سرمایا دارانہ نظام اور سوچ کی ایک واضح جھلک ہمیں ہر بار
اس وقت نظر آتی ہے جب کسان حضرات کی عید کا وقت آن پہنچتا ہے جی ہاں کسان
کے لیے فصل کی کٹائی کا موقع کسی عید سے کم نہیں ہوتا اور ان کا ہر بار اس
عید پراستحصال کیا جاتا ہے۔خاص طور پر ہاڑی کا موقع جس میں گندم کی فصل
نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔
اگر آپ کا تعلق کسان طبقے سے ہے تو یہ بات بخوبی جانتے ہونگے کہ کسان کی
تمام تر امیدیں فصل سے آنے والی آمدن سے وابستہ ہوتیں ہیں۔ان میں زیادہ تر
نے اپنے بچوں کی چھ چھ ماہ کی سکول فیس،دکان پر سودہ و سلف کا کھاتہ اسی سے
ادا کرنا ہوتا۔بیٹےاوربیٹی کی شادی اور دیگر بڑی ضروریات کا انحصار بھی اسی
آمدن پر مرکوز ہوتا ہے ۔میں کیونکہ خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں تو
اس سے بخوبی واقف ہوں۔کاشتکاری سے لے کر فصل کی پکائی تک کسانوں پر غیر
منصفانہ مہنگائی کے طوفان برپا کیے جاتے ہیں۔
ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری 16000 روپے،یوریا کھاد 5000-4500 روپے تک پہنچ
جاتی جس کی سرکاری قیمت 2800-2700 روپے ہوتی لیکن انتظامیہ کی ملی بھگت کی
وجہ سے سرکاری قیمت پر کبھی بھی کسان کو کھاد میسر نہیں آتی۔اگر کہیں پر
انتظامیہ عمل درآمد کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کرتی ہے تو مصنوعی قلت پیدا کر
دی جاتی ہے۔اس تمام تر استحصال کے باوجود جب آخر میں اجناس کی فروخت کا وقت
آتا ہے تو کسان کو اس کی محنت کا ثمر نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ ثمرات
سرمایادار نے لینے ہوتے اور غریب کسان بیچارے کے حصے میں صبر و استقامت ہی
آتا۔
بقول چی گویرا،
"وسائل پر قابض لوگ بھوک کو خدا کی آزمائش بتاتے ہیں۔"
کیا یہ آزمائش صرف غریبوں کی ہی ہے؟ کیا ایثار،قربانی اور صبر کے درس صرف
غریب کے حلق میں اتارنے کے لئے ہوتے؟
سارا سال آٹے کا فی من تھیلا 6000-5000 روپے کا رہا اور اب جب کسان کی باری
آئی کچھ ثمر لینے کی تو قیمت 3200-3000 روپے کر دی گئی ۔ جو کہ کچھ وقت کے
بعد جب یہ گندم آٹا فیکٹری مالکان کے گوداموں میں پہنچ جائے گی تو واپس پھر
اسی قیمت پر آ جانی۔تو وہ ثمرات جو آٹا فیکٹری مالکان لیے رہے ہیں وہ کسان
( جو کہ گندم مہیا کرنے والے ہیں) کیوں نہیں لے سکتے ؟
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے کا حصہ
ملکی جی ڈی پی میں 22.9 فیصد ہے اور روزگار مہیا کرنے میں 37.4 فیصد حصہ ہے۔
اور ورلڈ بینک کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 62 فیصد آبادی دیہات
میں رہتی ہے۔جو کہ یقینی طور پر بلواسطہ یا بلا واسطہ زراعت سے منسلک ہے ۔پاکستان
کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے تو اس کے روحِ رواں
کسان کا استحصال کیسے اور کب تک کر سکتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کسان
ریاست پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کی پکار کو عملی شکل دے دیں کہ۔۔۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اگر ستائے ہوئے کسانوں نے گندم جلا دی ( کیونکہ ستایا ہوا انسان کچھ بھی کر
سکتا ) تو ریاست پاکستان جو کہ ہر وقت نازک صورتحال سے گزر رہی ہوتی کیا
کرے گی ؟
|