ایسا کیسے چلے گا؟ (پروفیسررفعت مظہر)
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ایسا کیسے چلے گا؟ (پروفیسررفعت مظہر) دیسی مرغی، دیسی گھی اور خالص دودھ توقصہئ پارینہ بن چکے۔ اب یہ سب کچھ خواب وخیال کہ دیسی مرغی کے نام پر فارمی مرغی اور دیسی گھی کی محض مہک ہی باقی ہے۔ دیسی گھی میں عام گھی اور کیمیکلز کی ملاوٹ کی جاتی ہے اور دودھ میں سنگھاڑے کاآٹا، کارن سٹارچ، کھاد، سرف اور پانی کی آمیزش تھوک کے حساب سے۔ اِس لیے ہم نے اِن اشیاء سے توبہ کرلی البتہ ایک شخص ایساہے جوجیل میں بیٹھا اِن خالص اشیاء سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ اُسے دیسی گھی میں بھُنی ہوئی دیسی مرغی ملتی ہے جسے جیل کے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ کی نگرانی میں تیار کرکے ڈاکٹر کی پڑتال کے بعدبصد ادب اُس کی خدمت میں پیش کیاجاتا ہے۔ وہ جیل سے باہر بھی لاڈلا تھا اور اندر بھی لاڈلا ہی ہے۔ اُس کی نازبرداریوں کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم اور حفاظتی عملہ ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔ اِس وقت تک وہ ٹیکسوں کی مَدمیں قوم کی نَسوں سے نُچڑے ہوئے لہوکے 36لاکھ روپے سے زیادہ ڈکار چکا پھر بھی وہ قیدی۔۔۔۔۔ بامشقت قیدی۔ ہمیں 21جولائی 2014ء کا وہ دن اچھی طرح یادہے جب ہم واشنگٹن ڈی سی میں تھے اور لاڈلا وہاں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہاتھا ”نوازشریف کہتا ہے جیل کا کھانا اچھا نہیں ہے، مجھے ایئرکنڈیشن لگا دو، مجھے ٹی وی چاہیے۔ اگر یہی سبھی کچھ جیل میں دیناہے تو یہ سزا تونہ ہوئی۔ واپس جاکر اے سی اور ٹی وی جیل سے نکالیں گے، گھر کا کھانا بند کریں گے جس پر مریم بی بی بہت شور مچائے گی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آصف زرداری جیل جاتے ہی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کو بھی ہم جیل میں ہی رکھیں گے جہاں اے سی اور ٹی وی نہیں ہوگا“۔ اُس مغرورومتکبر شخص کے یہ الفاظ اُس کی رعونیت اور نفرت کا پتہ دیتے تھے۔ حیرت یہ کہ وہ ایک غیرملک میں 3بار کے منتخب وزیرِاعظم اور سابق صدرِ مملکت کے بارے میں ایسے الفاظ کہہ رہا تھا۔ آج جب وہ خود جیل میں ہے تو ہمیں رہ رہ کر یہ شعر یاد آتا ہے یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہاتھا خُدا کے لہجے میں آج اُس کی جیل کی کوٹھری میں اے سی توہے لیکن اتنی شدید گرمی میں اے سی بھی دَم توڑ جاتے ہیں۔ نازونعم میں پَلاہوا لاڈلا بھلا کہاں تک یہ گرمی برداشت کرپاتا۔ اُس نے اپنے حواریوں سے کہاکہ مولانا فضل الرحمٰن کے پاس یہ عرضداشت لے کرجاؤ کہ اُسے جیل سے نکالا جائے۔ لاڈلے کو اچھی طرح سے علم ہوچکا کہ اب اُس کی کال پر کوئی باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ اِسی لیے اُس نے مولانا کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا۔ دروغ بَر گردنِ راوی جب عمرایوب اور اسد قیصر لاڈلے کی عرضداشت لے کر مولانا سے معافی کے طلب گار ہوئے تو اُنہوں نے فرمایا کہ اگر تم لوگ بتکرار دِن کورات کہو تو میں مان لوں گا لیکن اگر تم یہ کہوکہ لاڈلا اپنے وعدوں پر قائم رہے گاتو میں تسلیم نہیں کروں گا۔ واشنگٹن ڈی سی میں خطاب کرتے ہوئے لاڈلے نے یہ بھی کہاکہ اِن 2حکومتوں (نوازلیگ اور پیپلزپارٹی) نے ملک کا قرضہ 30ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا۔ ہمیں اِن حکومتوں سے یہ پیسہ واپس لینا ہے۔ مفرور مُرادسعید بھی کہاکرتا تھا کہ جب عمران خاں آئے گی تو باہر پڑا 200ارب ڈالر واپس لائے گی۔ اُس وقت تو لوگوں نے یقین کرلیا کہ واقعی بیرونی ممالک میں 200ارب ڈالر موجود ہیں جسے لاڈلا واپس لائے گالیکن وہ سب جھوٹ تھا۔ لاڈلے کے ساڑھے 3سالہ دَورِ حکومت میں 2ارب تو کُجا 2ڈالر بھی واپس نہیں ہوئے البتہ یہ حکومت پاکستان کومزید 25ہزار ارب روپے کی مقروض کرکے چلتی بنی۔ آج تک قوم کو یہ سمجھ نہیں آسکی کہ آخر وہ 25ہزار ارب روپے گئے کہاں؟۔ جس میاں نوازشریف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور عمران خاں نے مل کر سازشوں کے جال بُنے اُس کے ملک وقوم کی ترقی کے لیے کارنامے اظہرمِن الشمس۔ اُنہوں نے مسلم لیگ ن کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”بانی پی ٹی آئی نے میری کمر میں چھُرا گھونپا۔ مجھے کہا تعاون کروں گا لیکن لندن میں ظہیرالاسلام، طاہرالقادری سے ملاپھر دھرنے شروع کردیئے۔ پتہ نہیں اُسے کہاں سے اشارہ ملا۔ میرے پاس آڈیو ہے جس میں ثاقب نثارنے کہا عمران کولانا ہے، نوازاور مریم کوجیل میں رکھنا ہے۔ ایسے چیف جسٹس کا احتساب ہو، مظاہرنقوی بھی نیب بھگتے۔ آج تک سمجھ نہیں آیا 1993ء میں ہماری حکومت کاتختہ کیوں اُلٹا۔ اُس وقت ملکی ترقی کے لیے جو ایجنڈا دیااگر اِس پر عمل ہوجاتا تو آج ہمارا ملک ایشیا میں سب سے آگے ہوتا۔ کرپٹ ججزکو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے۔ قوم سے گلہ ہے ہمیں تنخواہ نہ لینے سے نکال دیا جاتاہے اور وہ خاموش رہتی ہے“۔ میاں صاحب نے جوکچھ فرمایا وہ بالکل بجالیکن اُنہیں علم ہونا چاہیے کہ اُن کے خلاف سازشیں بُننے والوں کو گلہ ہی صرف ایک ہے کہ نوازشریف اصولوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور ”ڈکٹیشن“ نہیں لیتے۔ اُنہوں نے 3بار وزارتِ عظمیٰ کو ٹھوکر ماری لیکن ڈکٹیشن نہیں لی۔ 17اپریل 1993ء میں اُنہوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایوانِ صدر کو سازشوں کی آماجگاہ قرار دیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ نہ استعفیٰ دیں گے، نہ اسمبلی توڑیں گے اور نہ ہی ڈکٹیشن لیں گے۔ تب اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خاں کے آرٹیکل 58-2B کا نشانہ بنے۔ یہ الگ بات ہے کہ غلام اسحاق خاں کو بھی مستعفی ہوکر گھر جانا پڑا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد ایک دفعہ پھر میاں صاحب کے خلاف سازشوں کے جال بُنے گئے اور 2014ء میں لندن پلان مرتب کیا گیا۔ جیونیوز کے رپورٹر مرتضےٰ علی شاہ کے مطابق اِس سازش میں عمران خاں، طاہرالقادری، جنرل ظہیرالاسلام، چودھری شجاعت، چودھری پرویز الٰہی اور مبشر لقمان شامل تھے۔ طے یہ پایاکہ عمران خاں اور طاہرالقادری 14اگست 2014ء کواسلام آباد کے ڈی چوک میں جلوس لے کر پہنچیں گے اور وہاں دھرنا دیں گے جس پر امپائر کی اُنگلی کھڑی ہوجائے گی۔ پروگرام کے مطابق یہ لوگ اسلام آباد پہنچے تو ضرور لیکن اِن کے ساتھ پہنچنے والے افراد کی تعداد اتنی کم تھی کہ امپائر بھی مایوس ہوگئے۔ طاہرالقادری کے مطابق پی ٹی وی پرحملہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پرکیا گیا لیکن امپائر کی انگلی توکیا کھڑی ہوتی فوج نے کال سُننا ہی بندکردی جس پر طاہرالقادری بددل ہوکر دھرنا ہی چھوڑ گئے۔ دھرنے کی ناکامی کے بعد 2017ء میں پانامہ سے اقامہ نکالا گیا کیونکہ میاں نوازشریف کو بہرصورت مائنس کرنا تھا۔ اِس لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں چُن چُن کر ایسے ججز کا 5رُکنی بنچ تشکیل دیا گیا جو کسی نہ کسی حوالے سے نوازشریف کے مخالف تھے۔ اِس بنچ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اِس لیے وہی فیصلہ ہوا جو اسٹیبلشمنٹ کو مطلوب تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب 2017ء سے پہلے ملک تیزی سے ترقی کررہا تھا توپھر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو میاں نوازشریف کو مایوس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اگرتاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہی تو ایسا کیسے چلے گا۔ امریکہ(ہیوسٹن)سے
|