بچپن سے یہی آرزو تھی کہ پوری
دنیا کی سیر کرو ں اور یہی میری سب سے بڑی آرزو تھی -کچھ لکھنے پڑھنے سے
شغل ہوا اور علی سفیان آفاقی کے سفر نامے پڑھے تو اس شوق اور آرزومیں اور
بھی تیزی آئی -پھر جب زندگی تھپیڑے عملی زندگی میں لانے کا سبب بنے تو پھر
ڈالر کمانے کیلئے باہر نکل جانے دور آیا اور یہی باتیں میں اپنی والدہ )
امی (کو کہتا تھا کہ بہت جلد ڈالر کمانے جاؤنگا لیکن وائے قسمت -ڈالر ہم ٹی
وی پر دیکھتے رہے کہ یہی ڈالر ہے -
جب 1997 ء میں پشاور کے ایک مقامی اخبار میں سپورٹس رپورٹنگ کا آغاز کیا تو
پھر ایک اور راستہ ملا کہ چلو سپورٹس رپورٹنگ کے بہانے ہمیں بھی کہیں کا
کہیں کا ویزہ مل جائیگا کیونکہ اسی سپورٹس رپورٹنگ کے بہانے بہت سارے نام
نہاد صحافی بن کرملک سے باہر چلے گئے اور اپنے گھر والوں کیلئے ڈالر بھیجتے
رہے ہمیں بھی یہی آرزو تھی کہ چلو اسی بہانے ملک سے نکل جانے کا موقع مل
جائیگا لیکن چونکہ ایک تو اپن میں انا اور خودداری کچھ زیادہ ہے اسی وجہ سے
جو صاحب لوگوں کوسپورٹس کے نام پر باہر لے جانے میں ایکسپرٹ تھے ان کے آگے
پیچھے ہونا اور اس کی خوشامد کرنا ہم سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ہم ان کے
ڈیمانڈ پوری کرسکتے تھے کسی زمانے میں بہت زیادہ حالات خراب ہوئے لیکن
سرجھکا کر یس سر کرنے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے میں پھر پیچھے رہ گیا لیکن
پھر بھی میں پاسپورٹ ہر وقت تیار رکھتا تھا کہ چلو اگر کوئی غلطی سے آفر
کردے تو پاسپورٹ کی وجہ سے نہ رہ جاؤں -
اپنے گھر والوں کیساتھ دوستوں ` رشتہ داروں میں بڑے فخر سے کہتا تھا کہ بہت
جلد باہر جاؤنگا اور میری طبعیت کی انتہائی سادہ )امی(سن کر گھبرا جاتی تھی
کہ گھر کا سب سے بڑا بیٹا اگر جائیگا تو کیا بنے گا میرے سامنے تو نہیں
کہتی لیکن دعا کرتی تھی کہ میرے بیٹے کو کہیں سکون ملے تاکہ یہ باہر جانے
کا نام نہ لے -میں بھی صرف لمبی لمبی چھوڑتا تھا کہ بس بہت جلد میرا کام ہو
جائیگا اور پھر باہر جاؤنگا لیکن حقیقت یہی تھی کہ " کچھ بھی نہیں تھا "- -والدہ
نے اپنے ڈر اور خوف کی وجہ سے منگنی کردی تاکہ میرا بیٹا منگنی کے بعد کچھ
تو سدھر جائیگا اور باہر جانے کا نام نہیں لے گا لیکن منگنی کے بعد بھی یہی
حال رہا میری بیگم جو اب چار بچوں کی ماں ہے کا کہنا ہے کہ منگنی ہونے کے
بعد جب خاندان کے دوسرے لوگ مجھے یہی کہتے تھے کہ تمھارا منگیتر توباہر
جانے کے چکر میں ہے تو میں رو پڑتی تھی کہ میرے منگیتر صاحب میرا خیال بھی
نہیں کرتے -اور اسی بناء پر ہر وقت ڈرتی رہتی تھی اور اسی ڈر میں شادی
ہوگئی-
2004 ء میں جب شادی ہوئی تو پھر پھر حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھا لیا اور
ذمہ داریاں اتنی بڑھ گئی کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا تاہم کبھی کبھار باہر
جانے کا دورہ پڑ جاتا تھا اور پاسپورٹ کی تجدید کرتا کہ ضرورت تو پڑ جائیگی
لیکن حقیقت میں دو پاسپورٹ تو بغیر کسی ملک کے ویزے کے اپنی معیاد پوری کر
گئے اور میری یہ آرزو آرزو ہی رہی کہ کسی ملک کا ویزہ سٹمپ میرے پاسپورٹ پر
لگ جائے -شادی کے بعد بیگم پوچھتی کہ اب بھی باہر جائو گے تو میں کہہ دیا
کرتا تھا کہ ہاں اب تو ضرور جائونگا اور کسی انگریز میم سے شادی کرونگا -اس
پر بیگم غصے میں آجاتی اور کہتی کہ ہاں ہاں ادھر سے نکلو گے تو شادی کرو گے
اور وہاں انگریز لڑکیاں بھی تمھارے لئے انتظار کررہی ہے کہ "خان صاحب"
پشاور سے آئینگے اور ان کیساتھ ہم شادی کرینگے -کبھی کبھار بیگم کی یہ
باتیں سن کر اور بھی چڑھ لگ جاتی تھی -تاہم انگریز لڑکی سے شادی کی باتیں
کرنے کے بعد میری بیگم کی تیوری چڑھ جاتی تھی سو میں خاموش رہ جایا کرتا
تھا - ویسے ہم پٹھان عورتوں کے معاملات میں کچھ سخت اور دوغلے ہیں اور یہی
حقیقت ہے ہماری اپنی ماں بہن اور بیوی کا معاملہ ہو تو ہم اور طرح کی سوچتے
ہیں لیکن کسی اور کی ماں بہن اور بیوی کے بارے میں ہماری سوچ دوسری ہوتی ہے
-خیر باتیں کہاں کی تھی اور کہاں پہنچ گئیں-باہر نکلنے کیلئے بہت ساری
کوششیں کیں لیکن کوئی موقع ہاتھ نہ آیا - شعبہ صحافت میں ہونے کی وجہ سے
بہت اونچی پوسٹوں پر تعینات لوگوں سے تعلقات بنے لیکن یہاں بھی انا اور خود
داری تھی اس لئے ان معاملات پھر بھی پیچھے رہے -
شادی سے کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست جو آج کل امریکہ میں ہے انٹرنیٹ پر ایک
لڑکی سے گپ شپ کی اور اس کیساتھ ایسا تعلق بنا لیا کہ امریکہ سے لڑکی آئی
یہاں شادی کی اور پھر اپنے ساتھ میرے دوست کو بھی امریکہ لے گئی -حالانکہ
اس کے مقابلے میں انٹرنیٹ جتنا زیادہ میں استعمال کرتا تھا شائد ہی کوئی
کرتا رہا ہو-مقامی اخبار میں چھپنے والے آئی ٹی کا سیکشن انچارج ہونے کی
وجہ سے دس سے بارہ گھنٹے تک آن لائن خبریں پڑھنا اور پھر اسے ٹرانسلیٹ کرنا
بھی میری ذمہ داری تھی لیکن وائے رے قسمت انگریز لڑکی تو چھوڑیں کسی افریقی
ملک کی حبشی خاتون نے بھی لفٹ نہیں کرائی اور میرا یہ ارمان دل ہی میں رہا
-شادی کے بعد تو زندگی کی دوڑ دھوپ نے سمجھنے کا موقع نہیں دیا - چوری چپکے
صحافت کی تنخواہ میں پیسے بھی جمع کئے صحافت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو
اندازہ ہوتا ہے کہ صحافت کے شعبے میں "حلال" کمائی کتنی ہوتی ہے اور اس پر
کیسے گزارا کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی اپنی " حلال"کی کمائی سے قسطیں ڈال دی
لیکن جتنے ویزے کیلئے بینک میں ضروری ہے اتنے مجھ سے جمع نہیں ہوسکتے -
میری ایک خاتون صحافی دوست جسے ہم بھائی سمجھتے ہیں کچھ عرصہ قبل ایک بین
الاقوامی سیمینار میں شرکت کیلئے باہر جارہی تھی اس وقت اس نے شادی نہیں کی
تھی اسے میں نے کہا تھا کہ " یا تو اپنے لئے شوہر ڈھونڈ لو " یا پھر میرے
لئے بیوی ڈھونڈلو " -مگر واپس مت آؤ اور دنیا کی سیر کرو - مگر موصوفہ نے
نہ تو اپنے لئے کوئی غیر ملکی شوہر دیکھا اور نہ ہی میرے لئے کوئی غیر ملکی
لڑکی دیکھی سو یہاں پر بھی فیل ہوگئے اور ہم نے دل پر پتھر رکھ دیا کہ دنیا
کی سیر ہمارے قسمت میں نہیں- |