ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر آج
اسلام آباد پہنچ گئے ۔ اپنے سرکاری دورے کے دوران ان کی پاکستانی وزیراعظم
شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری اور فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے بھی
مُلاقات کا دور ہوئیگا.
ایرانی کے صدر کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ایران اسرائیل تنازع اپنے
عروج پر ہے اور اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں پاکستان اور ایران کے تعلقات
میں بھی اس وقت تلخی دیکھنے میں آئی تھی جب دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے ایک
دوسرے کی سرزمین پر کیے جانے والے حملوں کو مبینہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں
قرار دیا گیا تھا۔
ایران اسرائیل تنازعے کے پس منظر کے علاوہ بھی پاکستان کے موجودہ سیاسی اور
معاشی حالات کے تناظر میں بھی یہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے.
پاکستانی عوام کو معلوم ہوگا کہ رواں برس جنوری میں ایران نے پاکستان کے صوبے
بلوچستان میں ایک ڈرون حملہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہاں شدت پسند
گروہ ’جیش العدل‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان نے اس حملے کا جواب دیتے ہوئے
ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں کارروائی کی اور دعویٰ کیا کہ اس کی جانب
سے وہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک خاموش جنگ بہت عرصے سے جاری ہے
تاہم اس کی شدت میں اضافہ حالیہ دنوں میں اس وقت ہوا جب یکم اپریل کو شام کے
دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ایک میزائل حملے میں پاسداران انقلاب
کی قدس فورس کے سات اراکین سمیت 13 افراد مارے گئے.
اسرائیل نے اس حملے کی آج تک باضابطہ ذمہ داری تو قبول نہیں کی لیکن آزاد رائے
کا خیال یہی ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کی ایجنسی موساد
کی کاروائی ہی نظر آتی ہے . ایران نے اس حملے کے جواب میں 13 اپریل کو میزائلوں
اور ڈرونز کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کیا۔ ایران کے اس حملے پر امریکہ، برطانیہ،
فرانس اور کینیڈا سمیت دیگر طاقتور ممالک کی جانب سے مذمتی بیانات جاری کیے
گئے.
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے خطرات ایک بار پھر 19 اپریل کو اس وقت
بڑھتے ہوئے دکھائی دیے جب امریکی حکام نے ایران کے علاقے اصفہان میں ایک اور
اسرائیلی حملے کی تصدیق کی۔ دوسری جانب ایرانی حکام نے اپنے ملک میں ایسے کسی
بھی اسرائیلی حملے کی تردید کی ہے۔
ایسی صورتحال میں ایرانی صدر کا دورہ اسلام آباد خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے
کیونکہ اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی کی ابتدا کے بعد ابراہیم رئیسی نے اپنے
پہلے غیر ملکی دورے کے لیے پاکستان کو کیوں منتخب کیا ہے.
ایسے میں کئی سوال اُٹھتے ہیں اور خاص کر طاقتور مغرب کیس دیکھے گا کہ اس وقت
ایرانی صدر کے پاکستان کے دورے کو ؟ مگر اس وقت پاکستان نے ایران اور اسرائیل
کے درمیان کشیدگی پر کیا مؤقف اختیار کیا ہے.
پاکستان کی جانب سے دونوں فریقین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کشیدگی بڑھانے سے
گریز کریں اور تناؤ کو جتنا جلد از جلد کم کریں۔
جبکہ 19 اپریل کو ایک بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز
زہرہ بلوچ نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ’یکم اپریل کو ایرانی قونصل خانے پر
اسرائیل کے غیر ذمہ دارانہ اور لاپرواہی پر مبنی حملے نے پہلے سے ہی غیر مستحکم
خطے کی سکیورٹی مزید خراب کر دی ہے.
‘
اقومِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کو خطے میں مزید مہم
جوئی سے باز رکھے اور ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اس کا احتساب
کرے اور سلامتی کونسل متحرک کردار ادا کرتے ہوئے بین الاقوامی امن اور سکیورٹی
کی صورتحال کو بحال رکھے۔
اس وقت ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے.
اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے دوران ’ایران کی کوشش یہ ہو گی کہ وہ
صدر ابراہیمی رئیسی کے دورے کے دوران پاکستان سے کوئی بڑی حمایت کا پیغام لے کر
جائیں۔
اس وقت اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کی شروعات کے بعد کسی بھی ملک کے علاوہ بھی مسلم
اُمّہ کے ممالک نے اس دوران ایران کی کھل کر حمایت نہیں کی اور ایسے میں ’ایران
کی کوشش بار رائے یہ ہوگی کہ وہ دنیا کو یہ تاثر دیں کہ ان کے پاکستان کے ساتھ
تعلقات بہت اچھے ہیں۔‘
ادھر پھر یہی گُمان ہوئیگا کہ اس موقع پر مغربی ممالک ایرانی صدر کے دورے کو
ایران کے حق میں پاکستان کی حمایت کے طور پر دیکھیں گے؟
اس طرح کے دورے ہمیشہ پہلے سے پروگرام مُرتب کیے ہوتے ہیں . لیکن اس بار
پیچیدگیاں اس لیے نظر آ رہی ہیں کیونکہ اس کے پسِ منظر میں ایران اور اسرائیل
میں شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔
’اس دورے میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر یقیناً موضوع بحث بنا ہوئیگا. اس وقت
یہ کوئی نہیں چاہے گا کہ اس کشیدگی کا اثر مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی
سرحدوں کے اطراف آئے. ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان پر ایرانی صدر کے دورے کے
نتیجے میں کوئی بیرونی دباؤ آسکتا ہے؟
’مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کے علاوہ بھی کچھ مسلم ممالک بھی کبھی نہیں
چاہیں گے کہ پاکستان اور ایران قریب آئیں اور جو بھی ملک ایران کے قریب جاتا ہے
اس پر امریکہ کے علاوہ بھی کچھ نہ نظر آنے والی طاقتوں کی طرف سے بھی دباؤ
آجائے.
اس وقت مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ اس خطے میں عوامی
جذبات کی کثیر تعداد ان کے خلاف ہیں اور امریکہ و مغرب یہاں تنہائی کا شکار
ہوتے جا رہے ہیں۔ ’مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسیوں پر ایک بار کیا بار بار
نظرِثانی کرنی چاہیے بلکہ انھیں خود بھِی اس خطے کے ممالک کے ساتھ تعلاقات
بڑھانا چاہیے.
پاکستان کی سول و ڈکٹیٹر شپ حکمران ہمیشہ سے ہی امریکہ و مغربی و خلیج مُلکوں
کو ہمیشہ سے یہی مدعا عیاں کرتی رہی ہیں کہ ’ایران ہمارا پڑوسی ہے اور اس سے
ہمارے اسلامی اور تاریخی تعلقات ہیں۔
’انہیں ہمیشہ سے یہ باور کرواتے ہیں کہ ایران کے ساتھ تجارتی، اقتصادی اور
تعزویراتی تعلقات رکھنا نا صرف ہمارے خواہش ہے بلکہ پاکستان کی مجبوری بھی ہے۔
اگر پاکستانی حکمراں اس کشیدگی کے پسِ منظر میں خود کو ایک ثالث کے طور پر پیش
کرنا چاہتا ہے تو بات الگ ہے، لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہو تو پاکستان کوئی متاثر
کُن ثالث نہیں بن سکتا۔ کیونکہ پاکستان کی وہ مضبوط لیڈر شپ کا نہ ہونا مُلک
پاکستان کی اہمیت اس وقت دنیا میں اب وہ ماضی والی بات نہیں رہی.
جبکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ
ایران مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کے باوجود یہ پیغام دینا چاہتا
ہے کہ سب کچھ نارمل انداز میں ہے۔
اس وقت واشنگٹن میں اور امریکہ اور یورپ کے میڈیا میں صدر ابراہیم رئیسی کے
دورۂ پاکستان پر کچھ زیادہ توجہ دے رہا ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس وقت ایران کے
ہر قدم پر دُنیا نے دوربین لگائی ہوئی ہے۔
جبکہ ایرانی فوج، پاسدارانِ انقلاب، وزیرِ خارجہ اور رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ
خامنہ ای کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اور انکا یہی میڈیا میں کہنا ہے
کہ ایران اس وقت اسرائیل کے ساتھ بڑھنے والی کشیدگی کے سبب تنہائی کا بالکل
شکار نہیں ہے اس سے یہی تاثر کو اس وقت ایران اکیلے نہیں کھڑا.
لگتا یہی ہے کہ اسرائیل نے ’اسرائیل + ایران کے حملوں کے جواب میں کم سے کم ردِ
عمل اس لیے ہی دیا کیونکہ اس وقت اسرائیل پر امریکہ کا بہت دباؤ ہے اور اس وقت
ایران اور امریکہ کا درمیان بیک چینل بات چیت بھی ہوسکت جاری ہے۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات کے درمیان گیس پائپ لائن اور سکیورٹی سمیت ایسے
بہت سے مسائل ہیں جو صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران زیرِ بحث آئیں
گے۔
|