مودی اور مسلمان : گرگٹ کے رنگ مگر مچھ کے آنسو

وزیر اعظم نریندر مودی کے اعصاب پر فی الحال مسلمان سوار ہیں۔ وہ ایک دن مسلمانوں سے قربت کا تو دوسرے نفرت کااظہار کرتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر ان کا کریں تو کیا کریں ؟ اس طرحمسلمانوں کو حاشیے پر پہنچانے والوں نے انہیں انتخابی مہم کا مرکزو محور بنادیا اور ’م‘ فیکٹر چھاگیا ۔ اب تو لوگ طنزاًمختلف مراحل کو اس طرح بیان کرنے لگے ہیں کہ پہلے مرحلے میں مسلمان درانداز تھے ۔ دوسرے منگل سوتر اور بھینس چور ہوگئے۔ تیسرے میں حزب اختلاف پر مسلمانوں کو ڈرا نے کاالزام لگا۔ چوتھے میں وزیر اعظم نے اعلان فرما یا کہ منگل سوتر سے متعلق زیادہ بچوں والے سبھی مذاہب کے غریب لوگ ہیں۔ ان کی مسلمانوں سے دوستی ہے اور انہوں نے عید منائی ہے۔ آگے کی مضحکہ خیز پیشنگوئی یہ ہے کہ پانچویں مرحلے کے بعد مبادہ اعلان ہوگاکہ وہ مسجد جاتے ہیں ۔ چھٹے کے بعد ممکن ہے وہ روزے رکھنے کا اعتراف کرلیں اور ساتویں کے بعد بعید نہیں کہ حج پر جانے کا ارادہ فرمالیں ۔ ویسے وہ اگرحج کو نکل جائیں تو لوگ دعا کریں گے کہ اپنے دوست نواز شریف کی مانند وہیں کے ہورہے ہیں یا جھولا لندن چلے جائیں ۔ خیر یہ تو ہنسی مذاق کی بات ہے۔

پہلے مرحلے سے قبل جب تک مودی جی پر اعتماد تھے تو انہیں مسلمانوں کی یاد کم آتی تھی مگر زعفرانی رائے دہندگان کی سرد مہری نے دھنستے کمل کی خاطر مسلمانوں کے سہارا لازمی کردیا ۔ وزیر اعظم کے دباو میں آتے ہی انہیں کانگریس کے منشور میں قائد اعظم جناح اور مسلم لیگ نظر آنے لگی۔ مٹن اورمچھلی کھانے والے تیجسوی یادو کو مسلمانوں کی خوشنودی سے جوڑ اگیا۔ رام مندر کے تعمیرکو مرکزی موضوع بنانے کی کوشش کیگئی تو پتہ چلاکہ رائے دہندگان رام مندر کی تعمیر کا کریڈٹ سپریم کورٹ کے فیصلے اور عوامی چندے کو دیتے ہیں اوران میں سے بیشتر مندر سے اوب یا بھول چکے ہیں ۔ مندر میں عوام کی عدم دلچسپی کا اندازہ رام نومی کے موقع پر ہوا جب ملک بھر سے تین لاکھ لوگوں کو مفت میں ایودھیا کی سیر کرانے والے ہزار جتن کے بعد بھی جملہ ۶؍ ہزار لوگوں کو ایودھیا لاسکےیعنی کامیابی کی شرح صرف دو فیصدتھی ۔ اتفاق سے سی ایس ڈی ایس کے سروے نے بھی ہندو توا میں دو فیصدعوام کو دلچسپی کا انکشاف کیا تھا ۔ اس طرح ’جو رام کو لائے ہیں ،ہم ان کو لائیں گے‘ والا نعرہ دریا برد ہوگیاکیونکہ لوگوں نے کہا بی جے پی رام کو نہیں لائی بلکہ وہ ہمیشہ سےایودھیا میں موجود تھے اور رہیں گے ۔اس لیے کو ٹھنڈے بستے کی نذر کردیا گیا۔

چوتھے مرحلے تک جبمودی جی کے تمام حربے ناکام ہوگئے تو لا محالہ رام مندر کی جانب لوٹنا پڑا۔ اس کےلیے پہلے سابق کانگریسی اچاریہ پرمود کرشنن سے اعلان کروایا گیا کہ کانگریس رام مندر پر قفل لگادے گی ہے ۔ اس معاملے میں تڑکا لگانے کے لیے رام مندر پربابری تالے کا شوربپاکیا گیا مگر رام کے اصلی بھگتوں نےیاد دلایا کہ بابری مسجد پر قفل لگانے کااوراسے کھولنے کا فیصلہ کانگریس نے کروایا تھا؟ رام مندر پرتالے کی کہانی ٹائیں ٹائیں فش ہونے لگی تو مودی جی نے کانگریس پر بلڈوزر چلا نے کا الزام لگادیا۔ اسے یوگی سے یہ سیکھنے کی صلاح بھی دی کہ وہ کس پر بلڈوزر چلایا جائے اور کس پر نہیں؟یہ کام کانگریس کے بس کا نہیں ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ جب بھی غیر قانونی تعمیرات پر بلڈوزر چلانے کا فیصلہ ہوگا اس کی فہرست میں رام مندر شامل ہوگا اور اس کے لیے بی جے پی کے اقتدار کی ہوس ذمہ دار ہوگی ۔ سچائی تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کی لاکھ قلابازیوں کے باوجود انتخابی دلدل میں رام مندر باہر نہیں آسکا۔

پولنگ کا پہلا مرحلہ گزرا تو حالتبہت خراب ہوگئی ۔ اس لیے مودی جی نےہندو خواتین کو منگل سوتر کےچھین کر زیادہ بچے پیدا کرنے والے دراندازوں کو دینے کا خوف دلا یا۔ سماجی انصاف کے تحت ان سے بھینوں تک کو کھول کر لے جانے کا ڈر دکھایا گیا ۔ یہ اشارہ کھلے طور پر مسلمانوں کی جانب تھا لیکن پانچویں مرحلے سے قبل مودی جی کو مسلمانوں پر پیار آگیا ۔ بنارس میں پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے بعد کہا کہ زیادہ بچے صرف مسلمان ہی نہیں ہر غریب پیدا کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ ہندو غریبوں کو دولت کی تقسیم کے خلاف ہیں۔ وزیراعظم مودی نے بچپن سے مسلم خاندانوں سے گھرے رہنے کا ذکرکرکے بتایا کہ آج بھی ان کے بہت سے مسلمان دوست ہیں۔ انہوں نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ ان کے گھر میں عید بھی منائی جاتی تھی،اور دیگر بھی تہوار بھی ہوتے تھے۔ عید کے دنان کے گھر میں کھانا نہیں بنتا بلکہ مسلم گھروں سے کھانا آجاتا تھا ۔ انہیں یہ سکھایا گیاتھا کہ تعزیہ کے نیچے سے نکلنا لازمی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں سے انہوں نے بچپن کے نمک کا کیا حق ادا کیا؟ اورایک بار بھی افطار پارٹی جیسی رسمی تقریب کا انعقاد کیوں نہیں کیا ؟

وزیراعظم مودی نے 2002 میں شبیہ خراب ہوجانے کے بعد 30 تربیت یافتہ کارکنوں کوسروے کرنے کے لیے احمد آباد میں مانک چوک پر بھیجا جہاں کھانے پینے چیزبیچنے والے سبھی تاجر مسلمان اور خریدار ہندو ہیں۔ وہاں گاہکوں کی بھیڑ میں پیدل نہیں چلاجا سکتا۔ دیوالی کے موقع پر لوگوں نے بتایا کہ تہوار بہت اچھاگزرا یعنی خوب کاروبار ہوا۔ مودی کے بقول سروے میں تقریبا 90 فیصد دکان والوں نے بتایا تھا کہ ان کے آنے سے قبل بچے اسکول نہیں جاتے تھے مگر اب اسکول کے بعد چھٹی کے دن دوکان پر مدد کرنے آتے ہیں۔ اس لیے ان کی مائیں بہت خوش تھیں کیونکہ مودی کے آمدسے بچوں کی زندگی بدل گئی ۔ ایسی بات تھی تو انہوں نے ریلیف کیمپ کو بچے پیدا کرنے کی فیکٹری کہہ کر بند کیوں کردیا تھا؟ انہوں نے جوہاپوری سے آنے والی مسلم خاتون کے شکریہ کا ذکرکیاکیونکہ بجلی کی چوری اور داد گیری بند ہوگئی اور بچت ہونے لگی ۔ سوال یہ ہے کہ مودی جی اگر اتنے ہی اچھے تھے تو انہیں سابق وزیر اعظم نے راج دھرم کا پالن کرنے کے لیے کیوں کہا تھا؟انہوں نے اپنا ستعفیٰ کیوں پیش کیا تھا؟بلقیس بانو کیس کو گجرات سے باہر کیوں بھیجنا پڑا تھا اور ان کے مجرموں کی سزا میں تخفیف کرکے انہیں رہا کیوں کیا گیا؟

دن رات کیمرے کے سامنے رہنے والے وزیراعظم مودی نے جب کہا کہ وہ مسلمانوں سے اپنی محبت کی مارکیٹنگ نہیں کرتے اور ہندو مسلم کرنے سے قبل سیاست چھوڑ دیں گے تو بیچاری روبیکا لیاقت ( اینکر) بھی بے ہوش ہوتے ہوتے بچی ۔ مودی جی نے جب ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘ کوالا نعرہ دوہرایا تو پتہ چلا کہ بیچارہ وکاس (ترقی) دس سال کی عمر میں بھی دس دن کا بچہ ہے ۔ اس لیےکہیں نظر ہی نہیں آتا۔ مودی جی نے اپنے انٹرویو میں اس خوش فہمی کا اظہار بھی کیا کہ وہ ملک کے عام آدمی کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر رہے ہیں۔ زمینی سچائی ان کے ساتھ جڑ چکی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو تبدیلی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا بن رہا ہے۔ ملک چاند پر پہنچ رہاہے اورسبز ہائیڈروجن کا مرکز بننے جا رہا ہے۔ اسٹارٹ اپ سے نوجوانوں کے لیے ہندوستان کے دروازے کھل رہے ہیں۔ ملک ان کی کامیابیوں سے اپنے خواب بن رہاہے ۔

سچائی تو یہ ہے کہ ملک کے 83فیصد نوجوان جنہیں ابھی تک حسبِ حال ذریعۂ معاش نہیں ملا پایا ہے ۴؍جون کے دن مودی کو خواب غفلت سے بیدار کرکے حقیقت کی دنیا میں لے آئیں گے۔ وزیر اعظم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے روبیکا نے پوچھ لیا کہ انتخابات کو لے کر آپ گھبرائے ہوئے ہیں؟ تو مودی بولے نروسنیس لفظ میری لغت میں نہیں ہےاور خود اپنے میاں مٹھو بن کر اپنی بڑائی بگھارنے لگے مگر گودی میڈیا کی اینکر نے وہ سوال اسی لیے پوچھا کیونکہ وزیر اعظم کی حرکات و سکنات سے آئے دن گھبراہٹ کا اظہارر ہوتا ہے ورنہ یہ سوال ہی کیوں پوچھا جاتا؟ وزیر اعظم کی تضاد بیانی اور گرگٹ کی مانند رنگ بدلنا بھی اسی ہڑ بڑاہٹ کی علامت ہے۔

ا نٹرویو کے اگلے ہی دن انہوں نے کانگریس پرپندرہ فیصد بجٹ مسلمانوں کے اوپر خرچ کرنے کاالزام لگا کر اس پر تنقید کی حالانکہ پندرہ فیصد آبادی سے ٹیکس لینے کے بعد ان پر خرچ کرنا نا انصافی نہیں عدل کا تقاضہ ہے۔ مودی نے ایک اور انٹرویو میں رمضان میں جنگ روکنے کے لیے خصوصی ایلچی بھیج کرغزہ پر بمباری روکنے کی ڈینگ ماری لیکن اس خبر کے ساتھ یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ امریکہ کےذریعہ اسرائیل کو اسلحہ روک دینے پر ہندوستان کے 28 ٹن دھماکہ خیزمادہ اسرائیل کو روانہ کردیامگر اسپین نے اسے لنگرانداز ہونے کی اجازتیہ کہہ کرنہیں دی مشرق وسطی کو مزید ہتھیاروں کی نہیں بلکہ امن کی ضرورت ہے۔اس طرح مودی جی کی آنکھوں میں مگر مچھ کے آنسو بے نقاب اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا بے کار ہوگیا ۔ اب آگے کے دو مرحلوں میں کیا ہوگا یہ وقت بتائے گا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448260 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.