاز سے عدم دلچسپی اور لاعلمیت کی وجہ سے دانستہ یا نادانستہ طورپر کشمیر کاز کے لئے کسی ایسے مہلک اقدام کا باعث بھی بن سکتے ہیں جس سے آزادکشمیر کی سلامتی بھی خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اس پہ وسل بج گئی اور سب کو لائین حاضر کرتے ہوئے اسمبلی کی پہلی قرار داد کو واپس لیتے ہوئے ایک نئی قرار داد متفقہ طورپر منظور کرائی گئی۔
مختصر یہ کہ آزاد کشمیر کا خطہ ایک ریاست کی طرح کے درجے کے تمام جواز از خود ختم کر چکا ہے۔عشروں کی محنت سے جو فصل بوئی تھی، اب وہ پک کر تیار ہے ۔حکومتی و سیاسی سطح کئی بار یہ سننے میں آتا ہے کہ آزاد کشمیر کے سٹیٹس میںتبدیلی کی مخالفت کی جائے گی۔ لیکن حکومتی و سیاسی سطح پہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا کہ ایسا تو آپ کے اختیار کردہ کردار سے ہو رہاہے ۔کشمیر کاز سے اپنی عملی راہیں جدا کرکے تو آزاد کشمیر کے لذیز، پرلطف سٹیٹس کو قائم رکھے جانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔آزاد کشمیر کی حکومتوں، سیاسی جماعتوں، سیاسی شخصیات کا عمومی طور پر یہ کردار صرف آزا د کشمیر کے سٹیٹس کے انحطاط کے امکانات میں اضافے کا ہی موجب نہیں بلکہ قبیلائی، علاقہ پرستی اور مفاد ات کے لئے اختیار کردہ اس مسلسل طرز عمل سے آزاد کشمیر کے خطے کا وجود بھی اس لحاظ سے خطرات کا شکار ہے کہ آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع کے ملحقہ پاکستانی اضلاع میں انضمام کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|