نیرنگ ِ سخن (شعری مجموعہ) زین صدیقی
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
نیرنگ ِ سخن (شعری مجموعہ) زین صدیقی ٭ پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پروفیسر ایمریٹس: منہاج یونیورسٹی (یہ مضمون شعری مجموعہ کی تقریب ِ رونمائی زیر سرپرستی اور قیام گاہ پروفیسر ڈاکٹر مسلم شمیم صاحب کی قیام گاہ واقع نارتھ کراچی میں بروز اتوار بتاریخ 19مئی 2024ء میں بہ حیثیت مہمان خصوصی پڑھا گیا، تقریب کی صدارت ڈاکٹر عابد شیرانی نے کی، نظامت کے فرائض پروفیسر صفدر علی خان نے سر انجام دیے، پروگرام کے کوآرڈینیٹر شہزاد سلطانی تھے) شیخ زین العابدین صدیقی زین صدیقی تخلص رکھتے ہیں، ان کا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے اس بات کا کھوج لگایا کہ اس سے قبل بھی کوئی مجموعہ منظر عام پر آیا یا نہیں لیکن ناکامی ہوئی۔ ان کے کہنے کے مطابق انہیں شعر و شاعری سے جڑے 47برس ہوچکے، درس و تدریس سے وابستہ رہے قانون کے پیشے سے بھی تعلق ہے یا رہا ہے۔ نامور وکیلوں کی موجودگی پتا دے رہی ہے کہ شاعر موصوف کا کچھ نہ کچھ تعلق کالے کوٹ سے بھی ہے۔ شاعر ِ موصوف نے اپنے آپ کو فطری طور پر باغی اور انقلابی شاعر لکھا ہے۔ ان کے کلام سے یہ احساس نمایاں ہوتا ہے کے موصوف واقعی انقلابی سوچ کے مالک ہیں۔ جس شاعر کو نامی گرامی شاعریا شاعروں کی سرپرستی حاصل ہو وہ کیسے انقلابی شاعر نہیں ہوگا۔دیکھئے ایک شعر ؎ زمانے سے بغاوت ہوگئی ہے مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے زین صدیقی کو دو نامور شخصیات کی سرپرستی یا ان کاشاگردہونے کا اعزاز حاصل ہوا ایک علامہ سطوط میرٹھی اور دوسرے معروف استاد پروفیسر شوکت اللہ جوہر۔ دونوں احباب نے جناب زین صدیقی کی شاعری میں اصلاح فرمائی۔ پروفیسر شوکت اللہ جوہر نے زین صدیقی کے کلام کے بارے میں فلیپ میں لکھا کہ ”آپ کا زیادہ تر کلام سہل ممتنع میں ہے جو لکھنوی انداز کا کلام ہے۔ جس میں عشوہ طرازی محبوب کے ساتھ غم جانا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ایک شعر ادیکھئے ؎ چھوڑ کر وحدتِ قبیلہ کو بٹ گئے لوگ خاندانوں میں ایک جگہ کہتے ہیں ؎ خدا کا یہ احسان مجھ پر ہوا فلک سے صحیفے اُترنے لگے ہیں جو اپنے آپ کو انسان بنا نہیں سکتا خدا کے قہر سے خود کو بچا نہیں سکتا بات لکھنؤ کی آئی تو اتنا کہنا تو بنتا ہے کہ اردو شاعری کی اثاث دلی اور لکھنؤ دبستان ہیں۔ دبستانِ دلی کی شاعری داخلیت پسندی کے گرد گھومتی ہے جس میں سوز وگداز، درد مندی، غم والم، تصوف، حسن و جمال، احساسات ِ حسن، خوبصورت تشبیہات، شفتگی و ترنم،خلوص، سادگی، صداقت، خطابیہ انداز پایا جاتا ہے۔جب کہ دبستان لکھنؤ کی اپنی ایک شناخت ہے،انفرادیت ہے، یہاں کے شعراء میں خارجیت کارنگ پایا جاتا ہے۔ خارجیت پسندی میں لکھنؤ کا دبستان اتنے آگے نکل گیا تھا کہ وہ شعراء جو دہلی سے لکھنؤآئے جو داخلیت پسندی لیے ہوئے تھے انہیں بھی اپنے طرز اظہار میں خارجیت پسندی کو اختیار کرنا پڑا۔ جیسا کہ مصحفی ؔ نے کیا، مصحفیؔ پر تو سخت تنقیدبھی ہوئی یہاں تک کہ انہیں یہ تک کہہ دیا گیا کہ ان کا اپنا کوئی رنگ نہیں، اس کے باوجود انہیں شاعری میں منفرد اور یکتا مقام حاصل ہے۔آتشؔ میں بھی دلی اور لکھنؤی رنگ و روپ نمایاں تھا۔ میرؔ بھی لکھنؤ گئے تھے۔ شررؔ نے لکھنؤ کو مشرقی تمدن کا آخری نمونہ قرار دیا۔ لکھنؤ کے دبستان میں دلی کے برخلاف شاعری میں داخلیت کے بجائے خارجیت بنیاد تھی، سلاست، بے ساختگی کی بجائے الفاظ کی شعبدہ بازیاں زیادہ تھیں، کھلا پن اور نزاکت جسے تنقید نگاروں نے نسوانیت کہا، کسی حد تک بات کو کھلے انداز سے کہنا، جو بات کہنی ہے ا س میں لگی لپٹی نہیں رکھنی، بلکہ صاف صاف کہہ دینا لکھنؤ کے شعراء کا رنگ تھا،لکھنؤی دبستان میں اپنے آپ کو علمی اعتبار سے بر تر ظاہر کرنے کی روایت پائی جاتی تھی، یعنی عام سی بات کو پر تکلف انداز میں بیان کرنا لکھنؤی شاعری کا ایک خاص وصف تھا اور علمیت و فضیلت کی دلیل تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود لکھنؤ دبستان ِ شاعری نے اردو زبان و ادب کو وسیع علمی ذخیرہ سے مالا مال کیا۔ اردو کی ادبی تاریخ میں لکھنؤ ی شاعری دبستانوں کی تاریخی، سماجی اور ادب کی منفرد ترویج، زبان و بیان کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں۔لکھنئو شاعروں کا شہر، اردو کی ترویج و ترقی کا شہر، ادیبوں اور دانشوروں کا منبع و مرکز، اردو تہذیب و تمدن کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا آغاز لکھنؤ سے ہوا۔ لکھنؤ کے دبستان میں جو نرمی، پیار، ٹہراؤ، بھینی بھینی خوشبو ہے اس کا ثانی نہیں۔ دیکھئے زین صدیقی کا یہ شعر لکھنؤی انداز کی ایک جھلک نظر آئے گی ؎ پہلے موسم پہ جو نکھار آیا ذین کو پس تمہی سے پیار آیا شاعر موصوف نے اپنے دونوں اساتذہ کے علاوہ یہ بھی واضح کیا کہ ”شعوری وار لاشعوری طور پر شاعری کے اس سفر کے اول رہنما و استاد خود ان کے قبلہ والد محترم نورالعابدین رسوا ہیں۔ گویا ان کے والد محترم بھی شاعرتھے اور زین صدیقی کو سخن گوئی ورثہ میں ملی۔ جسے بعد میں انہوں نے بنا یا،سنوارا، اساتذہ سے رہنمائی نے انہیں ایک اچھا شاعر بنا دیا۔ حقیقت یہ ہے شاعر موصوف کی غزلیں روایت سے جڑی ہوئی ہونے کے باوجود عصری شعور سے بے بہرہ نہیں ہیں۔ روایت اور عصری آگہی کے امتزاج نے ان کے احساس طبیعت سے خوب کام لیا ہے اور ان سے گرانما یہ شعر بھی کہلوئے ہیں۔ کم نصیبی سہی مگر اے زین ٹھوکریں کھا کے دل سنبھلتا ہے شاعر موصوف نے خوشی اور افسردگی کی کیفیات کو اپنے شاعری میں خوبصوورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں آج کے انسان کے دکھ ہیں، ان کی خوشی اور مسرتوں کے رنگ نمایاں ہیں۔ وہ اپنے عہد کی سچائیوں سے واقف ہیں اور مصلحت و عنایت کے رویے سے بھی جس کو ہم اختیار کرنے پر مجبور ہیں کہ درمیانی راہ یہی ہے۔ شعر دیکھئے ؎ کردار سے کرنی ہے ہمیں اس کی حفاظت اسلاف نے ورثے میں ہمیں گھر یہ دیا ہے مختصر بحروں میں شاعر نے اپنی فنی دسترس اور سہلِ ممتنع کا مظاہرہ خوبصورت طریقے سے کیا ہے اور قاری کو غزل کی ایک رومانوی کیفیت سے روشناس کرایا ہے۔ دل میں اک درد سا یہ اٹھتا ہے مجھ سے مل کر جو تو بچھڑتا ہے زین صدیقی نے وہ علامتیں استعمال کی ہیں جو ایک زمانے میں مقبول عام تھیں جیسے زمزمہ، ساغر، مے خانہ، ٹیلی پیتھی،دیا، ساقی، مے کش، زلفیں،جنوں،زلفیں،دھمال،چاک گریباں، جاں نثاروغیرہ ؎ جب بھی ان کا خیال آتا ہے گم سا ہوتا ہون میں گمانوں میں دوستوں سے کنا رہ کش ہوکر چھپ کر بیٹھا ہون آستانوں میں انہوں نے شعری تجربات یا صنعتوں کا استعمال نہیں کیا، اس لیے کہ وہ عصر ِ حاضر کے شاعر ہیں۔ دوسری طرف مشکل ترکیبیں اور کثرت سے اضافتیں استعمال نہیں کیں ہیں۔ روایتی مضامین باندھے ہیں مگر سادگی،سہل پسنددی اور رعنائی کے ساتھ۔ زین میرا بھر گیا ہے فانی دنیا سے یہ دل چھوڑ کر جانا پڑے گا اپنا کاشانہ مجھے وہ کسی خاص مکتبہ فکر کے شاعر نہیں ہیں اور نہ ہی کسی مخصوس نظریے کا اظہار شاعری میں نظر آتا ہے، ان کا نظریہ صرف شعر ہے، ان کے اندر شاعری کی خداداد صلاحیت موجود ہے‘۔وہ اپنے شہر، ارد گرد کے حالات اور واقعات سے بے خبر دکھائی نہیں دیتے۔ اپنی ایک نظم ”مہاجرسپوتوں کے نام“ میں اپنے اندر کی کیفیت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے دکھائی دیتے ہیں ؎ پانچویں قوم ہیں اس میں کوئی اوہا م نہیں چار قومیں ہیں تو پھر پانچویں الزام نہیں ہیں بانیانِ وطن ہم مہاجروں کے سپوت حقوق دو ہمیں مانو برائے نام نہیں غزل اور نظم شاعری کی تمام اصناف زین صدیقی کے مزاج سے بھر پور مطابقت رکھتی ہے۔ ان کی غزلوں، نظموں میں خلوص و محبت کی چاشنی ان کے رگ و پے میں رچی بسی ہے۔ وہ خلوص و محبت کے پیکر ہیں۔ زین صدیقی کی شاعری سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ تخلیقی مزاج کے مالک ہیں۔ ان کی شاعری تمام تر تخلیقی اظہار سے مرصع ہے۔ وہ شاعر ہیں۔ الفاظ کو خوبصورتی سے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ وہ شاعری کے فنی تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ الفاظ و معنی سے واقف ہیں، وہ کسی بھی بات کو شعر کے پیرائے میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ دیکھیے ان کا ایک شعر۔ زلفِ جانا کا بہر طور تمنائی ہوں آپ کے عارضِ گل گوں کا میں شیدائی ہوں کشمیر کو بھی شاعر نے اپنا موضوع بنایا اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہر ذی شعور پاکستانی کے دل کی آواز ہے ؎ کشمیر کے خواب کی تعبیر اور تقدیر کشمیر پاکستان پاکستان ہے کشمیر مظلو ہیں کب تک سہیں یہ ظلم تمہارا دشمن کے بیچ کھینچ دی سو ہم نے ایک لکیر پیش نظر مجموعہ زین صدیقی کے شاعر ہونے بلکہ غزل گو ہونے کی گواہی دیتا ہے لیکن انہوں نے نظم بھی کہی، حمدباری تعالیٰ، نعت نبی ﷺ، سلام، دعا، مناجات، قطعات، نظمیں، منقبت، مسدس، مخمس، قصیدہ، سپاس نامہ، مثنوی، ہجو، مرثیہ،نوحہ، سہرا، مثلث، آاادنظم اور نغمہ شامل ہیں۔ شاعر کے کلام میں شائستگی ہے، شستگی ہے، خوش آہنگی ہے، خوش ذوقی ہے، رعنائی ہے، قرینہ ہے اور سلیقہ ہے۔آخر میں شاعر موصوف کے ایک مصرعہ پر اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں ؎ بے ربط بولنے کی ضرورت کیا ہے (19مئی2024ء)
|