میرے محبوب کی سادگی دیکھیے اس کو کہنا تھا کیا اور کیا کہہ دیا

آج کل بی جے پی کے سب سے بڑے دشمن خود وزیر اعظم نریندر مودی بنے ہوئے ہیں۔ وہ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی حماقت کر بیٹھتے ہیں جس سے حزب اختلاف کو ان پر چڑھ دوڑنے کا موقع مل جاتا ہے اور بیچاری بی جے پی دل مسوس کررہ جاتی ہے۔ بی جے پی کے اندر انہوں نے کسی کو اس قابل بھی نہیں رکھا کہ وہ ان سے کہہ سکے کہ خدارا اب بس کیجیے ۔ وہ شخص جو اپنے آپ کو انسان کے بجائے بھگوان سمجھنے لگا ہو وہ بھلا کسی کو کیسے خاطر میں لاسکتا ہے اس لیے بی جے پی اندر بھی کئی لوگ چاہتے ہوں گے اگر ۴؍جون کو اس مصیبت سے نجات مل جائے تو اچھا ہی ہے۔ مودی جی اپنے متضاد بیانات سے فی الحال اس قدر بدنام ہوچکے ہیں کہ ان کے بیانات کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔ لوگ باگ انہیں تفریح کے طور پر سن کر بھول جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ الوہیت کا دعویٰ کرنے کے فوراً بعد اگر کوئی کہہ دے کہ میں ایشور کو دیکھ نہیں سکتا، سو میں بھی ایک پجاری ہوں۔ میں بھی ایک بھکت ہوں، تو میں 140 کروڑ ملک کے باشندوں کو ایشور کا روپ مان کر چلتا ہوں، وہی میرے بھگوان ہیں۔‘ایسے دیوانے کی بڑ کو سنجیدگی سے لینے والا پاگل ہوجائے گا۔وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان پر سیاست تو ہونی ہی تھی سو شروع ہوگئی ۔

مودی جی کے غیر حیاتیاتی والے بیان پر سب سے دلچسپ تنقید راہل گاندھی نے کی ۔ انہوں نے کہا وزیر اعظم نان بائیولوجیکل تو دور لوجیکل (منطقی بھی نہیں ہیں ۔ ایک اور موقع پر وہ بولے مودی جی خود ایشور کا بھیجا ہوا اور اس کے کہنے ہر کام کرنے والا اس لیے کہہ رہے ہیں تاکہ کل کو اگر ان سے ای ڈی والے اڈانی کے ساتھ رشتوں کی بابت یا ان کو فائدہ پہنچانے کے بارے میں پوچھیں تو وہ کہہ سکیں کہ یہ کام انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ بھگوان کے کہنے پر کیا ہے اس لیے انہیں اس کی سزا نہ دی جائے۔ یعنی یہ تو خود کو سزا سے بچانے کی پیش بندی ہے۔ اروند کیجریوال بڑی چالاکی سے وزیر اعظم نریندر مودی پر تو خوب تنقید کرتے تھے مگر کبھی آریس ایس کی جانب ترچھی نگاہ کرکے نہیں دیکھتے تھے لیکن بھگوان والے بیان پر تو ان کا بھی پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا وہ بولے ۔2014 میں نریندر مودی کہہ رہے تھے کہ وہ پردھان سیوک ہیں ۔ 2019 میں انہوں نے کہا کہ میں چوکیدار ہوں ۔2024 میں مودی جی کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی ماں کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ بھگوان کے اوتار ہیں۔ انہوں نے آع ایس ایس سے سوال کیا کہ کیا وہ بھی مانتی ہے کہ مودی جی بھگوان کے اوتار ہیں؟ آر ایس ایس اپنا رخ صاف کرے ۔ مودی دراصل آر ایس ایس کا پیدا کردہ آسیب ہیں لیکن انہوں نے سنگھ کے لیے ہی اپنی اول جلول باتوں سے دھرم سنکٹ پیدا کردیا ہے اور وہ کہہ رہاہے؎
ہنس کے سہتا رہا جس کے ظلم و ستم ، نام اس نے میرا بے وفا رکھ دیا
میرے محبوب کی سادگی دیکھیے اس کو کہنا تھا کیا اور کیا کہہ دیا

ممتا بنرجی نے مودی کے اس بیان پر سب سے بڑا حملہ کیا ۔ انہوں نے سوال کیا ’کیا بھگوان کسی کو دنگا فساد کی سازش رچنے،اشتہار کے ذریعہ جھوٹ پھیلانے، این آر سی کی قوائد کے ذریعہ لوگوں کو جیل بھیجنے کے لیے بھیجتا ہے‘۔ ممتا نے یہ بھی کہا کہ ’کیا بھگوان سی اے اے کے نام پرغنڈہ گردی کرنے یا سو دن کے کام کے لیے پیسہ روکنے،یا دیہی علاقوں میں گھروں کی تعمیر کو رکاوٹ ڈالنے کے لیے اپنا پیغامبر بھیجتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیا بھگوان لوگوں کے بنک کھاتوں میں پندرہ لاکھ روپئے جمع کرنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتا ہے؟بھگوان ایسی چیزیں نہیں کرسکتا۔ مودی کے ساتھ سمبت پاترا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ممتا نے کہا ’اگر بھگوان جگناتھ مودی بابو کے بھگت ہیں تو کیا ہمیں ان کے نام پر مندر نہیں بنانا چاہیے۔کیا ان کی تصویر کے سامنے پوجا کرکے پرساد نہیں چڑھانا چاہیے اور ان کے لیے ایک پجاری کا تقرر نہیں ہونا چاہیے؟ہم یہ سب کرسکتے ہیں لیکن انہیں ایسی باتیں کرکے سیاست نہیں کرنا چاہیے۔ ایک اور موقع پر ممتا بنرجی نے کہا پی ایم مودی کو چونکہ بھگوان نے بھیجا ہے اس لیے ان کےلیے مندر میں رہنا اچھا رہے گا۔ اس مندر کو بنانے کی ذمہ داری ممتا نے خود لے لی ۔

کرناٹک میں صوبائی وزیر شیو راج تنگا داگی نے پیشنگوئی کی کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی اس بار جیت جائیں گےتو ہر جگہ ان کے مندر بننے لگیں گے۔ رام مندر بن چکا اور بھی بن رہے ہیں اس لیے اب وہ کہیں گے میرا اپنا مندر بھی بننا چاہیے۔ ویسے جہاں تک مودی مندر کا تعلق ہے اس کے لیے مودی جی کو کہنے کی ضرورت نہیں اور نہ ممتا بنرجی کی زحمت درکار ہے۔ مدھیہ پر دیش کے گوالیار میں ان کا مندر پہلے ہی موجود ہے۔ وہاں پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور وجئے راجے سندھیا کی مورتیاں لگی ہوئی ہیں۔ اس مندر میں لوگ مودی کا درشن اور پوجا کرتے ہیں ۔وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کو نومہینے کیا ہوئے کہ گجرات میں راجکوٹ شہر کے اندر ان کا مندر بن کر تیار ہوگیا ۔ مرکزی وزیر اور راجکوٹ کے رکن پارلیمان موہن کندریا نے اس کا باقائدہ افتتاح بھی کردیا تھا یعنی مودی کے مجسمہ کی گویا پران پرتشٹھا ن بھی ہوگئ تھی ۔ اس مطلب تھا کہ ایک روح انسان اور مورتی دونوں میں براجمان ہو گئی تھی ۔ اسی کو’ایک جان دو قالب‘کہتے ہیں ۔
 
مودی جی پر اس وقت تک اقتدار کا نشہ چڑھا نہیں تھا اور والدہ محترمہ بھی حیات تھیں اس لیے وہ خود کو انسان سمجھتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ انہوں نےٹوئٹر پر اس حرکت کو ناپسند کیا تھااور اپنے مداحوں سوچھّ (پاک صاف) بھارت مہم پر اپنا وقت صرف کرنے کی صلاح دی ۔اس زمانے میں مودی پر صفائی ستھرائی کا ایسا جنون سوار تھا کہ انہوں نے ایک تقریب میں کہہ دیا تھا ’پہلے شوچالیہ (بیت الخلا )اور اس کے بعد دیوالیہ‘۔ اس پر بہت سارے سادھو سنتوں نے اعتراض بھی کیا مگر مودی جی نے ان کی پروا نہیں کی۔ مودی کی ناراضی کے بعد راجکوٹ مندر میں ان کی جگہ بھارت ماتا کی مورتی لگانے کا فیصلہ کیا گیا مگر انتظامیہ کو پتہ چلا کہ سارا معاملہ ہی غیر قانونی ہے اس لیے اسے توڑ دیا گیا۔ مندر کا قصد کرنے والے بی جے پی کے رکن رمیش ادھنڈ نے اس پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے دیوتا ناخوش ہیں تو اہم ان کی مورتی ہٹادیں گے اور اپنے دل میں ان کی پوجا کریں گے۔ عوام میں شرک کی جڑیں اس قدرگہری ہوں تو ان سے کسی خیر کی توقع بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

گجرات تو خیر مودی کی جنم بھومی ہے لیکن ان کی کرم بھومی اتر پردیش کے کوشمبی ضلع میں شیولنگ کے ساتھ مودی کی مورتی رکھ دی گئی ہے اور صوبائی انتخاب میں بی جے پی کی جیت کی خاطر وہاں پوجا پاٹ شروع کردیا گیا ۔ دو سال دو ماہ قبل نمو مندر کی خبر ذرائع ابلاغ میں آ گئی مگر مودی جی نے اس پر ناراضی ظاہر نہیں کی۔ مندر کے پجاری اور وی ایچ پی کے رکن برجیندر نارائن کا دعویٰ ہے کہ اس مندر میں پوجا کرنے سے ہی 2014،میں مرکزی حکومت بنی اور 2017 کے اندر بی جے پی کو اترپردیش میں اکثریت ملی ۔پجاری کے مطابق 2014 سے قبل ہی مودی کی مورتی لگا کر اسے نمو مندر کا نام دے دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق چونکہ وہ مندر کے اندر ہر دن شیو تانڈو اور مہا مرتیونجے کا جاپ کرتا ہے اس لیے مودی کی ساری مشکلات دور ہوجاتی ہیں اور موصوف پورے ملک کی مشکلات دور کردیتے ہیں۔

برج نارائن مشرا نے اس طرح بڑی چالاکی سےمودی جی کے سارے کارناموں کا کریڈٹ خود لے لیا ۔ اب مشرا جی نے یہ قسم کھائی ہے کہ جب تک وزیر اعظم مندر میں نہیں آئیں گے تب تک یگیہ مکمل نہیں ہوگا اور جب بھی نریندر مودی بھگوان پور گاوں میں آئیں گے وہ گیارہ سو دوشیزاوں کو کھانا کھلا نے کے بعد سوا کوئنٹل لڈو بانٹ کر آہوتی مکمل کریں گے۔ ویسے اگر مودی جی انتخاب ہار جائیں تو بعید نہیں کہ مشرا جی مودی کے بغل میں راہل کی مورتی لگا کر کوئی نئی قسم کھالیں ۔ہندو دھرم میں پہلے ہی ۳۳ کروڈ دیوی دیوتا ہیں اب اس میں دوچار نئے بڑھ جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟مو جودہ تنازع کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی عمر کا خیال کیے بغیر ایک نہایت طول طویل انتخابی نظام الا وقات بنوا دیا۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ ۸؍ہزار کروڈکے جہاز میں کوئی زحمت نہیں ہوگی لیکن کبرسنی کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2118 Articles with 1380538 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.