میری ماں کے پکوان (ماہنامہ ’اطراف‘ کے خاص شمارہ عید الفطر کی لزتیں، اپریل، شمارہ نمبر ۷۱۱ میں شائع ہوا)
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
جناب محمود شام کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدہ ‘ اطراف کے خاص نمبر عید الفطر کی لزتیں اپریل میں شاائع ہوا |
|
میری ماں کے پکوان (ماہنامہ ’اطراف‘ کے خاص شمارہ عید الفطر کی لزتیں، اپریل، شمارہ نمبر ۷۱۱ میں شائع ہوا) ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی میری والدہ نے آج سے ۵۱سال قبل ۹۷سال کی عمر میں اللہ کے حکم کو لبیک کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئیں۔ آج جب کہ میں سات دہائیاں دیکھ چکا ہوں اپنی ماں کی ایک ایک بات جب یاد آتی ہے تو ماں کی جدائی کی کسک دیر تک جسم و جاں میں محسوس ہوتی ہے۔میرا تجربہ یہ ہے کہ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے ماں کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے۔ اس کی وجہ جو میں محسوس کرتا ہوں وہ یہ کہ ماں سے ملاقات کی مدت کم رہ جاتی ہے۔ یوں تو بے شمار باتیں اور یادیں ہے ماں کے حوالے سے، مَیں نے اپنی ماں کا خاکہ ”میری ماں“ کے عنوان سے لکھا جو میری خاکوں کی کتاب ”جھولی میں ہیرے اورموتی“ میں شامل ہے۔ اپنی ماں کے ہاتھوں کے تیار کر بعض پسندیدہ پکوانوں (کھانوں) جنہیں ہم گھر کے سب ہی لوگ بہت شوق سے کھایا کرتے تھے کو بطور خاص قرطاس پر منتقل کرنا اس تحریر کا اصل مقصدہے۔ میری ماں مشرقی پنجاب میں پلی بڑھیں، فرید کوٹ اس گاؤں کا نام تھا، انہوں نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی تھی اس کی ایک وجہ ان کے والدہ یعنی میری نانی کا جلد اس دنیا سے چلے جانا تھا۔ میری ماں کی بڑی بہن کی شادی ہوچکی تھی جب کے چھوٹی بہن بہت چھوٹی تھی۔بعد میں یہی چھوٹی بہن میری خوش دامن بھی بنیں۔اس وجہ سے گھر کے کام کاج کا بوجھ چھوٹی سی عمر سے ہی میری ماں کے کاندھوں پر آگیا۔ میرے والد صاحب شہری بابو تھے، ان کا مسکن ہندوستان کی ریاست راجستھان کا شہر بیکانیر تھا۔میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے میں بنیادی طور پر راجستھانی یا راجپوت ہوں، راجپوتانہ نے بڑی بڑی شخصیات پیدا کی ہیں جیسے میرابائی، مہدی حسن، ریشماں، مشتاق احمد یوسفی۔ راجستھا ن سے ہمارے بزرگوں نے پہلے دہلی پھر ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی)کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔مظفر نگر ایک ایسی مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیا ئے کرام اور فقہا ئے اسلام کی بڑی تعدادکو جنم دیا، اہل علم ودانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی،ان شخصیات میں بعض احباب کے نام فخر سے لیے جاسکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ،عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی ؒ،پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیا قت علی خان،مولانا شبیر احمد عثمانی،میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔجو صاحب دیوان شاعراور بیکانیر ہائی کورٹ کے چیف جج تھے،معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمدمرحوم، ڈاکٹرالطاف حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ)، معروف شاعر احسان دانش، تابشؔ صمدانی اورافسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا وطن مظفر نگر تھا۔اس اعتبار سے مجھے ایسی متبرک سر زمین سے نسبت حاصل ہے جس کی کوکھ سے عظیم ہستیوں نے جنم لیا۔ میرے خاندان میں اکثر احباب تدریس اور قانون کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں جب اکثر شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں بعض صاحبِ دیوان شاعر بھی ہیں اور بے دیوان شاعر بھی۔ شہر اور دیہات کے ملاپ سے جنم لینے والے اس بندھن (یعنی میری ماں اور میرے والد صاحب) نے پاکستان کے شہر کراچی میں اپنی زندگیاں مکمل کیں۔ اپنے سات بچوں کی پیدائش اور پرورش سے قبل اپنے دو بھائیوں اور چار بہنوں کی پرورش کی اور انہیں اپنے اپنے پیروں پر کھڑا کیا، آج ان کی اولادیں خوشگوار زندگی کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ہمارے والد صاحب نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کو دل و جان سے اپنا وطن بناتے ہوئے کراچی میں آبادہوئے اور کرچی کی قدیم بستی پہلے بہار کالونی پھر آگرہ تاج کالونی میں رہائش اختیار کی، والد صاحب کی تعلیم بھی بہت زیادہ نہیں تھی ابتدا میں مختلف کام کیے بعد میں کراچی پورٹ پر کام کرنے والی ایک کمپنی سے وابستہ ہوگئے۔ گھر چھوٹا، کچا، اور کچی آبادی میں تھا لیکن سب خوش و خرم، میانہ روی اور اعتدال زندگی کے ہر ہر معاملے میں رہا، کھانوں میں بھی اعتدال اور میانہ روی تھی۔ ہماری ماں جو کچھ بھی پکایا کرتیں سب لوگ اللہ کا شکر ادا کرکے کھا لیا کرتے۔ ان کے ہاتھوں پکے ہوئے بعض کھانے میں آج ۴۷ سال کا ہوکر بھی بھول نہیں پایا۔ جب بھی وہ ڈش کبھی کھانے کو ملتی ہے اپنی ماں کی پکائی ہوئی ڈش یاد آجاتی ہے۔ بات کو مختصر کرتے ہوئے اپنی ماں کے پکائے ہوئے چند پکوانوں کا ذکر اختصار سے کروں گا۔ اس لیے کہ اس تحریر کا بنیادی مقصد یہی ہے۔ میٹھے پراٹھے یا میٹھی روٹی جب میری عمر اتنی ہوئی کہ میں نے کھانا شروع کردیا تھا، میرے دادا بفضل ِ تعلی حیات تھے۔ میں رات میں کسی پہر بھوک کی وجہ سے اگر اٹھ جایا کرتا، میرے دادا کی فرمائش یا میرے ماں کو یہ حکم ہوتا کہ ان کے پوتے کو تازہ میٹھی روٹی یا میٹھا پراٹھا بنا کر کھلایا جائے اور میری ماں ایسا ہی کیا کرتی تھیں۔ رفتہ رفتہ میری یہ عادت پختہ ہوگئی اور میں میٹھا پراٹھا کھانے کا عادی ہوگیا، اس کی پاداشت میں مجھے دانتوں کی تکلیف سے نبرد آزما ہونا پڑا نیز خاصی پریشانی اٹھانا پڑی، اس کی باقیات آج بھی موجود ہے جسے صرف میں ہی میں ہی محسوس کررہا ہوں۔ میں بھی جب بھی میٹھے پراٹھے کی فرمائش کیا کرتا، میری فرمائش پوری بھی ہوا کرتی۔ میٹھا پراٹھا کوئی ایسی مشکل چیز نہیں تھی لیکن پراٹھے میں شامل شکر کے میٹھاس کے علاوہ اپنی ماں کے ہاتھوں کی میٹھاس مَیں آج تک نہیں بھول پایا اور کبھی بھول بھی نہیں سکتا۔ بیف پسندے بیف کے پسندوں کی خواہش اور فرمائش بنیادی طور پر ہمارے والد صاحب کی ہوا کرتی تھی اس لیے کہ پسندوں کے لیے جس گوشت کی ضرورت ہوتی ہے والد صاحب خود ہی قصائی سے لایا کرتے تھے یعنی سفیدے کا وہ حصہ جو کسی بھی قسم کی ہڈی کے بغیر ہوتا ہے، دیکھنے میں بھی خوبصورت لگتا ہے۔ گوشت کے اس گول سفیدے کے مخصوص پارچے قسائی کے ہاتھ کے بنائے ہوئے، پکانے کا طریقہ اب میری یادداشت میں نہیں نہ ہی کبھی ہم نے اپنی ماں سے یہ معلوم ہی کیا کہ اس ڈش کی ریسی پی کیا ہے۔اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس میں لال مرچ، ادرک، لہسن، دہی گرم مصالحے اورنہ معلوم کیا کیا ہواکرتا تھا۔ یہ ہمارے گھر کی خاص اور پسندیدہ ڈش ہوا کرتی تھی، ماں کی یہ خاص سوخات ان کے بوڑھے ہوجانے اور پھر دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی گھر کی خواتین نے جاری رکھی لیکن وہ مزہ وہ ذائیقہ جو ماں کے ہاتھ کاتھا اب کہاں، اب میری شریک سفر شہناز بھی بیف کے پسندے بناتی ہیں جس سے ماں کی اس مذیدار ڈش کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اَلٹے پلٹے اَلٹے پلٹے یوپی سے تعلق رکھنے والوں کے گھروں کی خاص ڈش ہے، ممکن ہے بعض گھرانوں میں اسے کسی اور نام سے بھی پکارا جاتا ہوگا لیکن ہمارے گھر میں اسے اَلٹے پلٹے ہی کہا جاتا تھا اور یہ بھی ہماری امی کے پکائے ہوئے کھانوں میں ایک پسندیدہ اور مزیدار ڈش تھی، یہ اب بھی ہمارے گھر میں پکائی جاتی ہے لیکن اس کا وہ مزاہ اور وہ ذائقہ جو ہمارے ماں کے ہاتھوں میں تھا خواب ہو گیا۔ جانے والے چلے جاتے ہیں بس اپنی یاد چھوڑ جاتے ہیں۔اَلٹے پلٹے عام طور پر گاؤں، دیہات کی خواتین بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ہماری امی بھی یہ ڈش اکثر بنایا کرتیں۔ یہ ڈش بیسن کو پانی میں گھول کر، نمک، مرچ، مصالحے ڈال کر پتلاپیسٹ بنالیاجاتاپھر اس پتلے پیسٹ کو جیسے انڈا توڑ کر توے پر پھیلا ہیں اسی طرح اس پتلے پیسٹ کو توے پر پھیلا دیا جاتا ہے جلد ہی اس روٹی کو مہارت سے پلٹ کر مختصر وقت کے بعد توے سے اتار لیا جاتا ہے۔پھر اس ماریک روٹی کو تین چار تہہ میں رول نما(گول نہیں) بلکہ چوڑی بیلٹ نمابنا لیا جاتا پھر اس پٹی کے دودو انچ سائز کے بیس کاٹ لیے جاتے ہیں۔ جیسے بیسن کے حلوے کی ٹکیاں بنائی جاتی ہیں۔ ان ٹکیوں کو سالن کی گریبی میں پکا کر تیار کردیا جاتا۔اس طرح یہ سب کی پسندیدہ ڈش تیار ہوجاتی اور شوق سے کھاتے۔ یہ ڈش آج بھی ہمارے گھر کی خاص ڈش ہے، خاص طور پر میری شریک سفر نے امی کی اس یاد گار ڈش کو زندہ رکھا ہوا ہے۔البتہ جہاں تک اس کے ذائیقہ کی بات ہے تو ماں کے ہاتھوں میں جو ذئیقہ تھا اس کا کوئی مول نہیں۔ فرینچ ٹو سٹ فرینچ ٹو سٹ ڈبل روٹی کے پیسیز کو انڈے اور شکر، دودھ،الا چئی کے مکسر میں ڈبل روٹی کے پیسیز ڈپ کر کے آئل میں فرائی کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ میٹھے فرنچ ٹوسٹ تو عام ہوتے ہیں، ہماری امی اس کے علاونمک مرچ، انڈے کے مکسر میں بھی یہ فرنچ ٹوسٹ تیار کرتی تھیں۔ یہ ٹوسٹ کی ڈش آج بھی ہمارے گھر میں ناشتہ کی خاص کی خاص ڈش ہے۔ چوقندر کاسالن چقندرمعروف سبزی ہے ڈاکٹر اسے کمزور لوگوں میں خون کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ ظاہری اعتبار سے بھی چوقندر کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ اس کا جوس نکالا جائے تو وہ سرخی لیے ہوتا ہے۔ چوقندر سلاد کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے مستطیل ٹکڑے سلاد میں شامل ہوتے ہیں۔ گھر وں میں اس کا سالن بھی پکایا جاتا ہے۔ بعض گھروں میں اسے گوشت کے ساتھ اور بعض گھروں میں گوشت کے بغیر پکایا جاتا ہے۔ میری امی اسے کدو کش شدہ چقندرمیں مصالحہ خاص طور پر املی شامل کر کے پکایا کرتی تھیں۔ گوشت کے بغیر امی کی یہ ڈش ہم بہت شوق سے کھایا کرتے۔ چقندر د یکھ کر اپنی ماں کی یہ ڈش یاد آجاتی ہے۔ماں کے ہاتھوں پکائی کوئی چوقندر کی ڈش کا مزہ اور ذائیقہ بھلائے نہیں بھولتا۔ سچ ہے ماں کے ہاتھوں پکے ہوئے کھانوں میں جو لذت اور ذائیقہ ہے وہ دنیا کی کسی اور چیز میں نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس لذت اور ذائیقے کا احساس اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے اگر ماں دنیا سے چلی گئی ہو۔ ماں کی یاد کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کی لذت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی مائیں حیات ہیں اور وہ اس قابل بھی ہیں کہ کھانے پکانے میں فعال ہیں۔ انہیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ میری ماں کو جدا ہوئے ۵۱ سال ہوچکے، قدم قدم پر، لمحہ بہ لمحہ ان کی یاد اور ان کے پکائے ہوئے کھانوں کی لذت، ذائیقہ اور میٹھاس بھلائے نہیں بھولتی۔(۳۲ فروری ۴۲۰۲ء، جدہ)
|