کئی ماہ سے سن رہے تھے کہ ڈی چوک اسلام آباد میں سول
سوسائٹی کے لوگ’’ سیو غزہ‘‘ دھرنا دیے ہوئے کافی دنوں سے بیٹھے ہیں۔ہم بھی
جماعت اسلامی کے کارکنوں کے ساتھ بروز جمعرات’’ سیو غزہ’‘‘ دھرنا، ڈی چوک
اسلام آباد پہنچ گئے۔ لوگ زمین پر دریوں میں بیٹھے تھے۔ کچھ بزرگ کرسیوں پر
بیٹھے تھے۔ ہمیں بھی کمزور ہونے کی وجہ سے کسی اﷲ کے بندے نے کرسی پیش کی۔
ہم اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔کچھ لوگ اِدھر ُاھر چل پھر
رہے تھے۔ ٹینٹ لگا ہوا تھا۔ پینے کے تین چارپانی کولر رکھے ہوئے تھے۔
پارلیمنٹ کی سمت ایک بڑا بینر لگا ہوا تھا۔ اس بینر پر شہید ہونے والے کا
ایک بڑا سا فوٹو بنا ہواتھا۔ دیگر بڑے بڑے بینر لگے ہوئے تھے جن پر غزہ کے
سلوگن لکھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ شہید اسلامی یونیورسٹی کاطالب علم تھا۔
گاڑی چڑھانے والے کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ تقریروں سے پتہ
چلا کہ دھرنے میں شریک بیس افراد کو حکومت نے گرفتار کیا تھا، ان کو
ضمانتوں پر رہا کرایا گیا۔ دھرنے کی کنوینر حمیرا مشتاق اور ان کے خاوند
سابق سینیٹر مشراق احمد خان پر بھی دس پندرہ ایف آر کاٹی گئیں جن کا وہ
دونوں مقابلہ کر رہے ہیں۔ اخبارات میں پڑھا تھاکہ سول سوسائٹی کے لوگ رات
کو سوئے ہوئے تھے کہ کسی غزہ دشمن نے سوئے لوگوں پر گھاڑی چڑھا دی۔ جس میں
دو کارکنوں کو شہید کر دیا تھا۔ اور کئی زخمی ہو گئے۔
اگر دھرنے کی بات کی جائے تو لوگوں کے سامنے کھڑا، ایک سول سوسائٹی کا کا
رکن مائک پرلوگوں کو بتا رہا تھا کہ یہ احتجاج سول سوسائٹی نے نومبر2023 ء
میں شروع کیا تھا۔ اس احتجاج کا مقصد غزہ کی جنگ بند کرانا ہے۔ عوام تک
اسرائیل کے مظالم کی داستان پہنچا ہے ۔ ہمارا کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی سے
کوئی بھی تعلق نہیں۔ ہم سول سوسائٹی کے لوگ ہیں۔ ہمارے سیاسی عزاہم نہیں
،صرف مظلوں پر جو مظالم ہو رہا ہے وہ حکومت اور عام لوگوں تک پہنچانا چاہتے
ہیں۔ تاکہ حکومت اپنا اثر رسوک استعمال کر کے غزہ کی جنگ کو بندھ کرائے۔
ویسے بھی عوام روزانہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کے مظالم دیکھ رہے
ہیں۔ اسرائیل پر حماس نے ان مظالم کا بدلہ لینے کے لیے جو ان پر پچھتر سال
سے اسرائیل ڈھا رہا ہے، ۷؍ اکتوبر کو اسرائیل کا ڈوم سکورٹی کے نظام کو تیس
نیس کرتے ہوئے حملہ آور ہوئے ۔بارا سو یہودیوں کو قتل کر دیا اور دو سو
پچاس کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ سرنگوں میں لے گئے۔ یہ دنیا میں ایک عجیب
واقعہ ہوا۔ جو لوگ ششدر ہیں کہ وہ غزہ جس کو اسرائیل نے قیدی بنایا ہواتھا
۔جس کے چاروں طرف کنکریٹ کی دیواریں بنا ئی ہوئی ہیں۔ غزہ کو دنیا کے لوگ
انسانوں کی ایک بڑی جیل کہتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کسی کو بھی ان تک امداد
پہنچانے نہیں دیتا تھا۔ یہ اچانک حملہ کیسے ہو گیا۔ اس پر اسرائیل کے
سیکورٹی والے فرد نے استفعیٰ بھی دے دیا۔ایک دفعہ ترکی نے ان کے لیے ایک
بحری جہاز میں کھانے پینے کی چیزیں کے ساتھ بھیجا۔ اس بحری جہاز میں ترکی
کے علاوہ مختلف ملکوں کے صحافی بھی شامل تھے۔ پاکستان کے ایک صحافی بھی
شامل تھے۔ جب یہ جہاز غزہ کے قریب بین لاقوامی سمندر میں ہی تھا کہ اسرائیل
کی بحری فوج نے اس ترکی کے جہاز پر حملہ کر دیا۔ کچھ لوگ شہید ہوئے اور کچھ
زخمی ہوئے تھے ۔ ترکی اسرائیل کے درمیان اس سے کشیدگی بڑی اور ایک وقت آیا
کی اسرائیل نے ترکی سے معافی مانگی تھی۔
ایک عرصہ سے یہودی فلسطینیوں پر اس لیے ظلم ڈھاتا رہا ہے کہ وہ فلسطین سے
نکل جائیں۔ فلسطینی ہر سال غم کے طور پریوم نکبہ مانتے ہیں۔ اس دن اسرائیل
نے فلسطینیوں کا قتل عام کر کے ان کے لاکھوں لوگوں کو فلسطین سے نکال دیا
تھا۔ لوگ مہاجر کہمپوں میں گئے ان پر بمباری کر کے ان کے خیموں کو آگ لگا
ددی ۔یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین ان کو اﷲ کی طرف سے وطن کے طور پر دی گئی۔
ہاں ! اس کا ذکر قرآن میں موجود ہیں۔ مگر اُس وقت کی بات ہے یہودی مسلمان
تھے۔ اﷲ کے نبی حضرت موسیٰ ؑ کی اُمت تھے۔ مگر جب وہ اسلام چھوڑ کر صرف ایک
یہودی فرقہ بن گئے تو اﷲ کا ان سے وعدہ ختم ہو گیا۔ بلکہ اﷲ نے انہیں دنیا
میں فساد پھیلانے پر دو دفعہ سزا دی۔ قرآن یہودیوں کو سزا دینے کی باتوں سے
بھرا پڑا ہے۔اﷲ نے یہود کو ڈھائی ہزار سال سے سزا کے طور پر تتر بتر کر
دیا۔ اور فرمایا کہ تم نے اﷲ کے بندوں پر ظلم کیا۔ دنیا میں دو دفعہ فساد
بر پا کیا۔ اﷲ نے یہودیوں کو دو دفعہ سزا بھی دی۔ قرآن نے واضع کیا اگر تم
تیسری بار فساد بر پا کرو گے تو اﷲ تمھیں تیسری بار بھی سزا دے گا۔ شاید
یہودی ہزاروں سال تتر بتر رہنے کے بعد تیسری بار فلسطین میں فساد برپا کرنے
کے لیے دنیا سے جمع ہو گئے ہیں۔لگتا ہے اﷲ نے غزہ میں انہیں تیسری بار سزا
دے گا۔ اﷲ کاوعدہ ہمیشہ پوراہوتا ہے۔ آٹھ ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر غزہ کے
قیدیوں پر فاس فورس بم برسا رہا ہے۔غزہ کو مکمل برباد کر دیا ہے۔ مگر اب
تیسری بار غزہ میں اﷲ نے حماس کے ہاتھوں اسرائیل کو شکست دینے کے انتظام کر
لیے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ حماس نہیں غزہ میں فرشتے اسرائیل سے لڑ رہے
ہیں۔ کیونکہ دنیا میں اﷲ کا طریقہ ہے کہ جیسے جنگِ بدر میں فرشتے اُتار کر
مسلمانوں کے ہی ہاتھوں کفار کو شکست دی تھی۔ اس طرح فلسطین میں بھی غزہ کے
مقام پرحماس کو اﷲ نے کھڑا کر دیا ہے۔ اﷲ حماس کے ہاتھوں اسرائیل کو شکست
دے گا۔ تیسری بار اﷲ کا وعدہ پورا ہوگا۔ ان شاہ اﷲ۔
کیا غزہ، جس کو اسرائیل نے قیدی بنا ہوا تھا۔ اندر ہی اندر سرنگیں نہیں بنا
لیں۔ ان سرنگوں سے نکل کرحماس مجاہدین یہودی فوجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ان ہی سرنگوں میں اسلحہ اور یاسین راکٹ تیار کر رہا تھا۔ان ہی راکٹوں سے
نکل کر اسرائیل میں بحری ، بری اور فضائی راستوں سے اور کنکریٹ کی دیوار
توڑ کر ڈوم سکورٹی کو ملیا میٹ کرتے ہوئے اسرائیل میں گھس گئے اور اسرائیل
کے بارا سو لوگوں کو قتل اور تین سو کوپکڑ لائے اور سرنگوں میں قیدی بنا
لیا۔ دنیا بھر کے صلیبی اسرائیل سے مل کر آج تک اپنے قیدیوں کو چھڑا نہیں
سکے۔ یہ اﷲ کی غیبی مدد نہیں تو کیا ہے؟۔غزہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک
کسی عمارت کو نہیں چھوڑا ، سب کو ملیا میٹ کر دیا۔ حماس کو ختم کرنے کا
تکبر کیا۔ آج تک حماس کو ختم نہیں کر سکے۔ یہ غیبی مدد نہیں تو کیا ہے؟۔ آج
اﷲ کے حکم سے امریکا ار مغربی دنیا کے انصاف پسند عوام کو اسرائیل کے خلاف
کھڑا کر دیا ہے۔یہ غیبی مدد نہیں تو کیا ہے؟۔جنوبی افریقہ غیر مسلم ہونے کے
باوجود عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ قائم کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ عالمی
عدالت نے اسرائیل کو فلسطینوں کی نسل کشی کا مجرم ٹھرا کر اسرائیل کے وزیر
اعظم اور وزیر دفاع کے ورنٹ گرفتاری جاری کیے۔ یہ اﷲ کی مدد نہیں تو
کیاہے؟۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کی پاداش میں
پابندیاں لگانے کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ اﷲ کی مدد نہیں تو کیاہے؟۔
اسرائیل پر حماس مجاہدین نے ’’طوفان اقصیٰ‘‘ کی شکل میں حملہ کیا تھا۔ جنگ
میں انصاف کا تقاضہ تھا کہ اسرائیل حماس مجاہدین کے خلاف جنگ کرتا۔اس سے
حملہ کا بدلہ لینا تھا۔ مگر اپنی پرانی روش پر چلتے ہوئے اس نے غزہ کے نہتے
عوام جس میں بچے اور عورتیں شامل ہیں، ان پر حملہ کر دیا۔ غزہ کی سولین
آبادی پر بمب برسا کے چالیس ہزار نہتی آبادی جس میں معصوم بچوں عورتوں کی
تعداد زیادہ ہے کو شہید کر دیا۔ لاکھ سے زیادہ کو زخمی یا گم کر دیا۔
ہزاروں اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی ساری عمارتوں کو آٹھ ماہ سے
روزانہ کی بنیاد پربمباری کے زمین بوس کر دیا۔ان عمارتوں میں رہائشی ،
تعلیمی، ہسپتال، اقوام متحدہ کی امدادی عمارتوں کو ملیٹ میٹ کر دیا۔ سو سے
زیادہ صحافیوں کو شہید کر دیا۔ ایسے ایسے جنگی جراہم کیے کہ انصاف پسند
انسانوں کے سمندر اسرائیل کے خلاف اُٹھ گھڑے ہوئے۔ مغربی دنیا کے ملکوں نے
فلسلطین کی آزادریاست تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون گرتا ہے تو جم جاتا ہے
اسلام آباد کی سول سوسائٹی کے لوگوں نے ڈی چوک پر’’ سیو غزہ‘‘ دھرنا دے کو
غزہ کے مظلوموں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ اس دھرنے کی کی کنوینر
حمیرامشاق نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ قومی اسمبلی کے ممبران اور مرکزی وزیر
اطلاہات تشریف لائے تھے۔ کہا تھا کہ آپ کے مطالبات صحیح ہیں۔مگر ساتھ شکایت
بھی کی دھرنے والوں نے سڑکیں روکی ہوئی ہیں۔ حمیرا نے بتایا کہ ہم نے ان سے
کہا کہ اسرائیل کے مظالم کو حکومت تک پہنچانے کے لیے اگر ہم نے ایک آدی سڑک
نہ روکی ہوتی تو آپ ہمارے پاس تشریف نہ لاتے۔آپ کو ہمارے مطالبات کو صحیح
بھی کہتے ہیں تو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟۔ ہم اب صرف وزیر اعظم صاحب سے
ملاقات کر کے اپنے مطالبا ت رکھیں گے۔ ہم نے اپنی مطالبات شارٹ لسٹ کر دیے
ہیں۔ کیوں کہ ہم امن و امان کو بگاڑنا نہیں چاہتے۔ ہمارے مطالبات ہیں کہ
اسماعیل ہنیہ صدر فلسطین تحریک مزاحمت نے پاکستان کے وزیر اعظم کو دو خطوط
لکھے ہیں۔ آج تک وزیر اعظم نے ان کاجواب نہیں ۔ ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ
فلسطین کے صدر اسماعیل ہنیہ کے خطوط کا جواب دیا جائے۔ ہمارا دوسرا مطالبہ
ہے کہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ ایک غیر مسلم حکومت جنوبی افریقہ نے
عالمی عدالت میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مقدمہ داہر کیا ہے۔ پاکستان
اس مقدمے میں فریق بنے۔ ہمارا تیسرا مطالبہ ہے کہ ایک بحری جہا ز کا حکومت
پاکستان انتظام کرے۔ جس میں پاکستانی عوام کی طرف سے ہم امداد غزہ کے بھوکے
عوام تک پہنچائیں ۔ جب تک ہمارے یہ تین مطالبات منظور نہیں ہوتے ہم اَٹھارا
دن سے جاری دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ بلکہ ہم پارلیمنٹ تک مارچ بھی کریں گے۔
اس میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی دھرنے سے خطاب کیا۔ اس دھرنے میں
اسلام آباد کی سول سوسائٹی کے مختلف حلقوں کی طرح آج ہسپاتوں کے عملہ ،جس
میں خواتین اور مردوں نے شرکت کی تقاریر کیں۔ کراچی سے آنے والے ایک شخص جس
کاساتھ بیوی اور دو بچیاں بھی تھیں نے بھی تقریر کی اور غزہ کے مظلوموں کے
ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ اﷲ غزہ کے مظلوں کی مدد فرمائے آمین۔
|