"نورا کشتی" کی اصطلاح گزشتہ پچاس سال سے رائج العام ہے
لیکن اب اس اصطلاح کا استعمال سیاسی تقریروں اور بیان بازیوں میں زیادہ
ہوتا ہے۔ بعض سیاستدانوں کو جب دو مخالف جماعتوں کا مفاہمانہ رویہ پسند
نہیں آتا تو وہ ان کے سابقہ طرز عمل کو "نورا کشتی" کی بھپتی کے طور پر
استعمال کرتے ہیں۔
کشتی کا فن ہمارے ملک میں تقسیم ہند سے قبل بھی مقبول تھا اور کراچی سمیت
ملک کے زیادہ تر چھوٹے بڑے شہروں میں اس کے اکھاڑے بنے ہوئے تھے لیکن کسی
بھی اکھاڑے میں ہمیں "نور محمد"، یا "نورا" نام کا پہلوان نہیں ملا جس کے
نام سے نورا کشتی کی اصطلاح ایجاد ہوئی تھی۔ ان اکھاڑوں سے تربیت پانے والے
پہلوان ملکی و بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لے کر ملک و قوم کے لئے
انعامات و اعزازات جیتتے رہے اس دور میں پاکستان کے کئی پہلوان عالمی شہرت
کے حامل رہے، خاص طور سے 90 کی دہائی تک بھولو خاندان کی پاکستان میں کشتی
کے کھیل پر حکمرانی رہی۔ یہ خاندان پاکستان بننے سے قبل سے اس کھیل سے
وابستہ تھا۔ 1910 میں ہندوستانی پہلوان، غلام محمد بخش عرف "گاما" پہلوان
نے ایک عالمی مقابلے میں برطانوی پہلوان "زیسکو" کو شکست دے کر رستم زماں
کا خطاب حاصل کیا تھا۔ رستم زماں کے ٹائٹل پر کئی عشرے تک ان کے خاندان کی
حکمرانی رہی۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں یہ اعزاز گاما پہلوان کی دوسری نسل
اور رستم ہند امام بخش کے بڑے صاحب زادے، رستم زماں منظور احمد عرف بھولو
پہلوان کے پاس تھا۔ 1970 کے عشرے میں کشتی کے کھیل میں جاپانی پہلوان،
انٹونیو انوکی معروف ہونے لگے۔ انہوں نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں
فتوحات حاصل کیں۔ان کا سب سے بڑا مقابلہ مشہور باکسر محمد علی کلے سے ہوا
جو برابر رہا تھا۔ اس دور میں یورپ اور ایشیا میں فری اسٹائل کشتی کا رواج
ہوا۔ کشتی کے مقابلوں کے دوران انٹونیو انوکی کا ایجاد کردہ " انوکی لاک"
بہت مقبول ہوا۔
1976 میں انوکی نے بھولو پہلوان کو کشتی لڑنے کا چیلنج بھیجا جسے ان کی
بجائے ان کے چھوٹے بھائی اکرم عرف اکی نے قبول کیا۔ دونوں پہلوانوں کے
آفیشلز نے مقابلے کی تاریخ اور مقام طے کیا۔ 10دسمبر کوانٹونیو انوکی اپنی
سہ رکنی ٹیم کے ساتھ پاکستان پہنچے۔ 12/دسمبر 1976 کو کراچی کے نیشنل
اسٹیڈیم میں مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ اکی اور انوکی کے مقابلے سے قبل
بھولو برادران کے سب سے چھوٹے بھائی منظور عرف گوگا اور انوکی کے شاگرد "ہروکا
ایگن" کے درمیان افتتاحی مقابلہ ہوا۔ لیکن یوں لگ رہا تھا کہ اصل فائیٹ سے
قبل اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں اور ٹیلیویژن پر گھر میں بیٹھ کر میچ
دیکھنے والے افراد کی دل بستگی کے لئے مزاحیہ پروگرام پیش کیا جارہا ہے۔ یہ
مقابلہ یکطرفہ ثابت ہوا اور گوگا پہلوان نے یہ کشتی باآسانی جیت لی۔ اکرم
اور انوکی کے درمیان کشتی کے دوران انوکی نے اکرم کو زیر کرنے کے لئے اس کی
کلائی میں انوکی لاک لگایا۔ اکی پہلوان نے اس دائو سے نکلنے کے لئے کشتی کی
جدید تیکنیک سے نابلد ہونے کی وجہ سے روایتی ترکیب ازمائی۔ اس زور آزمائی
کے نتیجے میں ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا اور وہ ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہوگئے۔ 1979
میں ان کے بھتیجے زبیر عرف جھارا پہلوان نے اپنے چچا کی شکست کا بدلہ انوکی
سے ایک مقابلے میں لے لیا۔
اس زمانے میں عبد الوحید حسینی نیشنل پریس ٹرسٹ کے انگریزی اخبار، روزنامہ
مارننگ نیوز میں اسپورٹس رپورٹر تھے۔ انہوں نے اس کشتی پر تنقید کرتے ہوئے
اپنی خبر میں "نورا کشتی" کی اصطلاح متعارف کرائی۔ میں بھی اس دور میں
مارننگ نیوز اخبار میں ملازم تھا، اس لئے وحید حسینی سے میری روزانہ ملاقات
رہتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ "نورا کشتی" کی اصطلاح کا مطلب پوچھنے کی کوشش
کی لیکن وہ ہر مرتبہ ٹال گئے۔ وحید حسینی نوے کی دہائی میں مارننگ نیوز
اخبار بند ہونے کے بعد، جنگ اخبار میں آگئے لیکن مارننگ نیوز اخبار میں
چھپنے والی ان کی اصطلاح رائج العام ہوگئی۔ یہ سیاستدانوں میں زیادہ مقبول
ہوئی اور اس کا ستعمال سیاسی تقریبات و اجلاسوں میں ہونے لگا۔ بیشتر سیاسی
رہنما اپنی تحریر و تقریر میں زور بیاں پیدا کرنے کے لئے "نورا کشتی" کی
اصطلاح استعمال کرنے لگے۔ یہ اصطلاح ،اڑتالیس سال گزرنے کے بعد آج بھی
مستعمل ہے لیکن اس کے موجد کے نام سے ناواقف ہیں۔
عبد الوحید حسینی روزنامہ جنگ کے رپورٹرز روم سے ٹرانسفر کرکے بھارت میں
جنگ کے نامہ نگار تعینات کئے گئے۔ وہ کافی عرصے تک وہاں خدمات انجام دیتے
رہے۔ اس کے بعد کراچی واپس آنے کے بعد گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگئے۔
|