پاکستان کے معاشی حالات کی پستی کی وجوہات

جھوٹ کے طوفان میں سچ تلاش کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے یہی حال اس وقت پاکستان کا ہے جہاں پروپیگنڈا کرنے والے اکثر شہری بنا جانچ پڑتال کیے اور بنا تحقیق کیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایسا مواد لکھتے ہیں یا شیئر کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اس آرٹیکلمیں ہم آپ کو پاکستان کے معاشی حالات کی پستی کی وجوہات، سوشل میڈیا پر موجود منفی اور حقیقت سے عاری کنٹینٹ کی بھرمار، بالخصوص پاک فوج اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف‏منفی پروپگنڈا سے متعلق چند حقائق پر مبنی وجوہات بیان کریں گے اور دلائل کے ساتھ ان تمام مسائل کا حل آپ کے سامنے رکھیں گے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ممالک نے برطانیہ سے ازادی حاصل کی۔ 1947 کے بعد سے برصغیر کے یہ دونوں ممالک اپنے اپنے طرز کے ساتھ ترقی کا سفر طے کرنے لگے پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں ایا تھا اور اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا جبکہ بھارت ایک سیکولر سٹیٹ کے طور پر وجود میں ایا۔ چونکہ یہ دونوں ممالک ایک ساتھ ازاد ہوئے اس لیے اکثر پاکستان اور بھارت کا کمپیریزن مختلف شعبوں میں کیا جاتا ہے۔ اور دوسری وجہ دونوں ممالک کی آپس کی دشمنی ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک تین بڑی جنگیں اور لا تعداد جھڑپیں لڑ چکے ہیں۔ کنفلکٹ کی سب سے بڑی وجہ کشمیر، سیاچن اور کریک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھیلوں کے میدان سے لے کر سفارتی، سیاسی اور معاشی شعبوں میں بھی دونوں ممالک حریف یا رائولز کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رقبے کے اعتبار سے بھارت پاکستان سے چار گنا بڑا ملک ہے اس لیے دونوں ممالک کے ریسورسز اور پوٹینشل اسی ریشو کے اعتبار سے اپنا امپیکٹ ڈالتے ہیں۔ بلا شبہ بھارت ایکانمی کے میدان میں بھی پاکستان سے کافی اگے نکل چکا ہے جب کہ پاکستان ائی ایم ایف کا مقروض ہے اور اج کی تاریخ تک پاکستان پر کل چھ اشاریہ پانچ بلین یو ایس ڈالر کا قرضہ ہے۔

پاکستان کی تنزلی یا ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجوہات پر اگر ہم جائزہ لیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنا احتساب کرنا ہوگا اور یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ 1947 میں ازاد ہونے والا ہمارا پڑوسی ملک کچھ شعبوں میں ہم سے اگے نکل گیا اور پاکستان معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہے۔
سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کرنے والے افراد سے میرا ایک سوال ہے کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے پاکستان کا ائین ڈاؤن لوڈ کر کے تفصیل کے ساتھ پڑھا ہے؟
جو لوگ پاکستان کا کمپیریزن بھارت سے کرتے ہوئے ایک طنزیہ اور مزاحقہ خیز لہجے میں بھارتی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی دائرے سے باہر نکل کر، اپنی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی تمام ناکامیوں اور محرومیوں کا موجب افواج پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔میں آپ کو بتاتا چلوں کہ بھارتی ائین نومبر 1949 میں مرتب کر لیا گیا تھا۔ جو کہ وہاں کی پارلیمنٹ نے 1950 میں امپلیمنٹ بھی کر دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان کا تیسرا ائین 1973 میں نافذ العمل ہوا اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کی قابلیت کیا رہی یعنی ہمیں اپنا سپریم لا نافذ کرنے میں ہی تقریبا 25 سال لگ گئے میں امید کرتا ہوں کہ اس بلاگ پر کمنٹ کرنے سے پہلے آپ موجودہ بھارتی ائین اور پاکستانی ائین کو تفصیلا پڑھ کر اس بات سے متفق ہوں گے کہ ایک مضبوط جامع اور مروجہ سپریم لا کا وقت پر لاگو ہونا کتنا اہم ہے۔

بھارتی ائین کے مطابق ڈول نیشنلٹی کا کوئی کنسپٹ نہیں ہے یعنی اگر کوئی شہری والنٹیرلی کسی بیرونی ملک کی نیشنلٹی لیتا ہے تو اسے بھارتی نیشنلٹی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اس ارٹیکل کے تحت قومیت واضح ہو جاتی ہے اور اور یہ شہریت کا قانون بھارت کے تمام شہریوں کے لیے یکسر لاگو ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے ملک کے ساتھ لائلٹی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے ائین میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی جس کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ بیرون ملک بیٹھ کر اپنے ہی ملک کے خلاف بھرپور پروپگنڈا کرتے ہیں اور جیسے ہی ان کے لیے حالات سازگار ہوتے ہیں وہ وآپس اپنے ملک پاکستان میں ا جاتے ہیں اس طرح حب الوطنی اور لوئلٹی ایک مذاق بن جاتی ہے-

پاکستانی پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں کی کمزوری کے بعد دوسری بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے پورے ملک میں شرح خواندگی کا نمبر ترقی یافتہ ممالک سے کافی پیچھے ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والا ملک تعلیم کے شعبے میں اپنے حریفوں سے کوسوں پیچھے رہ گیا ہے جس کی وجہ عوام اور ہماری پارلیمنٹ خود ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ملک کی اکثریت نے پاکستانی ائین کبھی نہیں پڑھا بلکہ اس کی کاپی انگلش میں ہونے کی وجہ سے سب کے لیے پڑھنا ممکن ہی نہیں افسوس اسی بات کا ہے کہ پورے ملک میں تعلیم کے یکساں اور معیاری مواقع سب کے لیے میسر نہیں۔ حاضری لگانے میں چیٹنگ، امتحانات کے دوران چیٹنگ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جعلی ڈگری کے اجرا جیسے گھناؤنے جرائم اس ملک کی افواج نے نہیں بلکہ خود عوام نے اور ان کے نمائندوں نے کیے ہیں یا ہونے دیے ہیں۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ بلوچستان کے ایک وزیر کا ایک غیر معروف قول ہماری عوام کی اکثریت نے کافی سراہا تھا کہ ڈگری اصلی ہو یا جالی ڈگری ڈگری ہوتی ہے۔ یا حالیہ دنوں میں ایک ٹی وی پروگرام کے دوران ایک جماعت کے سیاسی لیڈر دوسری جماعت کے سیاسی لیڈر سے ہتھا پائی کرتے ہوئے پائے گئے اور پروگرام کے بعد اس جملے کو کافی پذیرائی ملی کہ اس حماقت کے بعد کیا پروگرام جاری رہا؟ نہیں نہیں پروگرام کدھر جاری رہا پروگرام تو وڈ گیا۔۔ ان کا عظیم قول اس قوم نے ایک تحفے کے طور پر لیا سوشل میڈیا کے ٹھیکے داروں نے لا تعداد میمز بنائی اس واقعہ پر یہ نتیجہ اخذ کرنا بلا شبہ درست ہے کہ پروگرام اس چینل کا نہیں بلکہ 20 کروڑ عوام کا وڑ چکا ہے۔ یہی نہیں لاہور کا پاوا سے لے کر کسی شادی یا بیاہ کے ایونٹ کے دوران بننے والی کوئی ڈانس وغیرہ کی ویڈیو بھی عوام کی بھرپور توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ اور پاکستانی مین سٹریم میڈیا کے مارننگ شوز کا پسندیدہ کنٹینٹ بن جاتی ہے ۔پاکستان کا کوئی چینل معلوماتی یا ٹیکنالوجی سے بھرپور کسی پروگرام کو فروغ نہیں دینا چاہتا جس کی وجہ بھی عوام خود ہے کیونکہ تعلیم ریسرچ یا حقیقت کو جاننا، سچ بات کہنا اور سننا ٹاپ ٹرینڈنگ نہیں بنتا۔ اس کے برعکس ولگر اور نان سیریس کنٹینٹ یا پروپیگنڈا کو بنا تحقیق کیے فروغ دیا جا رہا ہے اور ملک بدستور تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ علم و اگاہی کا رجحان نہ ہونا اور سنی سنائی باتوں کو اگے پھیلاتے جانا سوشل میڈیا کے اس دور میں کافی اسان ہو چکا ہے -اور جب ایسے طبقے کو ان کی بدحالی کی اصل وجہ بتائی جاتی ہے تو اس سے منکر ہو کر باسانی الزام تراشی کا سہارا لیتے ہیں۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے اپنے ائین کو کافی موثر لکھا اور ان کی سیاسی لیڈرشپ نے اپنے فہم کے ساتھ ملک کی خارجہ پالیسی مرتب دی اور تعلیم کے شعبے کو کافی اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اج اپنے کیے گئے ان اقدامات کا فروٹ کھا رہا ہے۔ دوستو آپ یقین کیجئے فرق صرف اتنا ہے اس سے زیادہ نہیں ہے ۔اگر اج بھی ہم ان دو شعبوں پر مکمل محنت کے ساتھ کام کریں تو ہم بھارت سے بھی کافی اگے بڑھ سکتے ہیں۔ غربت اور بدحالی میں بھارت ہم سے کافی پیچھے ہے وہاں کے بڑے شہروں میں مسائل پاکستان کے بڑے شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں فرق یہ ہے کہ ان کا میڈیا یا ان کی عوام اپنی بدحالی کا اتنا پرچار نہیں کرتی جتنا ہمارے ملک میں کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹس موجود ہیں کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت پاکستان سے کافی پیچھے ہے بلکہ روانڈا اور یوگنڈا سے بھی پیچھے ہے۔ اسی طرح ان کے شہروں میں قبضہ مافیا کنکریٹ کے جنگل بچھائے چلی جا رہی ہے بڑھتی ابادی اور وسائل کی کمی ان کے تمام بڑے شہروں میں آپ اسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔

گزشتہ سال بھارت میں موجود برٹش دور کے کنٹونمنٹس جن کی تعداد 62 ہے کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی جس کے مطابق کنٹونمنٹس میں موجود سویلین ابادی کو ملٹری یونٹس سے علیحدہ کر کے منسپلٹی کے زیر تسلط کرنا تھا جس پر وہاں کی فوج کے کچھ سیکیورٹی کنسرنز تھے ۔چونکہ اس خبر پر بھی ہمارے ملک کے کچھ لوگوں نے کافی تبصرہ کیا تھا اور بنا تحقیق کیے سوشل میڈیا پر کافی پروپگینڈا کیا تھا حالانکہ کسی ناقد نے اصل وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہاں برٹش دور کے کنٹونمنٹس ختم کرنے کا مطالبہ کیوں کیا گیا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہاں کی گورنمنٹ کی ہاؤسنگ سکیمز جو کہ عام شہریوں کے لیے کافی مددگار ثابت ہوتی ہیں کنٹونمنٹس میں لاگو نہیں ہو پاتی تھی جس کی وجہ سے عام شہریوں نے مطالبہ کیا کہ کنٹونمنٹس ختم کیے جائیں اور سول ابادی کے علاقوں کو منسپلٹی کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ بھی ہاؤسنگ سکیموں سے مستفید ہو سکیں۔ لوگوں کی اکثریت ایسی بھی تھی جو اس تجویز سے متفق نہیں تھی کیونکہ ان کے مطابق کنٹونمنٹس کے علاقے شہر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ صاف اور منظم دکھائی دیتے ہیں- اگر کنٹونمنٹ بورڈز ختم کر دیے گئے تو یہ علاقے بھی درختوں کی کمی کا شکار ہوں گے اور بیوروکریسی اور لینڈ شارکس کی مدد سے کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو جائیں گے۔ بیوروکریسی ایک ایسی لعنت ہے جو دونوں ممالک کو دیمک کی طرح کھا گئی ہے حالات کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیوروکریسی کے سسٹم کو ایک انقلابی ری سٹرکچرنگ کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے میں آپ چلے جائیں وہاں کام کی سست رفتار اور سپیڈ منی جیسی لعنتوں سے اچھی طرح آپ کی واقفیت ہو جائے گی -اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلامی طور طریقوں سے نہیں چلایا جا رہا اور سول سروسز کرنے والے اج بھی اپنے آپ کو برٹش کلونیل ریاستوں کا ملازم سمجھتے ہیں۔ اکثر کو آپ کہتے سنیں گے کہ تقسیم سے پہلے ایک سی ایس ایس کوالیفائیڈ افسر کی تنخواہ 19 تولہ سونے کے برابر تھی شاید اسی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے باقی ماندہ رقم حرام طریقوں سے پوری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں یعنی ان کے لیے اج بھی برٹش روئلٹی زندہ ہے۔ اور پاکستانی عوام کرپشن کا بوجھ مہنگائی اور عام سہولتوں کی عدم دستیابی کی صورت میں برداشت کرتی ہے۔ یہ پاکستان تو نہ ہوا یعنی لا الہ الا اللہ تو نہ ہوا بلکہ ایسے محکموں میں رشوت خوری کی مد میں حرام کمائی کی پوجا کی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے۔ آپ کی اکثریت نے سرکاری اداروں جہاں پبلک ڈ ی لنگ کی جاتی ہے ایسا ماحول دیکھا ہوگا۔ اور اپنا قیمتی وقت معمولی کاموں کی تکمیل کے لیے ضائع کیا ہوگا۔

اگر ہم پاکستان کی سٹرینتھ کی بات کریں تو بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی دشمنی کی وجہ سے پاکستان نے اپنا دفاع کافی مضبوط کیا ۔اغاز ہی میں جب بھارت نے کشمیری ریاست پر اپنا تسلط قائم کیا تو افواج پاکستان نے 1948 میں ایک مشکل جنگ اور قربانیوں کے بعد کشمیر کا کچھ علاقہ ازاد کروایا ۔کشمیر پاکستان کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ پاکستان کے تقریبا تمام دریا چائنہ سے ہوتے ہوئے کشمیر سے گزرتے ہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان کشمیری بھائیوں کی امداد کرتا رہے گا نہ صرف یہ بلکہ سندھ تاس معاہدے کے تحت جو دریا پاکستان کے حصے میں ائے ان کا دفاع بھی پاکستان لازمی کرے گا۔

پاکستان کا ایک اہم مسئلہ ڈسپلن کی کمی ہے اج بھی آپ روڈ پر اکثر گاڑیاں دیکھیں گے جن کی نمبر پلیٹ کے بجائے گاڑی کے مالک یا وڈیرے کی ذات لکھی ہوتی ہے ۔یا آپ نے اکثر دیکھا ہوگا چند مصلح گارڈ بٹھا کر یا گاڑی پر ایمرجنسی ہارن لگا کر طوفان بدتمیزی مچایا جاتا ہے۔ قانون کی کمزوری اور نااہلی اس قدر ہے کہ ایسی گاڑیوں کو پولیس نہ تو روکتی ہے اور نہ کسی قسم کا چالان کر سکتی ہے۔ انہیں چالان نہ کرنے سے یا قانون اور ڈسپلن قائم کرنے سے افواج پاکستان نے تو نہیں روکا۔

ایک تنقید افواج پاکستان کے اہم اداروں فوجی فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن وغیرہ پر بھی کی جاتی ہے ۔ کہ یہ ادارے بزنس کرتے ہیں حالانکہ یہ تمام ادارے ملکی ٹیکس کے تمام قوانین کے مطابق چلتے ہیں- اور جس طرح تمام پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کا اڈٹ کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح ان کا بھی اڈٹ ہوتا ہے اور ان کمپنیز کی سالانہ فائننشل رپورٹس ان کی ویب سائٹس پر موجود ہیں جو کہ ہر شہری ڈاؤن لوڈ کر سکتا ہے اور پڑھ سکتا ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ پڑھنا مشکل ہے، اور سوشل میڈیا پر کمنٹ کرنا یا کسی پوسٹ کو شیئر کرنا اسان عمل ہے- پاکستانی معیشت اس قدر کمزور ہے کہ شہداء اور وار واؤنڈڈ افراد کی فیملیز کو ریلیف فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر کسی شخص نے اپنی جان ملک کے لیے قربان کی ہے تو اس شخص کی یا اس کی فیملی کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستانی افواج اگر ویلفیئر اداروں کی مدد سے اس قومی ذمہ داری کو پورا کرتی ہیں تو اس پر تنقید کرنا غیر مناسب ہے بلکہ کفران نعمت ہے۔

دوستو جیسا کہ میں نے آرٹیکل کے سٹارٹ میں کہا کہ پاکستان کا مسئلہ تعلیم کی کمی ،قوانین کی کمزوری اور ڈسپلن کی کمی ہے۔ مندرجہ بالا مسائل حل کرنے کے بعد اگر ہر شہری اپنے حصے کا کردار ادا کرے تو ہمارا ملک بھی ترقی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کر سکتا ہے۔ اس وقت ہمیں یونٹی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی مدد سے اپنے سفارتی تعلقات بین الاقوامی سطح پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر سکلڈ ورکرز کے لیے مالی طور پر مستحکم ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ وہاں جا کر محنت کریں اور سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے اچھا مستقبل بنا سکیں۔

Mumraiz Ahmed
About the Author: Mumraiz Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.