"نورا کشتی" کی اصطلاح گزشتہ پچاس سال سے رائج العام ہے
لیکن اب اس اصطلاح کا استعمال سیاسی تقریروں اور بیان بازیوں میں زیادہ
ہوتا ہے۔ بعض سیاستدانوں کو جب دو مخالف جماعتوں کا مفاہمانہ رویہ پسند
نہیں آتا تو وہ ان کے سابقہ طرز عمل کو "نورا کشتی" کی بھپتی کے طور پر
استعمال کرتے ہیں۔چین اور پاکستان ہمہ موسمی اسٹرٹیجک تعاون کے شراکت دار
ہیں اور بنیادی مفادات سمیت اہم خدشات سے وابستہ معاملات میں ایک دوسرے کی
ثابت قدمی سےحمایت کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین چٹان کی مانند مضبوط اور
باہمی اعتماد پر مبنی دوستی گزشتہ 73 برسوں کے دوران عالمی چیلنجز کی
آزمائشوں پر پورا اتری ہے اور یہ دونوں ممالک کے عوام کا قیمتی ترین
اسٹریٹجک اثاثہ بن چکی ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی مشترکہ کاوشوں
سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں نمایاں نتائج حاصل کئے گئے
ہیں، جن کی بدولت دونوں ممالک کے عوام کے لیے نمایاں ثمرات حاصل ہوئے ہیں
اور علاقائی خوشحالی کیلئے ایک مضبوط قوت محرکہ ملی ہے۔
اکیس مئی کو چین اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 73 ویں
سالگرہ منائی جا رہی ہے جو "آئرن برادرز" کہلانے والے دونوں ممالک کی بے
مثال اور لازوال دوستی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ دونوں ممالک کی
دوستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آزمائش کی ہر گھڑی پر پورا اتری
ہے۔دونوں ممالک کی بے لوث اور مخلصانہ دوستی کو ہمالیہ سے بلند ،سمندر سے
گہری اور شہد سے میٹھی قرار دیا جاتا ہے ۔ چین اور پاکستان کے درمیان
باضابطہ تعلقات کا آغاز 1950 میں ہوا ، پاکستان اسلامی دنیا کاوہ پہلا ملک
ہے جس نے عالمی برادری کے دیگر چند ممالک کے ہمراہ چین کو آزاد ملک کے طور
پر تسلیم کیا۔دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات 21 مئی 1951 کو
قائم ہوئے تھے۔گزشتہ 73 برسوں میں پاکستان نے چین کو اقوامِ متحدہ اور دیگر
عالمی فورمز کا رکن بننے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ چین کے امریکہ سمیت
اسلامی دنیا کے ساتھ رابطوں کے قیام اور تعلقات کے فروغ کےلیے اہم خدمات
انجام دی ہیں جسے چین کی جانب سے ہمیشہ سراہا گیا ہے۔
چین نے بھی اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر پاکستان کی بھرپور حمایت
سے ایک سچے دوست کا عملی ثبوت دیا ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ سے چین کی سفارت
کاری میں ترجیح حاصل رہی ہے ، چین پاکستان کے بنیادی مفادات اور اہم خدشات
سے متعلق امور پر پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔دونوں ممالک
کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم اصول ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہےاور تمام
عالمی معاملات اور تنازعات پر دونوں ممالک یکساں رائے کا اظہار کرتے آئے
ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ ایک چین کے اصول کی حمایت کی ہے اور چین کے بنیادی
مفادات سے جڑے دیگر امور میں چین کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔اسی طرح چین نے بھی
پاکستان کے مفادات سے وابستہ معاملات میں تمام کثیر الجہتی عالمی پلیٹ
فارمز پر کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے۔
عالمی سطح پر منفرد اور غیر معمولی نوعیت کی حامل پاکستان چین دوستی کبھی
بھی وقت اور حالات کے تابع نہیں رہی ہے ۔دونوں ملکوں میں انتقال اقتدار یا
پھر سیاسی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے قطع نظر پاک چین تعلقات
ہمیشہ مثبت سمت میں آگے بڑھتے رہے ہیں ۔ ان 73 برسوں کے دوران سیاسی
،سفارتی ،اقتصادی ،ثقافتی ،دفاعی غرضیکہ تمام شعبہ جات میں چین پاک تعلقات
کے فروغ سے روایتی مضبوط دوستی کو مزید عروج حاصل ہوا ہے ۔ دونوں ممالک نہ
صرف عالمی اور علاقائی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے مضبوط حامی ہیں بلکہ ایک
دوسرے کی مضبوط اقتصادی سماجی ترقی کے خواہاں بھی ہیں۔ دونوں ممالک نے
برادرانہ تعلقات میں ہمیشہ مشترکہ مشاورت کے اصول کا احترام کیا ہے ،
مشترکہ تعمیر کے اصول پر عمل پیرا رہتے ہوئے مشترکہ مفاد کے اصول کو ترجیح
دی گئی ہے۔
پاکستان چین کو عالمی سطح پر اہم ترین دوست تصور کرتا ہے اورمشکل صورتحال
میں بھی دنیا نے پاک چین دوستی کی مضبوطی دیکھی ہے ۔ سفارتی میدان میں
کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اگر معاشی شعبے میں چین۔پاک تعلقات کی ترقی کی بات
کی جائے تو چینی صدر شی جن پھنگ کے تاریخی دورہ پاکستان کے دوران دونوں
ملکوں کے عظیم اور بے مثال تعلقات میں ایک تاریخی سنگ میل چین پاک اقتصادی
راہداری کی صورت میں سامنے نظر آ یا،جسے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے
خطے کی معاشی ترقی کا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اربوں ڈالرز سرمایہ کاری
کا حامل یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں اب تک کا سب سے بڑا
منصوبہ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب کا
آغاز ہو چکا ہے۔حقائق کے تناظر میں اقتصادی تعاون چین پاک تعلقات کی بنیاد
ہے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے فلیگ شپ منصوبے کے
طور پر سی پیک نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو نمایاں طور پر
تقویت دی ہے۔ سی پیک نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کا منظر نامہ تبدیل کر
دیا ہے، رابطہ سازی، توانائی، صنعتی ترقی اور تجارت کو فروغ دیا ہے۔ اس
تاریخی اقدام نے پاکستان میں معاشی ترقی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور
غربت کے خاتمے کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔آج چین پاکستان میں سب سے بڑا
سرمایہ کار بن گیا ہے۔ چین کی مدد نے پاکستان کی معاشی بحالی میں اہم کردار
ادا کیا ہے جبکہ آئندہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت زراعت ، صنعت ،
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ سامنے
آئے گا۔اسی طرح حالیہ عرصے میں چین کی انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی
کمیونیکیشن اور خلائی تحقیق سمیت مختلف شعبوں میں مہارت نے پاکستان کو
نمایاں طور پر فائدہ پہنچایا ہے جس کی تازہ ترین مثال پاکستان کی چین کے
قمری تحقیقی مشن میں شمولیت ہے۔ مشترکہ تحقیق اور ترقیاتی اقدامات،
ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں تعاون نے دونوں ممالک میں
تکنیکی ترقی کو فروغ دیا ہے اور چین ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں پاکستان کی
مدد کر رہا ہے۔
چین اور پاکستان کے درمیان گہرے افرادی و ثقافتی روابط بھی موجود ہیں اور
ثقافتی تبادلوں نے ان کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
دونوں ممالک نے ثقافتی تقریبات، فیسٹیولز اور افرادی تبادلوں کے ذریعے
ثقافتی تفہیم کو فعال طور پر فروغ دیا ہے۔ مزید برآں، تعلیمی تعاون کو
حالیہ عرصے میں نمایاں فروغ ملا ہے، ہزاروں پاکستانی طلباء چینی جامعات میں
تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو دونوں ممالک کی انسانی وسائل کی ترقی میں حصہ
ڈال رہے ہیں.آج چین ، پاکستانی نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے لیے اولین
ترجیحی مقام بن چکا ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ چین پاک دوستی کی جڑیں نسل درنسل
عوام کے دلوں میں مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔پاکستانی عوام جہاں چین سے بے
پناہ لگاؤ رکھتے ہیں تو چینی سماج میں بھی پاکستان کو پاتھیے قرار دیا جاتا
ہے جس کا مطلب ہے فولادی بھائی۔آج 73 برسوں بعد چین اور پاکستان دونوں
پراعتماد ہیں کہ آہنی دوستی کے اس رشتے اور برادرانہ تعلق کو ہمیشہ عروج
حاصل رہے گا اور دونوں ملک مل کر ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن رہیں گے۔
کشتی کا فن ہمارے ملک میں تقسیم ہند سے قبل بھی مقبول تھا اور کراچی سمیت
ملک کے زیادہ تر چھوٹے بڑے شہروں میں اس کے اکھاڑے بنے ہوئے تھے لیکن کسی
بھی اکھاڑے میں ہمیں "نور محمد"، یا "نورا" نام کا پہلوان نہیں ملا جس کے
نام سے نورا کشتی کی اصطلاح ایجاد ہوئی تھی۔ ان اکھاڑوں سے تربیت پانے والے
پہلوان ملکی و بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لے کر ملک و قوم کے لئے
انعامات و اعزازات جیتتے رہے اس دور میں پاکستان کے کئی پہلوان عالمی شہرت
کے حامل رہے، خاص طور سے 90 کی دہائی تک بھولو خاندان کی پاکستان میں کشتی
کے کھیل پر حکمرانی رہی۔ یہ خاندان پاکستان بننے سے قبل سے اس کھیل سے
وابستہ تھا۔ 1910 میں ہندوستانی پہلوان، غلام محمد بخش عرف "گاما" پہلوان
نے ایک عالمی مقابلے میں برطانوی پہلوان "زیسکو" کو شکست دے کر رستم زماں
کا خطاب حاصل کیا تھا۔ رستم زماں کے ٹائٹل پر کئی عشرے تک ان کے خاندان کی
حکمرانی رہی۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں یہ اعزاز گاما پہلوان کی دوسری نسل
اور رستم ہند امام بخش کے بڑے صاحب زادے، رستم زماں منظور احمد عرف بھولو
پہلوان کے پاس تھا۔ 1970 کے عشرے میں کشتی کے کھیل میں جاپانی پہلوان،
انٹونیو انوکی معروف ہونے لگے۔ انہوں نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں
فتوحات حاصل کیں۔ان کا سب سے بڑا مقابلہ مشہور باکسر محمد علی کلے سے ہوا
جو برابر رہا تھا۔ اس دور میں یورپ اور ایشیا میں فری اسٹائل کشتی کا رواج
ہوا۔ کشتی کے مقابلوں کے دوران انٹونیو انوکی کا ایجاد کردہ " انوکی لاک"
بہت مقبول ہوا۔
1976 میں انوکی نے بھولو پہلوان کو کشتی لڑنے کا چیلنج بھیجا جسے ان کی
بجائے ان کے چھوٹے بھائی اکرم عرف اکی نے قبول کیا۔ دونوں پہلوانوں کے
آفیشلز نے مقابلے کی تاریخ اور مقام طے کیا۔ 10دسمبر کوانٹونیو انوکی اپنی
سہ رکنی ٹیم کے ساتھ پاکستان پہنچے۔ 12/دسمبر 1976 کو کراچی کے نیشنل
اسٹیڈیم میں مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ اکی اور انوکی کے مقابلے سے قبل
بھولو برادران کے سب سے چھوٹے بھائی منظور عرف گوگا اور انوکی کے شاگرد "ہروکا
ایگن" کے درمیان افتتاحی مقابلہ ہوا۔ لیکن یوں لگ رہا تھا کہ اصل فائیٹ سے
قبل اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں اور ٹیلیویژن پر گھر میں بیٹھ کر میچ
دیکھنے والے افراد کی دل بستگی کے لئے مزاحیہ پروگرام پیش کیا جارہا ہے۔ یہ
مقابلہ یکطرفہ ثابت ہوا اور گوگا پہلوان نے یہ کشتی باآسانی جیت لی۔ اکرم
اور انوکی کے درمیان کشتی کے دوران انوکی نے اکرم کو زیر کرنے کے لئے اس کی
کلائی میں انوکی لاک لگایا۔ اکی پہلوان نے اس دائو سے نکلنے کے لئے کشتی کی
جدید تیکنیک سے نابلد ہونے کی وجہ سے روایتی ترکیب ازمائی۔ اس زور آزمائی
کے نتیجے میں ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا اور وہ ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہوگئے۔ 1979
میں ان کے بھتیجے زبیر عرف جھارا پہلوان نے اپنے چچا کی شکست کا بدلہ انوکی
سے ایک مقابلے میں لے لیا۔
اس زمانے میں عبد الوحید حسینی نیشنل پریس ٹرسٹ کے انگریزی اخبار، روزنامہ
مارننگ نیوز میں اسپورٹس رپورٹر تھے۔ انہوں نے اس کشتی پر تنقید کرتے ہوئے
اپنی خبر میں "نورا کشتی" کی اصطلاح متعارف کرائی۔ میں بھی اس دور میں
مارننگ نیوز اخبار میں ملازم تھا، اس لئے وحید حسینی سے میری روزانہ ملاقات
رہتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ "نورا کشتی" کی اصطلاح کا مطلب پوچھنے کی کوشش
کی لیکن وہ ہر مرتبہ ٹال گئے۔ وحید حسینی نوے کی دہائی میں مارننگ نیوز
اخبار بند ہونے کے بعد، جنگ اخبار میں آگئے لیکن مارننگ نیوز اخبار میں
چھپنے والی ان کی اصطلاح رائج العام ہوگئی۔ یہ سیاستدانوں میں زیادہ مقبول
ہوئی اور اس کا ستعمال سیاسی تقریبات و اجلاسوں میں ہونے لگا۔ بیشتر سیاسی
رہنما اپنی تحریر و تقریر میں زور بیاں پیدا کرنے کے لئے "نورا کشتی" کی
اصطلاح استعمال کرنے لگے۔ یہ اصطلاح ،اڑتالیس سال گزرنے کے بعد آج بھی
مستعمل ہے لیکن اس کے موجد کے نام سے ناواقف ہیں۔
عبد الوحید حسینی روزنامہ جنگ کے رپورٹرز روم سے ٹرانسفر کرکے بھارت میں
جنگ کے نامہ نگار تعینات کئے گئے۔ وہ کافی عرصے تک وہاں خدمات انجام دیتے
رہے۔ اس کے بعد کراچی واپس آنے کے بعد گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگئے۔
|