ممبئی میں مودی کا روڈ شو اور خطاب عام

ممبئی شہر میں جملہ 6؍ حلقۂ انتخاب ہیں ۔ اس سے متصل قرب و جوار میں نئی ممبئی، تھانے، رائے گڈھ اورپالگھر وغیرہ کو ملالیں تو جملہ دس نشستیں ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے وزیر اعظم نے صرف ایک حلقۂ انتخاب میں رو ڈ شو کرنے کا ارادہ کیا ۔ روڈ شو میں تھوڑے سے لوگ بھی بہت زیادہ نظر آتے ہیں جبکہعوامی جلسہ شرکاء کی تعداد کا اندازہ بہ آسانی ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم کو سننے کے لیے آج کل لوگ نہیں آتے اس لیے انہیں روڈ شو پر گلی کوچے میں بھٹکنا پڑرہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے ان دس حلقوں میں سے گھاٹکوپر کا انتخاب کیوں کیا؟ اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اس علاقہ میں گجراتی بہت زیادہ رہتے ہیں یعنی دس سال دہلی میں رہنے کے باوجود وزیر اعظم غیر گجراتی رائے دہندگان کو متاثر کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس علاقہ کے نئے امیدوار مہر کوٹیچا بہت دھن دولت کے مالک ہیں اس لیے انہوں نے وزیر اعظم تگڑا نذرانہ دیا ہوگا لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی امیدوار کوٹیچاکی حالت بہت پتلی ہے ۔ ان کوحال میں گوونڈی سے لوگوں نے بھگا دیا ۔ اس لیے ڈوبتے کو مودی کا سہارا والی حکمت عملی پر عمل کیا گیا ۔

وزیر اعظم کے دورے کی پنوتی کے سبب ان کے آنے سے دو دن قبل بے موسم آندھی طوفان آیا اور اسی علاقہ میں ایک 120مربع فٹلمبی چوڑی، ریلوے کی زمین پر بنی ڈھائی سو ٹن وزنی ہورڈنگ گر گئی۔ اس حادثے میں جملہ 75؍افراد زخمی ہوگئے اور 16 لوگ ہلاک ہوگئےلیکن اس روڈ شو کے منتظم اورکل یگ کے چانکیہ اس سانحہ کو بھول گئے ورنہ انہیں اس روڈ شو منسوخ کردینا چاہیے تھا یا پھر مودی جی کو مرنے والوں کی تعزیت اور زخمیوں کی عیادت کے لیے اسپتال لے جانا چاہیے تھاکیونکہ ان کے دورے سے پہلے اور بعد میں بھی لاشوں کے برآمد ہونے کا سلسلہ جاری تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ مزاج پرسی تو دورمودی اور ان کے ہمنواوں نے اس حادثے کا ذکر کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ وہ لوگ ریل، میٹرو اور سڑک بندکرکے مودی کے قافلے پر پھول برساتے رہے اور چہار جانب ’بہارو پھول برساو میرا محبوب آیا ہے‘ کا سماں بنا رہا ۔ وزیر اعظم مودی نے روڈ شو کے دوران ایک جگہ رام کی مورتی دیکھ کر اس سے اظہار عقیدت توکیا مگر ہورڈنگ کے نیچے کچلے جانے والوں کا انہیں خیال تک نہیں آیا۔کیا یہ بے حسی کی انتہا نہیں ہے؟ کیا اس علاقہ کے لوگوں کو ایسے بے حس رہنما کی نمک پاشی کے خلاف احتجاج کرکےاسے سبق نہیں سکھانا چاہیے؟

وزیر اعظم نریندر مودی کو غالباً ان کی غلطی کا اندازہ ہوگیا تو وہ تیسرے ہی دن پھر سے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ممبئی لوٹ آئے اور شیواجی پارک پر ایک زبردست جلسۂ عام سے خطاب کیا لیکن وہاں بھی گھاٹکوپر سانحہ کا ذکر نہیں ہوا ۔ اس طرح جو نقصانکی بھرپائی ہوسکتی تھی وہ بھی نہیں ہوسکی ۔ شیواجی پارک پر جب سپنوں کاسوداگر مودی2047 کے ترقی یافتہ ہندوستان کا خواب بیچ رہا تھا تو شرکائے مجلس کے چہرے پر ایک عجیب طرح کی بے یقینی پھیلی ہوئی تھی ۔ انسان آخر کتنے خواب دیکھے اور کتنا سوئے ؟ نیند کی بھی ایک حد ہوتی ہےاس لیے لوگ نیندنہ صرف بیدار بلکہ بیزار ہوچکے ہیں۔ انہیں وہ خواب یاد آرہے ہیں جو مودی جی نے دس سال پہلے دکھائے تھے اور وقت کے ساتھ چکنا چور ہوگئے۔ وزیر اعظم نے جب اس کیفیت کو محسوس کیا کہ عوام کے اندر اس سے شوشے سے جوش اور ولولہ پیدا نہیں ہورہا ہے تو اپنے چہیتے موضوع کانگریس کی مخالفت پر لوٹ آئے اور اس پر ملک کی تقسیمکے ساتھ آئین ہندکو نیست و نابود کرنے کا مضحکہ خیز الزام لگا دیا۔ اس سے بھی بات نہیں بنی تو پھر مسلمانوں کا راگ چھیڑ دیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی دو دن قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ ہندو مسلمان کی بات کریں گے تو سیاست کے اہل نہیں رہیں گے لیکن کریں تو کریں کیا؟ ان کی مسلم دشمنی پر غالب کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
مقصد ہے ووٹ لینا مگر گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے مسلم و ہندو کہے بغیر

مودی جی اور جھوٹ کا رشتہ بہت پرانا ہے لیکن اب اس میں یاد داشت کی کمزوری کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ویسے اپنی عمر کے اس ڈھلتے پڑاو میں چونکہ انہوں نے بی جے پی کی ساری انتخابی مہم اپنے کمزور کندھوں پر لے رکھی ہے اس لیے انہیں دن رات بولنا پڑتا ہے۔ ایسے میں وہ سب یاد رکھنا کسی بھی فرد کے لیے ناممکن ہے۔ شیواجی پارک میں ’ووٹ جہاد‘ سے عوام کو ڈرانے والے مودی جی بھول گئے کہ انہوں نے دو دن قبل اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کےبیشتر پڑوسی مسلمان تھے ۔ وہ تعزیہ کے نیچے سے جھک کر گزرتے تھے اور عید کے دن ان کے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا کیونکہ مسلمان پڑوسیوں کے گھر سے کھانا بن کر آتا تھا ۔ مودی جی جس وقت شیواجی پارک میں یہ جھوٹا دعویٰ دوہرا رہے تھے کہ کانگریس ہندووں کا منگل سوتر اور مندروں میں جمع سونا ووٹ جہاد کرنے والوں کو بانٹ دے گی اسی وقت ممبئی کے بی کے سی میں شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرےایک جلسۂ عام ان سے سوال کررہے تھے کہ مسلمانوں کے گھر سے آنے والے پکوان کی تفصیل بتائیں اور یہ واضح کریں کہ انہوں نے اسے کھایا یا نہیں؟ اس کے بعد ادھو ٹھاکرے نے انہیں عار دلاتے ہوئے کہا کہ کم ازکم بچپن میں کھائے ہوئے اس نمک کی لاج رکھ کر تو ہندووں کے اندر مسلمانوں کے تئیں نفرت بند کریں ۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ دس سالوں کے درمیان وہ ہندو مسلم یکجہتی پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہوگئے ؟ ویسے یہ بے معنیٰ سوال ہے کیونکہ نفرت کا بیوپاری محبت کی دوکان کا رخ کیسے کرسکتاہے؟؟

وزیر اعظم نریندر مودی نے تو شیواجی پارک میں بھی گھاٹکوپر حادثے کو نظر انداز کردیا مگر ممبئی کےعوام و خواص اس کو نہیں بھولے۔ بی جے پی کی بے حسی پر تبصرہ کرتے ہوئے شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) کے منہ پھٹ رہنما سنجے راؤت نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا ممبئی کے اس علاقہ میں روڈ شو کرنا غیر انسانی ہے جہاں ہورڈنگ کے گرنے سے 16؍ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی کے روڈ شو کی وجہ سے گھاٹ کوپر مغرب سے مشرق تک جانے والی سڑکوں اور میٹرو خدمات کی معطلی پر بھی سخت ناراضی کا اظہا رکیا۔ سنجے راوت نے بی کے سی کے خطاب عام بڑے اعتماد کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ ۴؍جون کو مودی سابق وزیر اعظم ہوجائیں گے کیونکہ مہاراشٹر کے خود دار لوگ اس توہین کو کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے کہ ایک طرف لاشیں آرہی تھیں اور دوسری جانب ڈھول تاشوں کے ساتھ عصرِ حاضر کا ’نیرو‘ لہک لہک کر اپنے امیدوار کے لیےحمایت مانگتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس کو ملنے والا ہر ووٹ مودی کے لیے ہے ۔

سنجے راوت کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ، این سی پی (ایس پی) کے ترجمان کلائیڈ کریسٹو نے کہا، ’’ممبئی والوں کے زخموں پر نمک پاشی کے لئے میٹرو اور لوکل ٹرینوں کو منسوخ کرکے روڈ شو کی خاطر سڑکیں بند کردی گئیں مگر ہجوم کے سبب مسافروں کی جان خطرے میں پڑ سکتی تھی۔‘‘ انہوں نے اسے عوام کو سڑک پر چلنے کے لیے مجبور کرکے روڈ شو میں لوگوں کی تعداد بڑھانے سازش قرار دیا مگر بی جے پی کی بے حسی نے اس کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ کانگریس کے صوبائی سربراہ نے بھی بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ گھاٹکوپر سانحہ نے اکتوبر 2022 کے موربی حادثے کی یاد دتازہ کردی۔ اس وقت وزیر اعظم گجرات کےریاستی انتخاب کی ماحول سازی میں مصروف تھے کہ اچانک پُل ٹوٹ گیا اور اس میں 141؍ افراد بہہ گئے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔
 
وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حادثےپرفوراً ٹویٹ کیا اور گجرات کے وزیر اعلی بھوپیندر پٹیل ودیگر حکام سے بات کرکے امدادی کاموں کی خاطر ٹیمیں بھیجنے اورمتاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی ہدایات دی ۔وزیر اعظم ریلیف فنڈ سے مرنے والوں کے لواحقین کو 2 لاکھ روپئے اور زخمیوں کو 50 ہزار روپے کی امدادی رقم دینے کا اعلان کیا گیا۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ’موربی میں ہونے والے حادثے سے انتہائی غمزدہ ہوں‘۔ سوال یہ ہے گھاٹکوپر حادثے پر مودی اور شاہ بالکل خاموش کیوں ہیں؟ کیا وہ صرف گجرات کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہیں؟؟موربی سانحہ کے دو دن بعد وزیر اعظم نے جائے واردات کا دورہ کرکے سرکاری سول اسپتال میں زخمی مریضوں سے ملاقات کی تھی ۔ اس کے برعکس وزیر اعظم ہورڈنگ حادثے کے ٹھیک دو دن بعد تعزیت یا عیادت کے لیے نہیں بلکہ انتخابی حمایت حاصل کرنے کے لیےگھاٹکوپر آئے اور اس سانحہ پر ایک حرف بھی نہیں کہا،اس بے حسی کا کیسے جواب دیا جائے اس سے ممبئی کے لوگ خوب واقف ہیں اور 20؍ مئی کو اس کا عملی مظاہرہ ہوگا ۔ ایسی آندھی چلے گی کہ بی جےپی کی ساری ہورڈنگس گر جائیں گی اور ان کے نیچے دب کر کمل کراہنے پر مجبور ہوجائے گا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2073 Articles with 1267753 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.