"ح" مولوی حضرات کا پسندیدہ حرف ہے کیوں کہ اس سے "حلوہ "
بنتا ہے، وہ بچوں کو قاعدہ پڑھاتے ہوئے ان کے "حلق"سے "حلوہ" نکلوانے کی
کوشش کرتے ہیں۔ شب برات "مذہبی عبادات" کے علاؤہ حلوہ کا سالانہ تہوار بھی
ہوتا ہے، اسی کی مناسبت سے مسلم امہ کی ایک بیٹی نے عربی رسم الخط میں حلوہ
لکھے ڈیزائن والی قمیص پہنی اور اپنے شوہر کے ساتھ لاہور میں اچھرہ بازار
پہنچ گئیں۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ "ح" کے نیچے ایک نقطہ لگانے سے "ج"
بنتا ہے اور ح سے حلوہ، ج سے جلوہ بن کر اپنی جلوہ گری دکھاتا ہے جو اس کی
موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مذکورہ واقعے کے مرکزی کردار ایک مذہبی سیاسی
جماعت کے مقامی رہنما اپنے کارکنوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہے تھے۔ اس دن وہ
شب برات کا اتنا حلوہ کھاچکے تھے کہ اب انہیں حلوے کے نام سے بھی چڑ ہونے
لگی تھی اور وہ "مولوی حضرات" کی دوسری پسندیدہ خوراک "مرغی" تناول فرمانا
چاہتے تھے لیکن ان کے اہل خانہ بار بار ان کے آگے حلوہ رکھ دیتے۔ "تلاش مرغ"
میں دوپہر کے کھانے کے وقت اپنے کئی اعزا کے گھر گئے لیکن انہوں نے بھی
مولوی صاحب کے آگے مرغ مسلّم کی بجائے سوجی اور چنے کی دال کے حلوے کی پلیٹ
رکھی۔ اب تو مولوی صاحب کا پارہ "آب پارہ" تک جاپہنچا اور وہ غصے کے عالم
میں اپنے چند کارکنوں کے ہمراہ ریستوران میں مرغی کھانے کے لئے گئے لیکن
راستے میں ان کی نظر بازار میں خریداری کرنے والی ایک خاتون پر پڑی جن کی
قمیص پر جگہ جگہ عربی حلوہ آیات ربانی کی صورت میں چھپا ہوا تھا۔ یہ دیکھ
کر ان کی حلوے سے چڑ دو آتشہ ہوگئی اور وہ اس قمیص کو حلوے کی پلیٹ سمجھ کر
توڑنے پھوڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ انہوں نے موقع پر ہی سوموٹو لیتے ہوئے اسے
توہین مذہب کا مجرم قرار دیا اور سزائے موت سنا دی۔مذہبی انتہا پسندی کا
سہارا لے کر انہوں نے اچھرہ بازار میں طوفان برپا کردیا اور اس خاتون کے
پیراہن پر چھپی تحریروں کو آیات قرآنی قرار دے کر وہاں اکٹھا ہونے والے
افراد کے دلوں میں جوش ایمانی جگا کر مذہبی اشتعال پیدا کردیا اور صورت حال
یہ ہوگئی کہ لوگ خاتون کی قمیص کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کے بھی ٹکڑے کرنا
چاہتے تھے لیکن رب کائنات نے علاقہ کی اے ایس پی کو فرشتہ بنا کر بھیج دیا
جو اسے مشتعل ہجوم کے نرغے سے نکال کر لے گئیں اور اس کی جان بچی۔ لیکن اس
کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے، جس میں اس کا بچنا مشکل
ہوگا۔
|