میرا آبائی ضلع تباہ کیوں۔۔؟

دنیاچاندپرپہنچ گئی اورہمارے لوگوں کوایک دوسرے پرکیچڑاچھالنے اور ٹانگیں کھینچنے سے فرصت نہیں۔آج کے دورمیں کسی دوسرے بھائی کی ترقی اورخوشحالی توہم سب سے ہضم اوربرداشت نہیں ہوتی لیکن ہمارے آبائی ضلع بٹگرام کے لوگ اس دوڑمیں کچھ زیادہ ہی آگے ہیں۔عیدپرجب ہم بٹگرام گئے توارادہ تھاکہ یہاں کے مسائل پرپہلے کی طرح اب بھی کچھ لکھیں گے لیکن بیماری اورمصروفیت کی وجہ سے اس کارخیرمیں تاخیرہوگئی ۔بٹگرام کولوگ اندھوں کاشہرکہتے ہیں لیکن یہاں اندھوں کے ساتھ بہرے اورگونگے بھی کچھ کم نہیں۔بجلی کایہاں نام ونشان نہیں ہوتا،موبائل سروس اورٹرانسپورٹ سسٹم بھی یہاں قابل رحم اورقابل دعاہے۔ویسے لوگ دعائیں کرکرکے تھک گئے ہیں پرموبائل سروس اورٹرانسپورٹ سسٹم پھربھی ٹھیک نہیں ہورہا۔سسٹم ٹھیک ہوبھی کیسے ۔۔؟باقی اضلاع اورعلاقوں میں لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کیسے آگے بڑھاجائے یاکیسے دوسروں کے کام آیاجائے پراس بدقسمت ضلع میں خواص کے ساتھ عام لوگ بھی اٹھتے بیٹھتے یہی سوچتے ہیں کہ دوسروں پرکس طرح کیچڑاچھال کر ان کی ٹانگیں کھینچی جائیں۔کام،ترقی اورخوشحالی والے بندے کوتویہاں برداشت ہی نہیں کیاجاتا۔اس ضلع میں مقامی لیڈرزہیں،سیاستدان ،ڈاکٹرز،انجینئرز ،سرمایہ کار،تاجر،صحافی،کسان یازمیندارسب کی بس ایک ہی خواہش اورارمان ہے کہ ان سے کوئی آگے نہ بڑھے۔اﷲ کے فضل اورکرم سے جب کوئی آگے بڑھتاہے توپھرہرکوئی اس کے پرکاٹنے اورراستہ روکنے کاکام شروع کردیتاہے۔عام توعام یہاں تودین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی ایک دوسرے کاراستہ روکنے کی نہ صرف کوشش کرتے ہیں بلکہ تدبیریں اورتقریریں بھی کرتے ہیں۔حالیہ عام انتخابات میں یہاں سے قومی اورصوبائی اسمبلی کی نشستوں پرخانوں اورنوابوں کے ساتھ کئی مولوی بھی آمنے سامنے تھے جواپنے کارکنوں،مریدوں اورمتعلقین کوخانوں اورنوابوں سے زیادہ مولویوں کاراستہ روکنے کی ہی ترغیب وتلقین کرتے دکھائی دے رہے تھے۔یہاں کاسب سے بڑامسئلہ پسماندگی اورجہالت نہیں بلکہ حسد،بغض اورکینہ کی وہ آگ ہے جوآج اوراب بھی یہاں چاروں طرف جل رہی ہے۔یہاں کے لوگ مسائل سے زیادہ اپنے ہاتھوں سے لگائی اوربھڑکائی گئی حسدکی آگ میں جل رہے ہیں۔ اﷲ نے اگر کسی کو مال، علم، دین، حسن،عزت وقار یا دیگر نعمتوں سے نوازا ہے تووہ یہاں کے لوگوں کوبرداشت نہیں،یہاں اکثریت کی یہ خواہش اورتمناہے کہ جومال، علم، دین، حسن،عزت وقار یا دیگر نعمتیں جودوسروں یاکسی دوسرے کوحاصل ہیں وہ ان سے چھن کران کومل جائے۔اس طرح کی خواہشات اورعادات کوحسدکہاجاتاہے۔حسدایک بہت بڑاگناہ اورحسدکرنے والوں کاٹھکانہ یقینناًجہنم ہی ہے۔ہم جس دین،شریعت اورمذہب کے نام لیوااورماننے والے ہیں اس دین اورمذہب میں حسدکوبدترین گناہ قراردے کراس سے ہرخاص وعام کودوررہنے کاحکم دیاگیاہے۔افسوس اس بات کاہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجودہم میں سے اکثرلوگ آج اس گناہ اوربیماری میں نہ صرف مبتلا بلکہ سرگرداں بھی ہیں۔ دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جس قدر مال کی حرص اور حسد مسلمان کے دین کو برباد کرنے والا ہے اور حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ،،حسد،، وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام پر حسد کیا۔اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیایعنی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی پر حسد کیا اور اس کو قتل کردیا۔حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایاابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا تو اتنے میں ایک انصاری آئے جس کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور اس نے بائیں ہاتھ میں جوتیاں لٹکا رکھی تھیں۔ اگلے دن پھر حضورﷺ نے وہی بات فرمائی تو پھر وہی انصاری اسی طرح آئے ۔ تیسرے دن پھر حضورﷺ نے ویسی ہی بات فرمائی اور وہی انصاری اسی حال میں آئے۔ اس رازکوجاننے کے لئے حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن عاصؓ نے اس انصار صحابی کے گھرتین راتیں گزاریں ۔حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے ان کے تمام اعمال عام معمولی ہی نظر آئے تو میں نے ان سے کہاکہ اے اﷲ کے بندے حضورﷺ کو آپ کے بارے میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے۔ اس پر میں نے سوچا کہ میں آپ کے ہاں رہ کر آپ کا خاص عمل دیکھوں اور پھر اس عمل میں آپ کے نقش قدم پر چلوں۔ میں نے آپ کو کوئی بڑا کام کرتے ہوئے تو دیکھا نہیں تو اب آپ بتائیں کہ آپ کا وہ کون سا خاص عمل ہے جس کی وجہ سے آپ اس درجہ کو پہنچ گئے ۔انہوں نے کہامیرا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں۔وہی اعمال ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔ میں یہ سن کر چل پڑا۔ جب میں نے پشت پھیری تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہامیرے اعمال تو وہی ہیں جو تم نے دیکھے ہیں البتہ یہ ایک خاص عمل ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے اور کسی کو اﷲ نے کوئی خاص نعمت عطا فرما رکھی ہو تو میں اس پر اس سے ،،حسد،، نہیں کرتا۔جن لوگوں کے دل اورجسم حسد،بغض اورکینہ سے پاک ہوں ان کے لئے جنت کی بشارت توہے ہی ایسوں کے لئے پھریہ دنیابھی جنت سے کم نہیں ہوتی۔بٹگرام کے لوگ بجلی،پانی،موبائل سروس،ٹرانسپورٹ اورزندگی کی دیگربنیادی سہولیات سے محروم ہوکراس دنیاکے اندرجہنم کی آگ میں صرف اس لئے جل رہے ہیں کہ ان کے دل دوسروں کے لئے صاف نہیں۔یہاں اگرعطاء محمددیشانی،ڈاکٹرنثار،فیاض محمدجمال ،سعیدملکال اورڈاکٹرفیاض پنجگل جیسے لوگ اورہیرے عوامی خدمت کے لئے دن رات ایک کرکے آگے بڑھتے ہیں تولوگوں کے پیٹ میں مروڑاٹھنے شروع ہوجاتے ہیں۔جہاں قوم کے ایسے بے لوث خدمتگاروں کے ہاتھ روکے جاتے ہوں وہاں پھرترقی اورخوشحالی نہیں تباہی ہی آتی ہے۔ترقی وخوشحالی کے اس دورمیں بٹگرام کی بجلی سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات سے محرومی یہ تباہی نہیں تواورکیاہے۔۔؟

 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 214 Articles with 138577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.