9 مئی کے روز انتشاریوں نے کیپٹن کرنل شیر خان کے مجسمہ
کی بے حرمتی کی ، میرا آپ سب سے ایک سوال ہے کیا اختلافات کی آڑ میں یہ سب
کرنا درست ہے؟کیا ہمارے شہداء نے اس وطن کی خاطر آپ لوگوں کے آرام و سکون
کی خاطر اس وجہ سے اپنی جانیں قربان کی تھیں کہ شہادت کے بعد ان کی یادگار
میں جاکر نامناسب الفاظ استعمال کیے جائیں؟ ان کے اہلِ خانہ کو تکلیف دی
جائے؟
شر پسند عناصر نے ہمارے سینوں پر جو زخم دیے ہیں ہم انہیں کبھی نہیں بھولیں
گے،اور نہ ہی کبھی ان کی اس حرکت کو معاف کریں گے۔
آپ کو معلوم ہے کیپٹن کرنل شیر خان کون تھے ؟
کیپٹن کرنل شیر خان کارگل کے ہیرو ہیں جنہوں نے انتہائی ہمت و بہادری کا
مظاہرہ کرکے جام ِ شہادت نوش کی۔جب کارگل کی جنگ شروع ہوئی تھی کیپٹن کرنل
شیر خان نے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ17000 فٹ کی بلندی پر پانچ اہم ترین
دفاعی نوعیت کے مورچے قائم کیے تھے۔اور پھر انتہائی ہمت و بہادری سے ان کا
دفاع کیا۔5جولائی1999کو دشمن فوج بھاری توپ خانے اور دو بٹالین کے ساتھ
حملہ آور ہوئی اور ایک مورچے کا کچھ حصہ اپنے قبضے میں کرلیا۔انتہائی شدید
گولہ باری کے باوجود کیپٹن کرنل شیر خان نے انتہائی ہمت و بہادری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے دشمن سے مورچے کا قبضہ واپس لیا۔تاہم اسی دوران ایک مشین گن کی
گولیوں کی زد میں آکر وطن کے اس جانباز بیٹے نے جامِ شہادت نوش کی۔
کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کے قصے دشمن آج بھی سناتا ہے۔ ایک انٹرویو کے
دوران بھارتی فوج کے بریگیڈیئر پرتاب سنگھ باجوہ نے کرنل شیر خان کی بہادری
کا ذکر کرتے ہوکہا کہ ”میں نے سویلین پورٹرز کو کہا اس آفیسر کی باڈی کو
نیچے لے کر آئیں، جب ان کی جیبیں چیک کی گئیں ان کی جیبوں سے لیٹر (خط)
نکالے جس سے مجھے یہ پتہ چلا اس کا نام کیپٹن کرنل شیر خان ہے۔لڑکوں نے
مجھے بتایا سر یہ بہت بہادری سے لڑا ہے،یہ مجھے بھی پتہ تھا کہ یہ بہت
بہادری سے لڑا ہے کیونکہ میں خود کہہ رہا تھا اس کو مارو اس کو مارو۔ اس کے
بعد میں نے اپنے سینئرسے بات کی۔ میں نے کہا کہ یہ بہت بہادری سے لڑا ہے،بے
شک ہمارا دشمن ہے مگر میں ایک لیٹر(خط) اس کی جیب میں ڈالنے لگا ہوں، اور
میں نے اس خط میں لکھا کہ کیپٹن کرنل شیر خان بہت بہادری سے لڑا ہے، یہ
اعزاز کا حقدار ہے۔اور مجھے بعد میں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسے نشانِ حیدر
جو پاکستان کا سب سے بڑافوجی اعزاز ہے، سے نوازا گیا۔“ یہ وہ تعریف تھی، وہ
الفاظ تھے جو دشمن نے کہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کے قصے دنیا بھر
میں مقبول ہیں۔مگر دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ یہ وہی بہادر آفیسر تھے
جن کے مجسمے کی انتشاریوں نے 9 مئی کو بے حرمتی کی،بحیثیتِ پاکستانی یہ
میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔جن کی بہادری کے قصے دنیا بھر میں مقبول ہوں
اور ان ہی کے ملک میں ان کے مجسمے کی ایسی بے حرمتی ہو تو دل خون کے آنسو
روتا ہے۔اسی واقعے کے دوران کچھ شرپسند عناصر نے شہدا کی تصاویر جلائیں جس
پر ایک شہید کے والد صاحب نے سوشل میڈیا پر اپنے بیٹے کی وہ تصاویر شیئر
کرکے پوسٹ کی۔ ان کی پوسٹ پر لکھے الفاظ نے میری آنکھیں نم کردیں۔جوان بیٹے
کی میت کو کاندھا دینا اور اسے قبر میں اتارنا آسان نہیں ہوتا، بہت ہمت
چاہیے ہوتی ہے،ان کے ماں باپ نے اپنے بچوں کو وطن کی خاطر اس وجہ سے قربان
نہیں کیا تھا کہ ان کی شہادت کے بعد ان کے مجسموں کی بے حرمتی کی جائے ان
کی تصاویر جلائی جائیں۔۔
ہمارے شہداء ہمارے ہیروز ہیں ہم 9 مئی واقعہ میں ملوث افراد کو کبھی معاف
نہیں کریں گے، ایسے لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے ان کے خلاف سخت
سے سخت کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کبھی بھی ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے
!! |