“ پی آئی اے کی تباہی میں کونسے عوامل سرفہرست تھے “

گزشتہ مہینوں میں نئی حکومت نے عوام کو یہ خبر دی کے پی آئی اے کی جن کاری اپنے آخری مراحل میں اور کسی بھی وقت یہ اپنے آخری مراحل میں پہنچ جائیگی اس پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے کئ ممبرز کاملا جُلا ردعمل دیکھنے میں آیا مگر اکثریت حزب اقتدار کے نیشنل اسمبلی ممبرز میں جن میں کئی وزیر بھی شامل تھے. پی آئی اے کی نج کاری پر بہت خوش تھے.جبکہ حزب اقتلاف کے نیشنل اسمبلی کے ممبرز اس ہر سوائے افسوس کے یہی کہتے پایا کہ کبھی پی آئی اے دنیا کی پانچ بہترین ائیر لائین میں اسکا شمار ہوتا تھا. کیا حالت بنے کہ یہ پانچویں نمبرز پر رہنے ولی ائیر لائینز کا یہ حال ہوگیا کہ ایسے خریدنے والا بھی ہس و پیش دیکھا رہے تھے.

قومی پرچم بردار فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشن ایئرلائنز (پی آئی اے) ان دنوں ایک قومی بوجھ تصور کی جارہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پی آئی اے کو مفت لے جاو تو کوئی کہتا ہے کہ قومی خزانے پر بوجھ ہے اس کو بند کردیا جائے۔ پی آئی اے قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ ملک کے دنیا بھر میں تعارف کے علاوہ ترقی، خوش حالی اور دفاعِ وطن میں اہم کردار ادا کرنے والا ادارہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہر چند منٹ میں پی آئی اے کا طیارہ دنیا کے کسی نہ کسی ہوائی اڈے پر اتر یا پرواز کررہا ہوتا تھا اور یہ ایئرلائن قومی پرچم کو دنیا بھر میں لہراتی تھی۔

پی آئی اے کو تباہی کی طرف لیجانے والی وہ قوتیں جنہوں نے اپنے اپنے زاتی مفادات کے لیے اس قومی ائیر لائین کو جس بے دردی سے لوٹا ہے. اس کی دنیا میں کوئی تاریخ نہیں ملتی قیام پاکستان کے بعد جس تیزی سے ہے آئی اے کو 80 کی دہائی میں بےدریخ لوٹا جارہا تھا اس کی مثال آپ تھی.

10 جنوری 1955 پاکستان کی قومی ائیر لائن کا قیام عمل میں آیا۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کو ایک چھوٹی سی فضائی کمپنی ورثے میں ملی تھی جس کا نام اورینٹ ائیر ویز تھا۔یہ ایئر لائن کلکتہ میں برطانوی راج کے دوران 23 اکتوبر 1946ء کو رجسٹر کی گئی۔ اسے مسلم کاروباری خاندانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر قائم کیا۔ ابتدائی سرمایہ کاری اصفہانی، آدمجی، اور اراگ گروپ کی طرف سے ک گئی۔ مرزا احمد اصفہانی اس کے پہلے چیئرمین بنے۔ اس نے چار ڈگلس ڈی سی-3s طیاروں کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔.اس فضائی کمپنی کے صدر دفاتر کلکتہ میں تھے جو قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل کردیئے گئے تھے۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی چھ سات برس تک یہی ائیر لائن ملک میں فضائی آمدورفت کا نظام سنبھالے رہی۔ مگر کم وسائل ہونے کے باعث یہ ایرلائن اپنا دائرہ زیادہ وسیع نہ کرسکی۔

1954ء میں پاکستان میں ایک قومی ائیر لائن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور 10 جنوری 1955ء کو پاکستان کے وزیر مملکت برائے دفاع سردار امیراعظم خان نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کی ایک نیم سرکاری بین الاقوامی فضائی کارپوریشن کے قیام کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کارپوریشن 5 کروڑ روپے کے منظور شدہ سرمایہ سے قائم ہوگی اور اورینٹ ائیر ویز کو اپنی تحویل میں لے لے گی۔ اسی دن گورنر جنرل غلام محمد نے اورینٹ ائیر ویز کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز میں ضم کرنے کے لئے ایک آرڈی ننس بھی جاری کیا۔ یوں 1 جنوری 1955ء کو پاکستان کی قومی ایئر لائن کا قیام عمل میں آگیا۔

11 مارچ 1955ء کو حکومت پاکستان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی تشکیل پر اورینٹ ایئر ویز ،پاک ایئر ، کریسنٹ ایئرویز کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ساتھ ضم کر دیا۔
پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے پہلے سربراہ کا نام ایم ایم اصفہانی تھا۔پاکستان ائیر فورس کے تین سابق چیفس آف اسٹاف کو اس فضائی ادارے کا سربراہ بنایا جا چکا ہے
1. ائیر مارشل محمد اصغر خاں،
2.ائیر مارشل محمد نور خاں، اور
3.ائیر مارشل ظفر چوہدری

جیٹ سروس میں پی آئی اے کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہےکہ اس نے ایشیا میں اس سروس کا آغاز کیا۔1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا ۔ ایئر کموڈور نور خان پی آئی اے میں شامل ہو گئے۔پوری دنیا میں ای مقابلے کا آغاز ہو گیا کہ کونسی ایئر لائن پہلا جیٹ بوئنگ 707اُڑائے گی۔ بھارت نے سب سے پہلے اس جہاز کا آرڈر دیا کیونکہ وہ ایک امیر ملک تھا۔ایئر کموڈور نورخان نے بہترین کام یہ کیا کہ پین ایم سے ایک 707لیز کروا لیا جو کہ پہلی پرواز بھرنے والا 707 ب گیا۔ یوں پی آئی اے جیٹ پرواز کرانے والی پہلی ایئرلائن بنی اور اس طرح پی آئی اے نے برٹش ایئرویز اور ایئر انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

عوامی جمہوریہ چین میں فضائی سروس شروع کرنے والی پہلی غیر سوشلسٹ فضائی کمپنی بھی پی آئی اے تھی۔

'Great People to Fly With'

یہ پی آئی اے کا سلوگن تھا۔

پی آئی اے پہلی ایئرلائن ہے جس نے مسافروں کی انٹرٹینمنٹ کے لئے دوران پرواز فلمیں دکھانے کا آغاز کیا۔

1965ء میں پی آئی اے ٹرانسپورٹ کمانڈ تھی۔ایئرفورس کے پاس ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ پی آئی اے ایئر فورس کے لیے بوئنگ 707اُڑاتی تھی ۔

1971ء کی جنگ میں بھی ایئرفورس کے پاس ٹرانسپورٹ نہیں تھی ، پی آئی اے نے ہی ایئرفورس کو ٹرانسپورٹ فراہم کی تھی۔

پی آئی اے نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان 1961ء میں پروازیں شروع کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ براہ راست پروازیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے شکاگو اور نیویارک کو ملاتی تھیں۔ ان روٹس پر پی آئی اے ن کئی سو ارب روپے کمائے۔لیکن 29 اکتوبر 2017 کو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کا شمالی امریکہ کے لئے پروازوں کا سلسلہ 56 سال بعد بند ہوگیا ہے۔ 27 اکتوبر 2017 کو لاہور سے پی آئی اے کی آخری فلائٹ پی کے 711 نیویارک پہنچی اور وہی طیارہ 29 اکتوبر 2017 کو پرواز پی کے 712 کے ذریعے نیویارک سے لاہور روانہ ہوا۔

ماضی کی بہترین ائیرلائنز میں شمار کی جانے والی پی آئی اے کو اس وقت شدید انتظامی اور مالی بحران کا سامنا ہے۔ طیاروں کی کمی کے باعث پی آئی اے کی اندرون ملک پروازوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہوتا ہے جس کے باعث مسافروں کی تعداد میں ہر سال متواتر کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔

پاکستان ائیرلائنز اس وقت 28 بین الاقوامی اور 25 ملکی ائیرپورٹس پر آپریٹ کر رہی ہے۔ اکثر اہم بین الاقوامی روٹس پر پہلے براہ راست پروازیں چلائی جاتی تھیں جو پہلے ایک سٹاپ اور پھر انہیں بھی بن کرنے کی نوبت آ پہنچی ہے

اس وقت پی آئی اے کے پاس 32 جہازوں کا بیڑہ ہے جس میں کئی جہاز لیز پر حاصل کئے گئے ہیں۔ ادارے میں انتظامی بحران، ضرورت سے زیادہ ملازمین کی بھرتی اور پھر جہازوں کی بری حالت کے باعث پی آئی اے 12 سال سے بھاری مالی خسارے کا شکار ہے۔

اس تمام تر صورتحال کی 5 وجوہات ہیں .
1.سیاسی مداخلت اورسیاستدانوں کی ناکامی
2.. یونینز اور ایسوسی ایشنز کی سیاسی پشت پناہی۔
3.. اعتماد اور لیڈر شپ کا فقدان
4.عہدوں کے لیے غیر موزوں ڈائریکٹرز۔
5. کرپشن.

پی آئی اے کی ترقی کا عمل 1980ء کی دہائی تک جاری رہا مگر ملک کے سیاسی حالات نے قومی ایئرلائن کو بری طرح متاثر کیا اور اس وقت حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں نے پی آئی اے کی ترقی ک سفر کو تنزلی میں بدل کر رکھ دیا۔ 1980ء کی دہائی میں پی آئی اے میں انتظامی سطح پر بہت سی مشکلات کھڑی ہوگئی تھیں۔

1981ء میں پی آئی اے میں 2 واقعات رونما ہوئے جس نے قومی ایئرلائن کے ملازمین کو ایک قومی اثاثے کے بجائے ایک قومی رسک قرار دے دیا۔ پہلا واقعہ 2 فروری 1981ء کو پیش آیا جب پراسرار طور پر ہینگر میں کھڑے پی آئی کے طیارے کو آگ لگ گئی اور وہ جل کر مکمل تباہ ہوگیا۔ اس حادثے کی تحقیقات جاری تھیں کہ 2 مارچ کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 326 جو کہ کراچی سے پشاور جارہی تھی کو اغوا کر کے کابل لے جایا گیا۔ اس اغوا میں طیارے کے اندر اسلحہ پہنچانے کا الزام پی آئی اے کے ملازمین پر لگایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پی آئی اے پر بھی مارشل لا قوانین کا نفاذ کردیا گیا اور ادارے میں بڑے پیمانے پر ملازمین کو برطرف کرنے کے علاوہ گرفتاریاں بھی ہوئیں او حکومت نے ایک تجارتی ادارے کو وزارت دفاع کے ماتحت کردیا جس سے پی آئی اے کی ترقی کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ جس نے پی آئی کی ترقی کے پہیہ کو بریک لگادی.

قومی ایئرلائن کو وزارت دفاع کے ماتحت کرنا اس کے کاروبار کی تباہی کی بڑی وجہ ہے۔ اس فیصلے سے پی آئی اے پروفیشنل انداز میں چلائی نہ جاسکی اور اس کی فیصلہ سازی کاروباری بنیادوں کے بجائے دفاع بنیادوں پر کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ ایئرلائن میں ایوی ایشن ماہرین کی جگہ نان پروفیشنل انتظامیہ نے لینا شروع کردی جبکہ مراعات اور تنخواہوں میں نمایاں کمی نے ملازمین کے جذبے کو بری طرح متاثر کیا اور ایئرلائن ہر گزرتے دن تنزلی کا شکار ہوتی رہی۔ ساتھ ہی ادارے میں سیاسی مداخلت بڑھتی چلی گئی۔

شہری ہوابازی کی صنعت میں تیزی سے تبدیلی آنے لگی مگر پی آئی اے اپنے انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کو تیار نہ تھی اور نہ ہی پی آئی اے کی انتظامیہ اور نہ ہی پالیسی ساز شہری ہوابازی میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ سکے۔ جبکہ ادارے کی پالیسی سازی میں ملازمین کا کردار مکمل طور پر ختم ہوچکا تھا۔ دنیا میں تبدیل ہوتے ایوی ایشن قوانین کی روشنی میں 1990ء کی دہائی میں اوپن اسکائی پالیسی کو اپنایا گیا اور پی آئی اے کو ایسی ایئرلائنوں کے مقابلے میں میں کھلا چھوڑ دیا گیا جن کے پاس وسائل کی ریل پیل ہونے کے علاوہ جدید انتظامی نظام بھی موجود تھا۔ جبکہ پی آئی اے دنیا کی دیگر ایئرلائنوں کی طرح ایک Legacy Airline بن کررہ گئی تھی۔

پی آئی اے کے انتظامی ڈھانچے کی مشکلات اپنی جگہ مگر ادارے کے لیے ملک کے اندر سے بھی مشکلات کھڑی کی جاتی رہیں۔ اوپن اسکائی پالیسی کے تحت نجی ایئرلائنز کو اجازت دی گئی لیکن پی آئی اے کے مقاب شاہین ایئرلائن کو ملک کی ایک نئی قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کے طور پر کھڑا کردیا گیا۔ اس سے پی آئی اے کو شدید تر نقصان ہوا۔ شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا جہاں دو قومی پرچم بردار فضائ کمپنیاں آپریٹ کرتیں۔

شاہین ایئر کو وہ روٹس دیے گئے جو کہ صرف قومی پرچم بردار کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی آئی اے گراؤنڈ ہینڈلنگ جس میں طیاروں کو آلات فراہم کرنے کا شعبہ بھی شامل تھا، کے ذریعے سالانہ خطیر منافع کماتی تھی۔ مگر اس کے مقابلے میں شاہین ایئرپورٹ سروسز کو کھڑا کیا گیا۔ پی آئی اے کے متعدد ایئرلائنوں کے ہینڈلنگ کے معاہدے شاہین ایئر پورٹ سروسز کو منتقل کردیے گئے جس سے گراؤنڈ ہینڈلنگ کا شعبہ بھی خسارے کا شکار ہوگیا۔

پی آئی اے نے خطے میں ابھرتی معیشتوں جیسے کہ متحدہ عرب امارات کو اس کی ایئرلائن قائم کرنے کے لیے نہ صرف تکنیکی معاونت فراہم کی بلکہ اپنا ایک بوئنگ 737 طیارہ بھی ابتدائی آپریشنز کے لیے فراہ کیا۔ ایمیریٹس ایئرلائن نے پہلی پرواز بھی دبئی سے کراچی کے لیے چلائی۔ اس ایئرلائن کے قیام سے پی آئی اے کے ملازمین نے بہتر تنخواہ، مراعات اورکام کرنے کے بہتر حالات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ایمیریٹس ایئرلائن کا رخ کیا اور پی آئی اے میں سیاسی طور پ بھرتی ہونے والے افراد ہی باقی رہ گئے جو ایئرلائن کو آگے بڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ پی آئی اے نے ایک اندازے کے مطابق دنیا کی 25 ایئرلائنوں کو تکنیکی معاونت فراہم کی ہے اور آج بھی دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹس اور ایوی ایشن ماہرین کی مانگ ہے۔

سیاسی مداخلت نے ادارے کو تباہ کردیا۔ ملازمین ادارے سے وفاداری کے بجائے اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم ہوگئے اور اس تقسیم کی وجہ سے انتظامیہ کے لیے بھی ملازمین کی اہمیت کم ہوگئی۔
دنیا میں نئے نئے طیارے متعارف ہوئے جس میں سے بوئنگ 777 لانگ ہال طیارے کے متعارف ہونے سے فضائی صنعت تبدیل ہوگئی۔ یہ طیارے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغیر کسی اسٹاپ کے سفر کرسکتے تھے۔

یعنی آپ ناشتہ کریں اسلام آباد میں اور رات کا کھانا کھائیں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں۔ پی آئی اے کے لیے اسلام آباد ٹورنٹو روٹ نہایت منافع بخش ثابت ہوا۔ پی آئی اے وہ پہلی ایئر لائن تھی جس نے لانگ ہال طیاروں کے ذریعے طویل ترین پروازیں کیں۔ پی آئی اے کو یہ طیارے اس وقت امریکا نے فروخت کیے تھے جب دنیا میں ایوی ایشن انڈسٹری زوال کا شکار تھی اور ان طیاروں کے خریدار نہ تھے.

پی آئی اے کو یہ طیارے اس صدی کے آغاز میں اس وعدے پر دیے گئے تھے کہ پاکستان میں امریکی امیگریشن سینٹر قائم ہوگا اور پی آئی اے براہ راست اپنی پروازیں امریکا کے لیے چلائے گی۔ یوں خطے ک دیگر ملکوں کے مسافر پاکستان سے امریکا کے لیے براہ راست سفر کرسکیں گے۔

مگر یہ وعدہ ایفا نہ ہوا اور امریکا نے اپنا امیگریشن سینٹر ابوظبی میں قائم کردیا۔ اس کے علاوہ 14 گھنٹے پرواز کرنے والے طیاروں کے متعارف ہونے سے یورپ اور مشرق بعید کے درمیان کراچی ایئر پورٹ کی اہمیت بھی ختم ہوکر رہ گئی اور طیارے کراچی میں ایندھن بھروانے کے لیے لینڈ کیے بغیر فضائی حدود سے نکل جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں قائم ہونے والی 3 بَلک ایئرلائنز سے بھی پی آئی اے کو شدید نقصان ہوا۔
ایمیریٹس کو پی آئی اے نے خود بنایا تھا۔ ایمیریٹس کے علاوہ قطر اور اتحاد ایئرویز کی وجہ سے پی آئی اے کے یورپ اور امریکا کے مسافر ان ایئرلائنز کو ترجیح دینے لگے۔

ان تنیوں ملکوں کے پاس بہت سے وسائل تھے جن کا استعمال کر کے اپنی ایئرلائنوں کو دیگر کے مقابلے میں تیزی سے وسعت دی۔

دنیا میں ایئرلائنز کے انتظامی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور ایئرلائنز نے اپنے شعبہ انجنیئرنگ، فلائٹ کچن، گراؤنڈ اور پیسنجر ہینڈلنگ کے شعبوں کو یا تو آؤٹ سورس کردیا یا ان کی ذیلی کمپنیاں بنادیں۔ جبکہ پی آئی اے آج بھی اپنے 1960ء میں قائم کرد انتظامی ڈھانچے پر کام کررہی ہے۔ ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کو طیاروں کی خریداری، آپریشنز، انجنیئرنگ، پروازوں میں کھانے اور ہر طرح کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے دور میں اعجاز ہارون نے بطور ایم ڈی پی آئی اے ترکش ایئرلائن کے ساتھ کوڈ شیئرنگ کا معاہدہ کیا جس میں پی آئی اے یورپ کے لیے اپنی پروازوں کو جاری رکھتی اور جن یورپی اور امریک شہروں کے لیے پروازیں آپریٹ نہیں کررہی ہے وہاں پی آئی اے کے مسافروں کو سفری سہولت ترکش ایئرلائن فراہم کرتی۔ معاہدے کے تحت پی آئی اے استنبول تک یورپی مسافروں کو لے کر جاتی جہاں سے ترک ایئرلائن مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتی۔

پی آئی اے کے ملازمین نے ممکنہ نجکاری کے خلاف 2016ء میں احتجاج کرتے ہوئے پی آئی اے کے آپریشن کو بند کردیا تھا۔ اس احتجاج کے دوران ایک ریلی پی آئی اے ہیڈ آفس سے نکالی گئی جس کا مقصد جنا ٹرمینل پر پہنچ کر پورے فضائی آپریشن کو بند کرنا تھا۔ اس دوران ریلی پر فائرنگ سے پی آئی اے کے 2 ملازمین ہلاک ہوگئے۔ پائلٹس ایسوسی ایشن نے احتجاج سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فضائی آپریشن بحال کیا اور یوں پی آئی اے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔

ماضی قریب میں پی آئی اے کو بحال کرنے کی کوششیں تو کی گئی ہیں لیکن بزنس پلان پر کامیابی نہیں مل پائی، ایکس چینج ریٹ اور ایندھن کی قیمت پر دھچکے لگے اور پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی بھی پی آئی اے کو لیز پر طیارے دینے کو تیار نہیں ہے اور لیز پر دیئے گئے طیارے واپس لیے جارہے ہیں۔

نجی شعبے کو ساتھ ملا کر پی آئی اے کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پی آئی اے کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے انٹرنیشنل روٹس ہیں جو کہ کسی ایئرلائن کو نہیں مل سکتے اور یہ بات درست بھی ہے۔ پی آئی اے کو لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے حقوق حاصل ہیں جو کہ خلیجی ملکوں کی کسی ایئرلائن کے پاس موجود نہیں ہیں۔

ماضی میں قوم کی شناخت رہنے والی پی آئی اے اب ایک قومی بوجھ ہے یہ فیصلہ پالیسی سازوں کو کرنا ہے کہ آیا وہ پی آئی اے کو نجی شعبے کی مدد سے بحال کرنا چاہتے ہیں یا پھر دیگر ایئرلائنز کی طرح بندش اس کا مقدر ٹھہرے گی۔

ہی آئی اے کو نقصان پہنچانے میں پی آئی اے کے ’بوڑھے‘ فلیٹ کے بارے میں بات تو ہر اس شخص کی منہ سے سنی ہے جس سے اس کمپنی کے بارے میں بات ہوئی مگر آپ حیران ہوں گے یہ بات بالکل غلط ہے۔

پی آئی اے کے پاس تقریباً ہمیشہ سے ہی اکثر جدید اور تکنیکی لحاظ سے بہترین طیارے رہے ہیں۔

پی آئی اے کے بیڑے میں لانگ ہال یا دور کی مسافت کی پروازوں کے لیے بوئنگ کے جدید 777 اور ایئر بس کے قدرے پرانے اے 310 طیارے ہیں۔

پی آئی اے کے پاس چھ اے 310 طیارے ہیں جن کی عمریں 22 سال سے 24 سال کے درمیان ہیں اور یہ اس وقت ایئرلائن کے زیرِاستعمال سب سے پرانے طیارے ہیں جو ملک کے اندر اور مشرق بعید کی پروازوں کے لی استعمال ہوتے ہیں۔

بوئنگ 777 طیاروں کی عمر 10 سے 12 سال کے درمیان ہے جس کی ایک قسم لانگ رینج کا سب سے پہلا طیارہ پی آئی اے نے حاصل کیا تھا۔ اس سے قبل پی آئی اے بوئنگ کے 747 طیارے استعمال کرتی تھی جنھیں موجود حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔

درمیانی سے مختصر فاصلے کی پروازوں کے لیے پی آئی اے ان دنوں صرف ایئر بس کے اے 320 طیارے استعمال کرتی ہے۔ اس سے قبل پی آئی اے بوئنگ 300-737 طیارے استعمال کرتی تھی جنھیں موجودہ حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ پی آئی اے اے ٹی آر کے 42 اور 72 طیارے مختصر دورانیے کی پروازوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

پی آئی اے کے تمام طیارے دنیا میں کہیں بھی پرواز کر سکتے ہیں اور یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔
ان باتوں کی بنیاد میں پی آئی اے کے نو طیاروں کے علاوہ باقی طیاروں پر 2007 میں لگنے والی پابندی ہے تاہم جن طیاروں پر 2007 میں پابندی عائد کی گئی تھی وہ اب ریٹائر کیے جا چکے ہیں۔

2014 میں پی آئی اے کے طیاروں پر یورپی یونین کے ممالک میں کارگو لیجانے کے حوالے سے جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ بھی اٹھائی جا چکی ہے۔

پی آئی اے کے مطابق اس وقت فضائی کمپنی کے پاس 14771 ملازمین ہیں اور یہ تعداد فی طیارہ 388 ملازم بنتی ہے۔

اس وقت پی آئی اے کے پاس 38 طیارے ہیں جن میں آنے والے چند ہفتوں میں مزید اضافہ ہو گا جس سے یہ تعداد مزید کم ہو جائے گی۔

دنیا میں ملازمین کی فی طیارہ اچھی شرح سو سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے مگر اس کا انحصار کمپنی کی پروازوں اور اس کے براہِ راست اور ذیلی کمپنیوں کے ملازمین کی تعداد اور ملازمین پر خرچ کی جانے والی رقم پر ہوتا ہے جسے عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔

پی آئی اے اپنے 38 طیاروں کی مدد سے روزانہ 120 کے قریب پروازیں چلاتی ہے جو طویل فاصلے سے درمیانے فاصلے کی پروازوں کے ساتھ ایک بہتر رجحان ہے۔

پی آئی اے کے پاس دنیا کے بہترین ہوائی اڈوں پر بہترین لینڈنگ رائٹس کی سہولت ہے۔

اگر پی آئی اے کے پاس اسی طرح کے بہتر طیارے ہوں اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو وہ سب
مسافر جنھیں غیر ملکی فضائی کمپنیاں سہولت فراہم کر رہی ہیں پی آئی اے بھی انھیں سفری سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔

پی آئی اے کی سب سے زیادہ پروازیں مشرقِ وسطیٰ خصوصاً دبئی اور پاکستان کے درمیان ہیں جن میں پی آئی اے دو پاکستانی اور درجن بھر مشرق وسطیٰ کی فضائی کمپنیوں سے مقابلہ کرتی ہے۔

جہاں پی آئی اے کے طیاروں اور اس کی وجہ سے پروازوں کی تعداد ماضی میں کم ہوتی گئی وہیں غیر ملکی کمپنیوں کو دھڑا دھڑ پاکستان میں تھوک کے حساب سے لینڈنگ رائٹس دیے گئے۔

مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والی فضائی کمپنیاں اس وقت پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد، اسلام آباد سیالکوٹ اور پشاور سے پروازیں چلا رہی ہیں۔

ایمریٹس اور قطر جیسی فضائی کمپنیاں اسلام آباد، کراچی، لاہور حتیٰ کہ سیالکوٹ جیسے شہروں کے لیے بوئنگ 777 یا ایئر بس اے 330 جیسے طیارے چلاتی ہیں اور پی آئی اے کا انحصار ان روٹس کے لیے چھوٹ ایئر بس اے 320 طیاروں پر ہے۔

2005 میں بیرونی فضائی کمپنیاں ایک ہفتے میں پاکستان کے لیے سو کے قریب پروازیں چلاتی تھیں اب یہ تعداد 400 کے لگ بھگ ہے۔

مختصر یہ کہ آج جو مسافر فلائی دبئی، فلائی ناس، ایئر عریبیا یا اومان ایئر پر سفر کرتے ہیں وہ پی آئی اے یا پاکستانی فضائی کمپنیوں پر بھی کر سکتے ہیں مگر یہ بات بہت کم کی جاتی ہے کہ مسافروں کی مد میں ہونے والے سارے نقصان کا سارا فائدہ برادر خلیج ممالک کی فضائی کمپنیوں کو ہوا ہے۔

روزویلٹ ہوٹل کو 2007 میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا مگر اب بھی بہت سی للچائی نظریں اس ہوٹل پر لگی ہیں۔

پی آئی اے کو ایک بیمار کمپنی قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن یہ ادارہ امریکی شہر نیویارک کے مرکزی گرینڈ سینٹرل سٹیشن کے قریب ایک ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے روزویلٹ ہوٹل سمیت دنیا کے اہم شہروں میں متعدد ہوٹلوں کا مالک ہے۔

روزویلٹ ہوٹل 1979 میں پی آئی اے کی ذیلی کمپنی پی آئی اے انوسیٹمنٹس نے خریدا تھا جس میں ابتدائی طور پر سعودی شہزادے فیصل نے سرمایہ کاری کی تھی۔

پی آئی اے نے بعد میں اس ہوٹل کے 99 فیصد حصص خرید لیے تھے۔
جہاں پی آئی اے میں خسارے کا دور دورہ ہے یہ ان چند منافع بخش سرمایہ کاریوں میں سے ہے جن سے پی آئی اے منافع کماتی ہے۔

پی آئی اے نے اس کے علاوہ 1979 میں لیز پر حاصل کیا جانے والا پیرس کا سکرائب ہوٹل بھی سنہ 2002 میں خرید لیا تھا۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.