یکم جنوری کو وارانسی میں ووٹنگ ہورہی تھی اور وزیر اعظم
مراقبہ فرما رہے تھے ۔ مودی نے اپنی مہم کا آغاز پوجا پاٹ سے کیا تھا اور
اختتام مراقبہ یعنی (میڈِٹیشن) سے کریں گےجسے میڈیا اٹینشن کا نام دیا
جارہا ہے کیونکہ سوشیل میڈیا پر ایک تیس سیکنڈ کی ویڈیو میں انہیں پانچ سے
زیادہ کیمرے نو الگ الگ زاویوں سے وزیر اعظم کو دومرتبہ اپنا آسن بدلتے
ہوئے دکھا یا گیا ۔ بھگت تو اس پرفدا ہوگئے مگر مخالف تنقید میں جٹ گئے۔ اس
دوران یہ خبر آئی کہ پچھلے چار دن میں گرمی کی لہر سے ملک کے اندر 320؍
افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں 100 سے زیادہ اموات وارانسی والے اترپردیش میں
ہوئیں ۔ ان ہلاکتوں میں پچیس تو بیچارے انتخاب کا انتظام و انصرام کرنے
والے لوگ بھی تھے مگر وزیر اعظم سمیت نہ کسی سیاست داں نے اس پر ایک لفظ
کہا اورنہ ذرائع ابلاغ میں یہ زیر بحث آئی ۔ ایکزٹ پول پر تین چار پروگرام
کرنے والے چینلس نے بھی اس کا حوالہ تک نہیں دیا کیونکہ سب لوگ سیاست کے
نشے تھے۔
اترپردیش کے مشہور شہر کا نپور میں پوسٹ مارٹم ہاوس کے اندر یکم جون کو
جملہ58 لاشیں تھیں اور مزید لاشوں کے لیے عارضی سہولت مہیاکرنی پڑی۔ ڈاکٹر
اشونی واگھمارے اپنا پوسٹ مارٹم کرتےہوئےغش کھا کر گر گئے ۔ اسپتال کے
نگراں ڈاکٹر نونیت چودھری کی بھی حالت بگڑ گئی ۔ لاشوں کی بو نصف کلومیٹر
تک پھیل گئی کیونکہ پوسٹ مارٹم ہاوس کےچار4 ڈیپ فریزر میں سے تین خراب پڑے
ہیں ۔ ایسے میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے تو ایک اے سی بھیجا مگر انتخابی
مہم میں مصروف یوگی سرکار کو توفیق نہیں ہوئی ۔ وزیر اعلیٰ کے دفتر سے
عارضی مقام کے بندوبست کی یقین دہانی کے بعد کہا گیا کہ موت کی وجہ پوسٹ
مارٹم رپورٹ کے بعد پتہ چلے گی حالانکہ وہ رپورٹ بھی موت کےلوُ لگنے سے
ہونے تصدیق نہیں کرسکتی۔ قومی ذرائع ابلاغ کم ازکم گرمی سے مرنے والوں کے
رشتے داروں کی مدد کرسکتا ہے مگر اسے تو سیاسی خبروں سے فرصت ہی نہیں تھی ۔
فی زمانہ الیکشن زمینی سطح سے زیادہ میڈیا میں لڑا جاتا ہے۔ وزیر اعظم
نریندر مودی نے اپنی عمر کے 75؍ویں سال میں اسی مناسبت سے 75 ؍ دنوں کا
انتخابی پروگرام بنایا جو 15؍ مارچ کو کنیاکماری سے شروع ہوکر 30؍ مئی کو
وہیں ختم ہوگیا۔ یکم جون کو وارانسی میں پولنگ ہوئی اور گودی میڈیا کے سارے
کیمرے کنیا کماری میں مودی جی کے پل پل کی خبر دیتے رہے ۔ وزیر اعظم کے لیے
بری خبر یہ ہے کہ بدقسمتی سے عوام نہ صرف ان سے بلکہ ان کے غلام میڈیا سے
بھی بیزار ہوکر سوشیل میڈیا کی جانب نقل مکانی کرچکی ہے اور وہاں راہل
گاندھی نے انہیں کھلی مات دے دی ہے ۔ سابق ٹویٹر یعنی ایکس ہو یا یو ٹیوب
دونوں مقامات پر مودی کے مقابلے راہل کے ہر پیغام کو دیکھنے والوں اور اسے
آگے بڑھانے والے ناظرین کی تعداد میں بہت بڑا فرق واقع ہوچکا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس وسائل زیادہ ہیں اس لیے ان کے پاس کمیت تو ہے
مگر کیفیت نہیں ہے اس کے برعکس راہل گاندھی سوشیل میڈیا پر کم آتے ہیں مگر
چھا جاتے ہیں۔ اس کو اعدادو شمار کی روشنی میں دیکھیں تو یکم اپریل سے
20؍مئی کے دوران راہل نے کل120 اور مودی نے 1159پوسٹ بھیجیں ۔ اب ظاہر دس
گنا زیادہ لکھی جانے والی پوسٹ کو پسند کرنے والے زیادہ بھی ہوں گے جبکہ اس
کے لیے آئی ٹی سیل نے بہت سارے لوگوں کو ٹھیکے پر رکھ چھوڑا ہے لیکن یہ
تعداد دس گنا زیادہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی پوسٹ کوایک کروڈ 90 لاکھ لوگوں
نے پسند کیا مگر راہل کو پسند کرنے والوں کی تعداد 40؍ لاکھ تھی۔ اس کاا
وسط نکالیں تو مودی کے مداح فی پوسٹ 17؍ہزار بنتے ہیں جبکہ راہل کے 38؍ہزار
یعنی دوگنا دسے زیادہ۔ ان پیغامات کو آگے بڑھانے والوں کی تعداد میں مودی
بظاہر آگے نظر آتے ہیں کیونکہ انہیں تقریباً 48 لاکھ 80ہزار لوگوں نے ری
پوسٹ کیا جبکہ راہل کے لیے یہ تعداد صرف 15 لاکھ ہے مگر یہاں بھی اوسط
نکالیں تو فی پوسٹ ری ٹویٹ کے معاملے راہل 12ہزار اور مودی جی ان سے ۳گنا
کم 4 ہزار پر ہیں ۔
سوشیل میڈیا کے اندر یہ جو فرق آیا ہے اس کی وجہ محض عقیدت نہیں ہے بلکہ
اگر ان موضوعات کا موازنہ کریں جن پر دونوں حضرات نے قلم سرائی کی تو وجہ
سمجھ میں آجاتی ہے۔ ملک کے عوام مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان ہیں ان
دونوں موضوعات پر وزیر اعظم نے ایک بھی پوسٹ نہیں کیا جبکہ راہل گاندھی نے
بالترتیب 6؍ اور 8؍ مرتبہ لکھا یعنی 120میں 14پوسٹ ان سلگتے موضوعات پر
تھیں جن سے لوگ فکر مند ہیں۔ اس کے برعکس وزیر اعظم نے11؍ پوسٹ رام مندر پر
لکھ ڈالیں جس میں عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ راہل نے اس پر ایک مرتبہ
بھی قلم کو جنبش دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ کسانوں اور ریزرویشن پر دونوں
نے لکھا۔ وزیر اعظم نے سب سے زیادہ ریزرویشن پر ہی لکھا یعنی ہم وہ
مسلمانوں کو نہیں دیں گے اور وہ 12مرتبہ تھا جبکہ 7 بار راہل گاندھی نے بھی
لکھ دیا۔ کسانوں پر بھی مودی نے 15 پیغامات لکھے جبکہ راہل نے 4 بار قلم
اٹھایا لیکن چونکہ ان کے جملہ پیغامات ہی کم تھے اس لیے یہ فطری ہے۔
راہل سے مودی کو جو الرجی ہے وہ ایک انٹرویو میں ظاہر ہوگئی جب انہوں نے
پوچھ لیا کون راہل ؟ انہوں ایک بھی پیغام میں راہل کا نام نہیں لیا جبکہ
200 بار کانگریس کا ذکر کیا جبکہ راہل نےصرف 22 مرتبہ بی جے پی کو نشانہ
بنایا ۔ اس دوران راہل کے نشانے مودی رہے اور ایک تہائی سے زیادہ یعنی 45
پوسٹ میں وزیر اعظم کا نام لے کر ان پر حملہ کیا گیا۔ یو ٹیوب پر تو راہل
نے مودی کو دھوبی پچھاڑ دیا کیونکہ جہاں راہل کے ناظرین کی تعداد47
کروڈ83لاکھ تھی وہیں مودی جی دیکھنے والے صرف 26 کروڈ 28 لاکھ تھے۔ اس طرح
انتخابی نتائج جو بھی ہوں سوشیل میڈیا میں تو راہل نے مودی کو مات دے ہی دی
ایسے میں کنیا کماری میں بیٹھ کر نوٹنکی سے کیا فرق پڑے گا اس کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں ہے۔ ویسے انتخابی مہم کی تقاریر میں بھی مودی کے ذہن پر
مندر مسجد کا مدعا چھایا رہا اور انہوں انتخابی کمیشن کی تنبیہ کے باوجود
421 بار مندر-مسجد کا نام لیا اور 224 مرتبہ مسلمان یا اقلیت کے تعلق سے
بولے اس طرح انہوں ازخود اپنے آپ کو عوام کے مسائل سے بے تعلق کرکے اپنی
اہمیت گنوا دی۔
بی جے پی کی اس انتخابی مہم پر نظر ڈالی جائے تو پچھلے سال کھیلے جانے والے
کرکٹ ورلڈ کپ کی یاد آتی ہے۔ اتفاق سے اس کی میزبانی ہندوستان نے کی تھی
اور جو پانچ صوبوں کی انتخابی مہم کے دوران کھیلا گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں
سیمی فائنل تک ہندوستانی ٹیم نے سارے میچ جیت کر خود کو ناقابلِ تسخیر ثابت
کردیا اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو روند کر فائنل میں پہنچ گئی۔ اس
وقت مودی سمیت ساری دنیا کو لگ رہا تھا کہ آسٹریلیا کی ٹیم ہندوستان کے
سامنے ٹک نہیں سکے گی ۔ اسی لیے فائنل کھیلنے کے لیے احمدآباد کے مودی
اسٹیڈیم کا انتخاب کیا گیا ۔ مودی جی خود امیت شاہ سمیت میچ دیکھنے پہنچے ۔
اجئے شاہ نے پچ کو اپنے حق میں کرنے کی خاطر سارے حربے استعمال کیے مگر وہ
سب دھرے کےدھرے رہ گئے اور ٹیم انڈیا بری طرح ہار گئی ۔ مودی جی حسرت سے
ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس بار انتخابی مہم کے آخری مراحل میں آئی پی ایل کا
فائنل کھیلا گیا ۔ اس میں نہ تو گجرات ٹائٹنس تھی اور نہ لکھنو جائنٹس جبکہ
امبانی کی ممبئی انڈینس ٹیم سب سے نیچے پہنچ گئی۔ فائنل مقابلہ سن رائزر
حیدرآباد اور کولکاتہ نائٹ رائیڈرس کے درمیان ہوا اور 2014 کے بعد پہلی
بار شاہ رخ کی ٹیم میچ جیت گئی۔ انتخابی ٹورنامنٹ کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ
وقت بتائے گا لیکن اگر کرکٹ جیسا نکل آئے تو مودی جی کو جھولا اٹھاکر جانا
پڑے گا۔
سیاسی گرمی سے سورج کے قہر کی جانب لوٹیں تو یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پچھلے
سال بھی اسی طرح کی گرمی پڑی تھی ۔ اس وقت اترپردیش کے ایک ضلع میں دودنوں
کے اندر 68 افراد کی ہلاکت کے لیے ہیلتھ افسرنے گرمی کی شدت کو ممکنہ وجہ
بتایا تو اس کا تبادلہ کردیا گیا اور ٹال مٹول کے لیے ریاستی حکومت نے ایک
پینل بنا کر ہلاکتوں پر جامع رپورٹ بنانے کے بہانے معاملہ رفع دفع کردیا ۔
ریاستی نائب وزیر اعلی برجیش پاٹھک نے ڈاکٹر سنگھ کے بیان کو ’لاپروائی‘
قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ’کسی اور ضلع سے ایسی ہلاکتوں کی اطلاعات نہیں
ملیں۔‘سوال یہ ہے کہ اگر اطلاع دینے والے کو تبادلہ کی سزا دی جائے تو کون
بولے گا؟ اس وقت اگر مذکورہ کمیٹی سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لے کر سفارشات
پیش کرتی اور اس پر عملدرآمد ہوتا تو امسال کانپور کے ڈاکٹر واگھمارے پوسٹ
مارٹم کرتے ہوئے غش کھاکر نہیں گرتے مگر سرکار پر عوام کی فلاح وبہبود نہیں
بلکہ اپنی کرسی بچانے کا جنون سوار ہے جبکہ ایک عالمی تحقیقی ادارے کے
مطابق سنہ 2017 سے 2021 کے درمیان ہندوستان میں گرمی کی شدت سے ہونے والی
ہلاکتوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سیاستدانوں اور میڈیا کومرنے والوں کے
ووٹ کی فکر تو ہے مگر جان کی نہیں ۔
|