پاکستان کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمہ دار
طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے،
ناجائز مراعات حاصل کرکے اورقرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے
دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا
بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ یہ طبقہ ہر جگہ موجود ہے اسے بعض سیاست
دانوں کا تعاون بھی حاصل ہے، انہیں اداروں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے
اس لیے آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات
کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے
مؤثر اقدامات کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا
ہے۔ ،اشرافیہ کا یہ مافیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی
حوصلہ افزائی کرتا ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کر لیتا ہے
اور اپنے سیاسی مفاد اس وقت موجودہ بحران کی زیادہ ذمہ داری ملکی
اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جو چار ہزار ارب کی مراعات لیے ہوئے ہے
وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی
کو اچھا خاصا ریلیف مل سکتا ہے۔ پاکستان کی بہترین بائیس فی صد
زرعی زمین اس وقت ایک فی صد سے زیادہ اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس
سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس
ادا کرتی ہے۔ '' دوسری طرف گھی ، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے
کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے
لیے جاتے ہیں۔
موجودہ بحران بائیس تیئس سالوں کی کہانی ہے جس میں سول اور آمریت
اور اب نگران تینوں طرح کی حکومتیں شامل ہیں۔ ملک کو درکار ضروری
معاشی اصلاحات کرنے، معیشت کو دستاویزی بنانے اور خسارے میں چلنے
والے سرکاری اداروں سے جان چھڑانے کے لیے جتنی کوششیں کی جانی
چاہیں تھیں وہ دیکھنے میں نہیں آئیں۔
اس وقت پاکستان کا موجودہ اقتصادی بحران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا
پریشان کن اور مشکل بحران ہے۔ جبکہ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے،
''ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کووڈ کی وبا، تاریخ کے بد
ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے
والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔''صرف آٹھ سال کے قلیل
عرصے میں ملکی قرضے دوگنا سے زائد ہو گئے ہیں۔ پاکستان پر ایک سو
چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ یہ بحران حکومتوں کا پیدا
کردہ ہے۔‘‘ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں
اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار
ہیں لیکن ملکی زر مبادلہ کے ذخائر صرف تین ارب ڈالر سے بھی نیچے جا
چکے ہیں۔
نوزائیدہ پاکستان کی بیروکریسی نے ابتدائی پاکستان کے حالت کا جس
انداز سے اور بہترین پالیسی سے مقابلہ کیا اور پاکستان اُس وقت جس
تیزی پاکستان اُوپر جارہا تھا اس وقت لندن ، نیویارک کے بعد
پاکستان کا شہر کراچی کا نام لیا جارہا تھا کہ یہ لندن اور نیویارک
کا مقابلہ کریگا مگر ایوب اور بھٹو نے جس تیزی سے اردو بولنے والی
اکثریت بیروکریسی کو نکال باہر کیا اور ان کی جگہ ماما چاچے وغیرہ
لے آئے جس کے بعد آج تک پاکستان کی بیوروکریسی زوال پزیر ہے اس
زوال پزیر بیروکریسی نے بھی ملک کے اقتصادی بحران کی سنگینی میں
اضافہ کیا ہے۔ ان کی اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل اوراقتصادی
پالیسیوں کے نفاذ میں ناکامی نے بھی ملک کے معاشی بحران کو بڑھاوا
دیا ہے۔
جبکہ پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی بحران ایک ایسے وقت پر سامنے
آیا ہے جب ملک کا سیاسی نظام جی جو بھی بحرانی کیفیت کا شکار ہے
اس کا اندازہ کراچی کے بلدیاتی اور 2024 کے جرنل اور حال ہی میں
ضمنی الیکشن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے مُلک میں سیاسی بحران کس
کروٹ بیٹھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں
اور دہشت گردی کے خطرات کا سامنا بھی متواتر چیلنج کا سامنا ہے۔
جبکہ حقیقت میں اس وقت پاکستان میں ایک ایسا وقت ہے جب ملک میں
ریاست اورعوام کا رشتہ بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔
اگر کسی بھی معاشی ماہرین سے تجزیہ لیں جن کا پرنٹ اور الیکٹرونک
میڈیا میں داخلہ نہ ہونے کے برابر ہے ان سب کا تجزیہ و رائے یہی ہے
کہ اس اقتصادی بحران کی ذمہ دار اشرافیہ ہے جس نے ملکی معیشت کی
ڈرائیونگ سیٹ پر ٹیلنٹ اور انٹرپرائزز کی بجائے بیرونی قرضوں کو
بٹھا دیا ہے۔ ان کے مطابق ''ملک کے معاشی فیصلے دو سوبیس ملین
لوگوں کے لیے ہونے چاہییں نا کہ صرف ایک ملین مراعات یافتہ لوگوں
کے لیے۔‘‘
اس وقت اگر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے دو ہی راستے ہیں ایک
راستہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے راستے پر جا کر بجٹ میں توازن
لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سب سیڈیز ختم
کی جائیں۔ اس سے ملکی معیشت کی رفتار سست ہو گی۔ اور بے روزگاری،
مہنگائی اورغربت میں بہت اضافہ ہو جائے گا ۔
اس بحران کے خاتمے کا دوسرا حل یہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں
موجود قیمتی سرکاری اراضی کو عالمی تجارتی کمپنیوں کو لیز پر دے
کر، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے قرضے ادا کر
دیے جائیں اوراس سے قبل قرضوں پر خرچ کی جانے والی رقوم لوگوں کی
صحت اور تعلیم کی بہتری پر خرچ کی جائے۔ اس طرح لوگوں کو تربیت دے
کر ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے اور ''ویلیو
ایڈڈ ایکسپورٹس‘‘ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگر ایسا ہواتو اقتصادی
بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا وگرنہ بیرونی قرضے پہلے سے لئے گئے
قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد پھر
معاشی بحران آن کھڑا ہو گا۔
پاکستان کی معاشی حالت کے موجودہ بحران کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جن
کی پالیسیاں اُٹھاکے عرصہ تیس سالوں میں ملک میں برسراقتدار رہے
ہیں اور انہوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ملکی مفادات پر
ترجیح دی۔ یہ لوگ حکومت جاتے دیکھ کر کبھی آئی ایم ایف سے معاہدہ
توڑ دیتے ہیں اور کبھی اس معاہدے کو تاخیر کا شکار کرکے ملک کو
مشکلات میں دھکیل دیتے ہیں۔اس وقت ''پاکستان مسلم لیگ نون کی
سربراہی میں وفاق میں بننے والے حکومت کو آج اپنے دانتوں سے جو
گرہیں کھولنا پڑ رہی ہیں۔ یہ گرہیں ماضی میں مسلم لیگ نون نے اپنے
ہاتھوں سے لگائی تھیں اور الیکٹرونک میں پرچار آئے دن کیا کرتے
تھے.
اگر پاکستان کا جوڈیشری سسٹم اگر نظریہ ضرورت کی آڑ میں فیصلے نہ
دیتیں اگر وہ نظریہ ضرورت سے بالاتر ہوتیں اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی
معاملات میں مداخلت نہ کرتی تو ملک کی معیشت پر بہتر اثرات ممکن ہو
سکتے تھے۔
|