چین کے صدر شی جن پھنگ فرانس کے سرکاری دورے پر اتوار کے روز پیرس پہنچے جہاں دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات اور تعاون کو فروغ دینے اور عالمی امن، استحکام اور ترقی میں نئے کردار ادا کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی گئی ہے ۔یہ شی جن پھنگ کا فرانس کا تیسرا سرکاری دورہ ہے اور تقریباً پانچ سالوں میں ان کا یورپ کا پہلا دورہ ہے۔یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب رواں سال چین اور فرانس کے درمیان سفارتی تعلقات کی 60 ویں سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے۔ سنہ 2014 اور 2019 میں شی جن پھنگ نے فرانس کے عوام کے ساتھ سفارتی تعلقات کی 50 ویں اور 55 ویں سالگرہ منانے کے لیے موسم بہار میں فرانس کے دو دورے کیے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مبصرین کے نزدیک چینی صدر کے حالیہ دورے سے فریقین کی دیرینہ دوستی کو مستحکم کرنے، سیاسی اعتماد کو بڑھانے، تزویراتی اتفاق رائے پیدا کرنے اور مختلف شعبوں میں تبادلوں اور تعاون کو گہرا کرنے میں مدد ملے گی۔
تاریخی اعتبار سے 1964 میں چین اور فرانس نے باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم کرکے تاریخ رقم کی۔ اگلے روز شائع ہونے والے ایک اداریے میں فرانسیسی روزنامہ لی مونڈے نے اس تاریخی لمحے کو "دو آزاد امیدواروں کا مقابلہ" قرار دیا۔فرانسیسی اخبار لی فیگارو میں اتوار کے روز شائع ہونے والے ایک مضمون میں شی جن پھنگ نے کہا کہ "چین فرانس تعلقات کے قیام سے مشرق اور مغرب کے درمیان مواصلات کا ایک پل تعمیر ہوا اور بین الاقوامی تعلقات مکالمے اور تعاون کی سمت میں آگے بڑھنے کے قابل ہوئے۔کنفیوشس سے لے کر فرانسیسی مصنف رومین رولنڈ تک، شی جن پھنگ نے "آزادی" کے جذبے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ان عظیم شخصیات کے الفاظ کا حوالہ دیا، جسے انہوں نے "چین۔فرانس روح" کی ایک اہم خصوصیت کے طور پر دہرایا۔شی جن پھنگ نے کہا کہ چین اور فرانس دونوں" آزادی" کو دو بڑے ممالک کے طور پر اہمیت دیتے ہیں اور تاریخ کے طویل عرصے میں دونوں ممالک کے باہمی روابط نے دنیا میں آگے بڑھنے کے راستے پر زبردست توانائی پیدا کی ہے۔شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے 60 سالوں میں چین اور فرانس نے مختلف سماجی نظام رکھنے والے ممالک کے لیے ایک مثال قائم کی ہے تاکہ وہ امن کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین ایشیا میں فرانس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور عالمی سطح پر چین کا نمبر ساتواں ہے۔ دریں اثنا، فرانس چین کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور یورپی یونین میں سرمایہ کاری کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے. 2023 میں دونوں ممالک کے درمیان مجموعی تجارت 78.9 ارب ڈالر تھی جس میں 2019 سے 2023 تک سال بہ سال اوسطا 5.9 فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چین کی جانب سے فرانس سے صارفی مصنوعات کی درآمدات میں اوسطاً 12.3 فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا ہے جبکہ فرانس سے چین کی مادی ٹیکنالوجی کی مصنوعات، بائیو ٹیکنالوجی مصنوعات اور انٹیگریٹڈ سرکٹس کی درآمدات میں "ڈبل ڈیجٹ" کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔فریقین نے سول نیوکلیئر انرجی اور ایرو اسپیس اور ایوی ایشن سمیت جدید شعبوں میں نئی بنیادیں قائم کرنے کے لیے بھی مل کر کام کیا ہے۔مثال کے طور پر ایئربس نے 2023 میں تھیان جن میں اپنا دوسرا فائنل اسمبلی لائن منصوبہ شروع کیا کیونکہ فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی چینی مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو مزید توسیع دینا چاہتی ہے۔ ایئربس کے مطابق چین میں اس کا مارکیٹ شیئر گزشتہ 15 سالوں میں تقریبا 20 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو گیا ہے۔
اسی طرح چینی وزارت تجارت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2021 کے آخر تک چین میں 6687 فرانسیسی کمپنیاں قائم کی جا چکی ہیں ، جن کی مجموعی سرمایہ کاری 19 بلین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔چین اور فرانس کے درمیان نتیجہ خیز تعلیمی تعاون اور تبادلے کے نتائج اس وقت سے سامنے آ رہے ہیں جب سے دونوں ممالک نے 2014 میں ایک اعلیٰ سطحی عوامی تبادلے کا طریقہ کار قائم کیا تھا۔چین کی وزارت تعلیم کے مطابق اس وقت 46 ہزار سے زائد چینی طالب علم فرانس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 1500 سے زائد فرانسیسی طالب علم چینی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
دونوں ممالک نے ثقافتی تبادلوں کو فروغ دینے کے لئے زبان کے پروگراموں کو وسعت دی ہے۔ چینی یونیورسٹیوں نے 148 انڈر گریجویٹ، 34 ماسٹر ڈگری اور 10 ڈاکٹریٹ تدریسی سائٹس قائم کی ہیں جبکہ فرانس میں 18 کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ اور کنفیوشس کلاس روم قائم کیے گئے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چین اور فرانس کے تعاون نے موسمیاتی تبدیلی پر پیرس معاہدے اور کھون مینگ۔مونٹریال گلوبل بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس سے عالمی موسمیاتی ایجنڈے پر مضبوطی سے عمل درآمد کو تقویت ملی ہے۔یوں ، کہا جا سکتا ہے کہ چینی صدر کے حالیہ دورہ فرانس اور دونوں ممالک کے مابین اہم اتفاق رائے سے جہاں چینی اور فرانسیسی عوام کے لیے ثمرات کا حصول ممکن ہو گا وہاں دونوں بڑے ممالک کے مابین بہتر روابط دنیا میں بھی استحکام اور ترقی کا موجب ہوں گے۔
|