”شوق کاسفر “ از محترمہ سلیم عالم ۔ میری نظر میں
شہزا د نیاز
محترمہ سلیم عالم کسی تعریف اور تعارف کی محتاج نہیں ۔ پیشے کے اعتبار سے
معلمہ ہیں تاہم علم وادب سے لگاؤ کا جو خاندانی ورثہ انہیں منتقل ہوا ہے اس
کی مزید آبیاری میں تن و من سے یہ پیہم مصروفِ عمل ہیں۔ جس کا نتیجہ آپ نے
ان کی پہلی تین تصانیف بالترتیب:
۱۔قصہ شہر نوردی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2002ء
۲۔مرٹن، ہماری بستی۔ہمارا گھر ۔۔۔۔۔۔ 2002ء
۳۔اک جہاں تازہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2006ء
کی صورت میں دیکھا اور اب ان کی چوتھی ادبی کارستانی ”شوق کا سفر “کی صورت
میں آپ کے سامنے ہے۔ سلیم عالم کے پہلے تینوں سفر ناموں کو ادبی حلقوں میں
خوب پذیرائی ملی۔اور مجھے یقین ہے اور دعا بھی ہے کہ ”شوق کا سفر“ کو ان
تینوں سے زیادہ کامیابی ملے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی مصنف کی قوتِ مشاہدہ ؛ پروازِ تخیل ؛ زورِ بیان
اور اُس کی پہلے سے شائع شُدہ تصانیف کے تجربے اور فیڈ بیک کے نتیجہ میں جو
پختگی اور نکھار مصنف کے اندازِ تحریر میں آتا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے
کہ ہر اگلی تصنیف پہلے سے بہتر ہو اور اسے پہلی تصانیف سے کہیں بہتر
پذیرائی ملے۔ سلیم عالم کی پہلی تصانیف میری نظر سے نہیں گزری ہیں تاہم
مصنفہ کی زیرِ تبصرہ کتاب شوق کا سفر کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں میرا
گُمان یہی ہے اُنہوں نے اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اپنے سفری مشاہدے
کو پہلے سے کہیں بہتر انداز میں حالیہ تصنیف میں قلمبند کیا ہے۔
سفر نامہ لکھنا دیگر اصنافِ ادب کی نسبت خاصا مشکل ہے اور یہ ایک عملی مشق
کے نتیجے میں وجود پاتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ادیب ہیں تو بغیر کوئی
سفر کئے گھر بیٹھے محض اپنے زورِ قلم کے بل بوتے پر ایک سفر نامہ لکھ
ڈالیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادیب کا زاویہِ نگاہ عام انسانوں سے قدرے مخلتف
ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی اگر کوئی سفر کرتا ہے اور اس سفر کی روداد اپنے ارد
گرد لوگوں کو بتاتا ہے تو وہ معلومات بالکل سطحی ہو سکتی ہیں اور ہو سکتا
ہے کہ اس کی معلومات کا دائرہ صرف اپنے ان سفری مشاہدات کا احاطہ کرے جو
اسے پسند ہیں۔ جبکہ ایک ادیب بالخصوص سفر نامہ نگار کا مشاہدہ محض اپنے
مشاہدے کے پسندیدہ گوشوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی ذات سے با ہر نکل
کر ایک سفر نامہ کے قاری کی حیثیت سے اپنے گرد و بیش کا جائزہ لیتا ہے ۔
چونکہ ہر قاری دوسرے قاری سے مزاجاً مختلف ہوتا ہے اور سفر نامے میں دلچسپی
کا پہلو بھی ہر ایک کا مختلف ہو سکتا ہے تو سفر نامہ نگار کو اپنی سفری رُو
داد قلمبند کرتے ہوئے اپنے تمام مختلف المزاج قارئین کی دلچسپی کو مدِ نظر
رکھتے ہوئے اپنی پسند کے حالات ، واقعات اور مقامات کے تذکرہ کےساتھ ساتھ
ان تمام حالات، واقعات اور مقامات جن کے مشاہدے سے وہ گزرا ہے کا تذکرہ بھی
کرنا پڑتا ہے جو عمومی حالات میں سفر نامہ نگار کو نا پسند ہوتے ہوں۔ اور
میری نظر میں یہی ایک کامیاب سفر نامے کی اور سفر نامہ نگار کی خوبی ہونی
چاہئیے۔
”ڈاکٹر روف پاریکھ” اردو کے دس بہترین سفر نامے“ کے عنوان سے اپنے مضمون
میں لکھتے ہیں کہ سفرنامے کے ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سفرنامہ صرف کسی
ملک یا شہر کی تاریخ، جغرافیہ اور سماجی حالات کے بیان کا نام نہیں ہے ۔
بلکہ سفرنامہ نگار جب تک اپنے ا حساسات ، مشاہدا ت اورتاثرات میں قاری کو
شریک نہیں کرتا اور قاری کو اپنے اندر کی دنیا میں جھانکنے کا موقع نہیں
دیتا تب تک سفرنامہ محض خارج کی دنیا کا بیان اور واقعات کی کھتونی ہی رہتا
ہے۔“
محترمہ سلیم عالم نے ۲۲۴ صفحات کے اس سفر نامے میں آٹھ مختلف ممالک کے سفری
دوروں کی رُوداد کو قلمبند کیا ہے۔جس میں اسپین؛ جبرالٹر؛ تھائی لینڈ؛
بلجیم؛ لبنان؛ اردن؛ روس اور ایران جیسے ممالک کی سیاحت کا احوال شامل ہے۔
حالانکہ ایسا ہو سکتا تھا کہ آٹھ مختلف سفر نامے علیحدہ علیحدہ جلدوں میں
ہمارے سامنے آ سکتے تھے۔ سفر نامہ لکھتے ہوئے بیان بالاختصار کے انداز کو
اپنانے کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہیں کہ مصنف نے یہ پہلے سے ہی ارادہ کر
لیا ہو کہ اسے اپنے سفر نامے کو صرف اپنے سفرکی رُوداد کے بیان تک ہی محدود
رکھنا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس صفت کے حامل سفر نامے کو میَں سفر نامے کی
بجائے مصنف کی سفری یاداشتوں پر مبنی ڈائری کہنا زیادہ مناسب سمجھوں گا۔آپ
اگر غیر اردو ادب کے سفر ناموں مثلاً :
◆ ” مارکوپولو کا سفر نامہ “ 1254ء تا 1324 ء
◆ ابنِ بطوطہ کا سفر نامہ ”عجائب الاسفار فی غرائب الدیار“ 1304ء تا 1368 ء
◆ کرسٹو فر کولمبس کا سفر نامہ ” جرنل آف دی وائجز آف کرسٹوفر کولمبس“
1451ء تا 1506 ء
پر ایک تکنیکی زاویے سے نظر ڈالیں تو آپ کو ان سفر ناموں میں مسافر کی سفری
رُوداد کے علاوہ اس کے سفری مشاہدے کے کئی ایسے پہلو اور جہتیں عیاں ہونگی
جو ایک عام ادیب یا مسافر کے مشاہدے کا خاصہ نہیں ہو سکتیں۔ کم و بیش یہی
اندازِ تحریر اور وصف اردو کے قدیم سفر ناموں مثلاً :
◆ یوسف خان کمبل پوش کا سفرنامہ ”عجائبات فرنگ“
◆ مولانا شبلی نعمانی کا ”سفر نامہ روم و مصر و شام“
◆ سر عبدالقادر کا ”نقشِ فرنگ“؛ اور
◆ محمود نظامی کا ”نظر نامہ“میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
ان سفر ناموں کے ذریعے ہمیں ایک تو مصنف کی خود اپنی سفری داستان اور پھر
اس کے ساتھ ساتھ اس کے سفر کی مختلف منازل سے جڑی وہاں کی مقامی داستانیں
جنہیں مصنف اپنے ساتھ پیش آئے حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے ہم آمیز کرتا
ہے سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔
عصرِ حاضر کے سفر نامہ نگار وں میں خواجہ احمد عباس ؛ جمیل الدین عالی؛
بیگم اختر ریاض الدین؛ ابنِ انشاء اور مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں کا ہم
جائزہ لیں تو ان میں ہمیں یہ عنصر دکھائی دیتا ہے۔میں قلتِ وقت کے سبب سفر
نامے کے تکنیکی پہلوؤں پر بحث سے گریز کرتے ہوئے محترمہ سلیم عالم کے شوق
کا سفر کی طرف آتا ہوں۔
اس سفر نامہ میں محترمہ نے جہاں اپنے جذبات کا اظہار اس سفری روداد کو
لکھتے ہوئے نثری انداز میں کیا ہے وہاں ان کے اندر کے شاعر نے بعض جگہ
بیخود ہوتے ہوئے اپنے سفری مشاہدے کو بیان کرنے کے لئے منظوم انداز بھی
اختیار کیا ہے۔ یہ انداز میرے علم کے مطابق شاید پہلے کسی سفرنامہ نگار نے
نہیں اپنایا۔ دوسرا یہ کہ بے شک بلاشبہ مصنفہ نے اختصار کا انداز اپنایا ہے
لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشاہدے کو سرسری طور پر
بیان کیا ہے بلکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اس کے پسِ منظر میں جو ضمنی یا
بظاہر اوجھل باتیں ہیں ان سے بھی اپنے قاری کو آگاہ کیا ہے۔ اس سفر نامے کے
مطالعے کے بعد اس اختصاریہ بیانِ انداز کی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے وہ
یہ کہ ہر مقام سیاحت پر ان کے قیام کا دورانیہ غالباً مختصر رہا ہے اور
انہوں نے صرف انہی حالات، واقعات اور مقامات کا تذکرہ کیا جن کے مشاہدے سے
وہ خود گزری ہیں۔
میں آخر میں ایک مصنفہ کے دورہ روس کی روداد سے اپنی پسند کا مختصر اقتباس
آپکی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اجازت چاہوں گا:
”میوزیم یا بسا بسایا گاؤں:
ہماری اس ٹرپ میں روسی کسانوں اور کاریگروں کے وہ محلے بھی شامل تھے جہاں
وہ غلامانہ دور میں رہ رہے تھے ۔ہم اور شاہد ہ با جی پوساد اور نووگارد کے
اطراف کے گاؤں میں بھی گئے اور خاص کر وہ محلے دیکھے جہاں ان کسانوں اور
کاریگروں کے گھروں کو ایک لوگ ورثہ میوزیم کی شکل دے دی گئی ہے ۔یہ میوزیم
ایک کھلے علاقے میں بنا ہوا تھا جیسے کہ لوگ اب بھی یہاں رہتے ہوں۔ چند
عورتیں اپنے روایتی روسی لباس میں اب صبح سے شام تک یہاں ڈیوٹی کرتی ہیں
اور ساتھ ہی ہاتھ سے بنے ہوئے دستکاری کے نمونے بیچ کر اپنا خرچہ پورا کرتی
ہیں۔ یہ گاؤں روس کا اپنے ماضی سے گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
چودہویں صدی میں کسانوں اور بیگار میں کام کرنے والوں کو یورپ میں کچھ
رعایتیں ملی مگر سوویت روس میں اٹھارویں صدی زار ِروس کے دور حکومت میں بھی
زندگی اسی کسمپرسی کے عالم میں گزررہی تھی ۔اس کے بعد اسٹلن اور پھر لینن
کی بالشویک اور پھر کمیونزم کی تحریک نے غلامی کی اس لعنت کو دور کرنے اور
کسانوں کو ان کے حقوق کا احساس دلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
یہ گھر عام طور پر دو منزلہ لکڑی سے بنے مکان تھے ۔نیچے کی منزل میں زیادہ
تر کشادہ اصطبل تھے جہاں ان کے جانور اور مویشی رکھے جاتے تھے اور ساتھ ہی
ایک بڑا سا گیراج جہاں کھیتی باڑی کے اوزار اور دیگر کام کرنے مثلاً لکڑی
کاٹنے کی جگہ بنی ہوئی ہے ۔ چونکہ ماسکو اور اس کے اطراف میں درجہ حرارت
نقطۂِ انجماد سے بھی بہت نیچے چلا جاتا ہے اس لیے یہاں رہنے کے کمرے بہت ہی
تنگ تھے ۔باورچی خانہ اور سونے اٹھنے بیٹھنے کے کمرہ نسبتا بڑا ہوتا تھا
جہاں بچے اور بڑے اپنے دن کا زیادہ وقت گزارتے تھےعورتیں سلائیاں کرتی اور
تمام گھر والے کھانا کھاتے تھے ۔
گھر والوں کے لیے سونے کی جگہیں نہایت مختصر تھیں ۔ غربت انتہا یہ تھی کہ
پورے خاندان میں صرف سربرا یعنی باپ یا داد کو ہی سونے کے لیے ایک چارپائی
نما ٹیبل ملتی تھی جس کو وہ دن میں کام کے لئے استعمال کرتا اور رات کو اسی
پر سوتا تھا ۔
عورتوں کے لیے باورچی خانے ہی میں جگہ نکلتی تھی ۔استعمال کے برتن بھی
نہایت مختصر ہوتے ہیں ۔ایک بڑا سا پتیلا جس میں سبزیاں اور کبھی کبھی گوشت
ابالا جاتا اور اس دن گھر والوں کی ضیافت ہو جاتی ۔ اناج کو محفوظ کرنے کےا
سٹور بھی نہایت احتیاط اور کاریگری کے ساتھ بنائے جاتے کہ ان میں پورا
خاندان کے لیے سال بھر کا اناج محفوظ ہوتا ۔
اولاد کی بہتات تھی سو بچوں کے سونے کے لیے نہایت تنگ پر چھتی ہوتی تھی
جہاں چار پانچ بچے لیٹے لیٹے ہی اندر داخل ہو سکتے تھے اور اسی طرح باہر
نکلتے۔ باتھ روم کا تو خیر ذکر ہی کیا اصطبل میں جہاں گھوڑے گدھے بندھے
ہوتے وہیں گھر والے بھی حاجت ضروری سے فارغ ہو جاتے ہیں یا پھر جنگل جاتے
یہ ہندو پاکستان کے چند پسماندہ گاؤں میں آج بھی ہوتا ہے۔“
اس کے ساتھ ہی میں تمام حاضرینِ مجلس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے توسط سے
جڑے اپنے ان تمام ناطرین و سامعین کو تجویز دوں گا کہ آپ ”شوق کا سفر “کو
ضرور پڑھیں اور محض ایک کتاب کی قیمت میں آٹھ مختلف ملکوں کی سیاحت اور ان
کی تہذیب و ثقافت سے آشنا ہونے کا لطف اٹھائیں۔
|