پاکستان مواقع کی سر زمین (Land
of Apportunity) ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس کو بے حد انعامات سے نوازا ہے اس کے
فلک بوس پہاڑ جہاں میدانی علاقوں کو پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہیں وہاں ہی
یہ کوہسار لوہے، تانبے، سونے اور قیمتی پتھروں کا بھی منبع ہیں، پنجاب کے
وسیع اور سرسبز میدان ملک بھر کو اناج فراہم کر رہے ہیں، کوہ سلیمان دنیا
میں نمک کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے،چولستان کا صحرا اپنے دامن میں دنیا کا اعلیٰ
ترین کوئلے کا سب سے بڑا منبع رکھتا ہے، ریکوڈک کی کانیں سونا اگل رہی ہیں،
شمالی ہمالیائی سلسلہ کوہ میں قیتمی لکڑی کے وسیع جنگلات ہیں اور ان جنگلات
میں ہر قسم کی جنگلی حیات بھی موجود ہے۔
پاکستان جنوب مشرقی ایشیا کے اس خطہ میں واقع ہے جو وسطی ایشیا اور چین کا
گیٹ وے ہے۔ یہ علاقہ دفاعی سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اہم ترین ہے۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ روس، سفید روس اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کی گرم پانیوں
تک رسائی رسائی اسی خطہ سے ہو کر گزرتی ہے۔ پاکستان کی ہر آزمائش کی گھڑی
میں دوش بدوش کھڑے عوامی جمہوریہ چین کی معیشت کا انحصار بھی خطہ پاکستان
سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم کا ہی مرہون منت ہے، 2009-10ء کے دوران چین نے
اس شاہراہ کے ذریعے مجموعی طور پر 123ارب ڈالر کی برآمدات کیں۔ کراچی اور
گوادر سے افغانستان میں نیٹو افواج کیلئے تیل، خوراک اور اسلحہ کے علاوہ
صرف افغانستان کیلئے درآمدات 75کروڑ ڈالر ہیں، وسطی ایشیائی ریاستوں کی
تجارت کراچی طور خم کے راستے سال 2009-10ء کے دوران مجموعی طور پر 70 ارب
ڈالر سے بھی بڑھ گئیں ہیں۔
داخلی طور پر ملک میں قدرت نے ارزاں ترین افرادی قوت، ہنرمند افراد اور
وسائل کی فیاضی سے کام لیا ہے، کراچی، لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں
ملک کے سب سے بڑے صنعتی زون قائم ہیں جہاں ہزاروں یونٹ ملکی ضروریات کے
مطابق اشیائے صرف،برقی آلات، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی، ٹیکسٹائل اور
ہیوی مشینری تک تیار کر رہے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور
زراعت کی ضروریات کیلئے ٹریکٹر، تھریشر اور دیگر آلات بھی اندرون ملک تیار
ہو رہے ہیں جبکہ آٹو موبائل کے شعبے میں جاپان، چین اور کوریا کے تعاون سے
پرزے جوڑ کر (Assembling)گاڑیاں تیار کی جا رہی ہیں جن کی ملک میں سالانہ
کھپت 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے، سرکاری شعبہ میں پاکستان سٹیل ملز کراچی لوہے
کی اندرون ملک ضروریات کے حوالے سے خود کفیل ہے اور ملکی ضروریات کما حقہ
پوری کر رہی ہے،اسلحہ سازی میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا اور واہ فیکٹری
کی تیار کردہ مصنوعات کی برآمدات ملک کی مجموعی درآمدات کا تین فیصد ہیں،
کراچی مشین ٹولز فیکٹری بھی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان اس وقت کاٹن کی ایکسپورٹ میں نمبر ون ہے مگر بدقسمتی سے سندھ کے
حالیہ سیلاب سے ان برآمدات میں کمی کا خدشہ ہے۔ یورپی یونین کی منڈیوں میں
پاکستانی برآمد کنندگان کیلئے مزید مراعات حاصل کرنے کیلئے ستمبر کے اواخر
میں بھارت نے بھی تعاون کا یقین دلایا ہے۔ یورپی یونین کے ممالک نے
پاکستانی ٹیکسٹائل پر انٹی ڈمپنگ ڈیوٹی 10 فیصد سے کم کر کے 3فیصد اور
ودہولڈنگ ٹیکس اعشاریہ 2 فیصد کر دیا ہے، ایکسپورٹ پروموشن بیورو کی حال ہی
میں ایمسٹرڈیم، بون، پیرس اور ہانگ کانگ میں منعقدہ نمائشوں سے مالی سال
2011ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران تقریباً 78 کروڑ ڈالر کے نئے آرڈر بھی ملے
ہیں جو اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ٹیکسوں کی کمی کی بدولت جہاں پاکستانی
مصنوعات کی بیرونی منڈیوں میں بڑھاوا ملے گا وہاں ہی برآمدکنندگان کی شرح
منافع میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہو گا ۔اس وقت افغانستان میں تعمیر نو کا
عمل جاری ہے جہاں پاکستان کا سیمنٹ ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک میں
سیمنٹ کے 25 یونٹ ایک ارب 70 کروڑ ٹن سالانہ سیمنٹ پیدا کر رہے ہیں ۔سیمنٹ
کی کھپت کی ملکی ضروریات 80 کروڑ ٹنسالانہ ہیں جبکہ فاضل سیمنٹ افغانستان،
سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور وسط ایشیائی ریاستو ں کو برآمد کیاجاتا ہے اس
سے بھی پاکستان کو خاطر خواہ زرمبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔
ملک میں حالیہ سیلاب اور بد امنی کے واقعات نے معیشت کے گراف کو زوال آمادہ
کیا ہے ۔سال 2011ء کی پہلی سہ ماہی میں مرکزی بنک کے اعدادو شمار کے مطابق
گزشتہ سال کے انہی تین ماہ کے مقابلے میں برآمدات میں 15 فیصد کمی دیکھنے
میں آ رہی ہے اسی طرح زرمبادلہ اور سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات
زر میں بھی خاصی کمی ہو رہی ہے، پاک امریکہ موجودہ کشیدہ صورتحال نے
پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کی ہے جس سے ملک کے بیرونی قرضوں میں
بھی ڈیڑھ ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا ہے ۔حکومت کا یہ مؤقف قابل ستائش ہے کہ
پاکستان آئی ایم ایف کا موجودہ قرض اتارنے کی پوزیشن میں ہے اور آٰئندہ آئی
ایم ایف سے مزید قرض نہ لینے کی بھی قوم کو یقین دہانی کرائی گئی ہے ۔گزشتہ
دو عشروں کے دوران آئی ایم ایف سے لئے جانے والے مجموعی 148 ارب ڈالر کے
قرض پر تین گنا سود ادا کیا جا چکا ہے مگر اصل رقم ابھی تک وہاں کی وہاں ہی
ہے بلکہ اس میں ہر سال دو تین ارب ڈالرز کا اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس کے
علاوہ حکومت کو اپنی ضروریات کیلئے آئی ایم ایف سے مزید قرض حاصل کرنے
کیلئے بڑی سنگین اور کڑی شرائط سے بھی گزرنا پڑتا ہے، اس کی حالیہ مثال
بجلی کی قیمتوں میں دسمبر 2011ء تک 12 فیصد اضافے کی بھی شرظ ہے جس پر
مرحلہ وار عملدرآمد کیاجا رہا ہے اور جون 2011 سے ابھی تک چار فیصد اضافہ
ہو چکا ہے۔
پنجاب میں ڈینگی کا مرض، سندھ میں سیلاب، خیبرپختونحواہ اور بلوچستان میں
امن و امان کی مخدوش صورتحال نے ملک کو مسائل کے گرداب میں لا کھڑا کر دیا
ہے، ابھی تک پنجاب میں ڈینگی کی وباء سے مرنے والوں کی تعداد 156 ہے اور اس
میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، سندھ کے 14 اضلاع میں نو ملین افراد اب بھی کھلے
آسمان تلے شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں، مستونگ میں تخریب کاروں کی بربریت
اور سفاکی کے بعد گوادر سے کوئٹہ او چمن کے راستے افغانستان اور وسطی
ایشیائی ریاستوں کی برآمدات گزشتہ ایک ہفتے سے رکی پڑی ہیں جس سے راہداری
کی مد میں قومی خزانے کو 25 کروڑ روپے روزانہ کے محصولات سے ہاتھ دھونا پڑے
ہیں ،اگرچہ کشن گنگا ہائیڈل پراجیکٹ کے بھارتی منصوبہ کے خلاف عالمی ثالثی
عدالت نے حکم امتناعی جاری کر دیا ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی دریائوں
میں پانی کا بہاؤ 10 لاکھ کیوسک کم ہے، پانی کے کم بہائو سے بجلی کا شارٹ
فال 4 ہزار میگا واٹ سے تجاوز کر گیا ہے جس کے باعث چاروں صوبوں کے صنعتی
زون میں بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کے باعث ہزاروں کارخانے بند ہو گئے
ہیں اور بیروزگاری نے صنعتی مزدوروں کے گھر کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے تا ہم
وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کے دورہ تہران اور ایرانی وزیر داخلہ کے
حالیہ دورہ اسلام آباد سے یہ امید ہو چکی ہے کہ دونوں ملک گیس اور بجلی کے
شعبہ میں تعاون کیلئے سنجیدہ ہیں اور آئندہ مالی سال سے پہلے ایرانی گیس
اور بجلی کی درآمد سے ملک میں معیشت پر چھائے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔
قوموں کی زندگیوں میں بولڈ اقدامات کی اشد ضرورت ہوتی ہے روکھی سوکھی کھانے
اور ٹھنڈے پانی پینے والی غیرت مند قوموں کے لیڈر ہمیشہ اپنے ملک اور قوم
کی احتیاجات کو مقدم خیال کیا کرتے ہیں۔یہ اقدامات قوم کا مورال اور معیار
زندگی کے ساتھ ساتھ اقتصادی اشاریوں کو بھی بلند کرنے کا باعث ہوتے ہیں،
قوموں کی برادری میں وہی قومیں عزت و ترقیر کے لائق ہیں جو اقتصادی لحاظ سے
مستحکم اور سیاسی طور پر مضبوط اور دوسروں کی ڈکٹیشن سے بالاتر ہوں۔
پاکستانی قوم ایک محنتی قوم ہے جو خود بھوکا رہ کر اکھنڈ بھارت کے برہمنی
خواب کو ایٹیم بم بنا کر پریشان کر سکتی ہے، اس سے کچھ بعید نہیں کہ ملک کے
وسائل کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے، درست سمت رہنمائی ہو اور قیادت
بھی مخلص لوگوں پر مشتمل ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کو ایشیا کا
اقتصادی ٹائیگر بننے سے کوئی روک سکے۔ |