گوگیرہ ضلع اوکاڑہ کا ایک تاریخی قصبہ ہے جو اوکاڑہ
سے فیصل آباد جانے والی سڑک پر 23کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے راوی کے کنارے
پر واقع ہے ۔اسے مغل دور حکومت میں کھرل قبیلہ کی شاخ گوگیرہ نے آباد کیا
تھا ۔پروفیسر اسد سلیم شیخ اپنی کتاب "نگر نگر پنجاب" میں لکھتے ہیں کہ جب
پنجاب پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو گوگیرہ کو ضلعی صدر مقام بنایا ۔یہاں
کچہری ، ضلعی دفاتر ، بنگلہ وغیرہ کی عمارتیں تعمیر ہوئیں ۔حتی کہ یہاں جیل
بھی بنائی گئی ۔گوگیرہ کی اصل شہرت پنجاب کے مشہورمجاہد رائے احمد خاں کھرل
شہید کی وجہ سے ہے ۔محمد حنیف رامے اپنی کتاب "پنجاب کا مقدمہ "میں لکھتے
ہیں کہ پنجاب کے ایک جوانمردرائے احمد خاں کھرل اوکاڑہ کے نواحی گاؤں "جھامرہ
" میں1803ء میں پیدا ہوئے ۔رائے احمد خاں کھرل جوان ہوا تو اس کے کانوں میں
انگریزحکمرانوں کے ظلم و ستم کی کہانیاں پڑنے لگیں ۔وہ ان کہانیوں پر دانت
پیستا تو اس کے بزرگ یہ کہہ کر اسے خاموش کروا دیتے کہ ابھی وہ وقت نہیں
آیا ۔ابھی تیاری کرو ، تیاری کے بغیر اتنے طاقتور دشمن کا تم کچھ بھی نہیں
بگاڑ سکتے۔پھر وہ وقت بھی آگیا جس کا رائے احمد خاں کھرل اور اس کے ساتھیوں
کو مدت سے انتظار تھا ۔انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کو دہلی میں بدترین
تشدد اور اسلحے کے زور پر دبا دیا تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اٹھی ۔جگہ جگہ
بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے ۔اس وقت برکلے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی
حیثیت سے گوگیرہ میں تعینات تھا۔ اس نے کھرلوں اور فتیانوں کو وسیع پیمانے
پر پکڑ پکڑ کر جیل میں بند کردیا ۔اس طرح گوگیرہ ایک بڑی جیل میں بدل گیا ۔ادھر
برکلے یہ کارروائی کررہا تھا تو دوسری طرف رائے احمد خاں کھرل نے دریائے
راوی کے پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کرکے انگریزوں پر
ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کرلیا ۔پھر وہ وقت بھی آگیا جب تمام مقامی سرداروں کی
قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کھرل کے گھوڑ سوار دستے نے رات کے اندھیرے
میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا راوی کو عبور کرکے گوگیرہ جیل پر حملہ کردیا
اور تمام قیدیوں کو چھڑا لے گیا۔رائے احمد خاں کھرل اور ان کے ساتھیوں کے
ساتھ ساتھ خود قیدی بھی بے جگری سے لڑے۔اس معرکے میں چار سو انگریزسپاہی
مارے گئے۔اس واقعے کے بعد انگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔رائے
احمد خاں کھرل اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلات میں جا چھپا۔برکلے نے
انتقامی کارروائی کرتے ہوئے رائے احمد خاں کھرل کے قریبی رشتہ داروں ،
عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے کر رائے احمد خاں کھرل کو پیغام
بھیجا کہ وہ اپنی گرفتاری دے دے وگرنہ اس کے تمام گھروالوں اور رشتہ داروں
کو گولی مار دی جائے گی ۔اس پر پہلی مرتبہ رائے احمد خاں کھرل گرفتار ہوا ۔مگر
فتیانہ ، جاٹوں اور وٹووں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر
انگریز کمشنر نے رائے احمد خاں کھرل کو چھوڑ دیالیکن اس کی نقل و حرکت
گوگیرہ تک محدود کردی گئی ۔اس دوران رائے احمد خاں کھرل نے خفیہ طریقے سے
پنڈال رکھ میں ایک خفیہ میٹنگ رکھی ۔جس میں طے پایا راوی پار کے پنجابیوں
کو ساتھ ملاکر تمام انگریز چوکیوں پر چاروں طرف سے بیک وقت حملہ کردیا جائے
۔مگر افسوس کہ کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز اورسکھ سردارنیہان سنگھ بیدی
دونوں غداری پر اتر آئے۔ انہوں نے 16 ستمبر 1857ء کو انگریز ڈپٹی کمشنر کو
یہ خبر پہنچائی کہ رائے احمد خاں کھرل اور اس کے ساتھی راتوں رات دریائے
راوی پار کرگئے ہیں اور ان کا ارادہ تمام انگریز چوکیوں پر بیک وقت حملہ
ہونے کا ہے ۔اس مخبری پر برکلے نے چاروں اطراف اپنے قاصد دوڑائے بلکہ برکلے
بذات خود گھوڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی سے دریائے راوی کی طرف
بڑھاتاکہ رائے احمد خاں کھرل کو راستے ہی میں روک سکے اور ساتھ ہی برکلے نے
سرفراز کے ذریعے کمالیہ کے دوسرے کھرل سرداروں کو پیغام بھیجا کہ وہ
انگریزوں کی مددکریں جس کا انہیں بھرپور صلہ دیا جائے گا۔مزید برکلے نے
حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ ، ریکارڈ کسی اور جگہ
منتقل کردیئے اور گوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کرلیں۔ لاہور
سے انگریز کرنل توپ خانہ سمیت اپنی پوری رجمنٹ گوگیرہ لے آیا ۔جب برکلے
راوی کے کنارے پر پہنچا تو رائے احمد خاں کھرل پتن پار کرچکا تھا ۔برکلے نے
اس کی تلاش میں جھامرہ کو نذر آتش کردیا لیکن جیسے ہی مسلمان مجاہدین راے
احمد خاں کھرل کی قیادت میں وہاں پہنچے توان پر توپوں کے گولوں اور بندوقوں
کی گولیوں کی بارش کردی گئی ۔اس مشکل صورت حال میں مجاہدین مکئی اور جوار
کے کھیتوں میں چھپتے چھپتے موضع فتح پور کے آس پاس روپوش ہوگئے ۔برکلے
دوبارہ مجاہدین پر حملہ آور ہوا مگر اس جھڑپ میں بہت سے انگریز سپاہی مارے
گئے ۔ اسی اثنا ء میں رائے احمد خاں کھرل بھی اپنے ہمراہیوں سمیت وہاں آ
پہنچا ۔گھمسان کا رن پڑا ۔ تین دن تک لڑائی ہوتی رہی اور تین ہزار سے زائد
انگریز حملہ آور فوجی مارے گئے ۔ اس دوران رائے احمد خاں کھرل نے انگریز
فوج کا تقریبا صفایا کرکے للکارتے ہوئے کہا فرنگیو ۔لاؤ کہاں ہے تمہاری فوج
۔یہ دلی نہیں پنجاب ہے ۔پنجاب کے بیٹوں کی گردنیں تو کٹ سکتی ہیں لیکن جھک
نہیں سکتیں ۔ اس دوران نماز کا وقت ہوا تو رائے احمد کھرل نماز پڑھنے لگا
ابھی وہ سجدے میں ہی گیا تھا کہ انگریز فوجیوں نے اسے اسی حالت میں حملہ
کرکے شہیدکردیا ۔ انگریز کمشنر برکلے نے اس کا سر تن سے جدا کرکے مٹی کے
ایک مٹکے پر سجا کر نمائش کے لیے رکھ دیا لیکن شکست کے باوجود کھرلوں نے
جرات کا مظاہرہ کیا اور اپنے سردار کا سر وہاں سے اٹھا کر لائے اوررائے
احمد خاں کھرل شہید کے جسم کے ساتھ دفن کردیا ۔ پنجاب کے اس حریت پسند
مجاہد کا مزار گوگیرہ کے قریب جھامرہ میں دور سے دکھائی دیتا ہے جو ان کا
آبائی گاؤں ہے ۔رائے احمد کھرل کی شہادت کے بعد جب برکلے اپنی فتح یاب فوج
کے ساتھ خوشی خوشی جنگل عبور کرکے گوگیرہ چھاؤنی کی طرف جا رہا تھا تو رائے
احمد خان کھرل کے ساتھی مراد فتیانہ نے صرف تیس ساتھیوں کے ہمراہ اس کا
تعاقب کیا اور کوڑے شاہ کے قریب چھاپہ مار کے پہلے اسے ہلاک کیا پھر اس کی
لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔برکلے کی تدفین گوگیرہ بنگلہ میں ہوئی ۔ جو ان
دنوں ضلعی ہیڈ کوارٹر بھی تھا ۔ آج اس قبر کا نام نشان بھی نہیں ملتالیکن
رائے احمد خاں کھرل شہید کا مزار گوگیرہ آنیوالوں کو دور سے دکھائی دیتا ہے
۔ ان واقعات کے بعد گوگیرہ سے ضلعی صدر مقام ختم کرکے نیا ضلع منٹگمری (
ساہی وال ) بنایا گیا ۔ یوں آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے اس
قصبے کو پسماندگی کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ۔محمد حنیف رامے ایک جگہ لکھتے
ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پنجاب کے رہنے والوں نے انگریزوں کی غلامی کا
طوق آسانی سے اپنے گلے میں ڈال لیا تھا اور ہر سطح پر پنجابی انگریز
حکمرانوں سے تعاون کرتے رہے ہیں ۔رائے احمد خاں کھرل اور اس کے ساتھیوں کی
جدوجہد اور شہادتوں نے اس الزام کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ
اگر بیدی سنگھ اور کمالیہ کے سرفراز کھرل اس لڑائی میں انگریزوں کا ساتھ نہ
دیتے تو پنجاب پر قبضہ کرنے کا خواب انگریز حکمرانوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہی
بنا رہتا ۔اس سرزمین سے فرنگی بھی چلے گئے اور غداری کرنے والے بھی دنیا سے
رخصت ہوگئے لیکن قدرت نے جو مقام رائے احمد خاں کھرل کو عطا کیا وہ رہتی
دنیا تک ان کا نام اور عظیم جدوجہد آسمان کے افق پر چاند اور ستاروں کی طرح
چمکتی اور دمکتی رہے گی ۔ ان شاء اﷲ
|