چائلڈ لیبر تلخ حقیقت

اللہ نے جن جرائم پر حدود نافذ کیں ان جرائم کی بیخ کنی کے لئے مکمل لائحہ عمل دیا گیا.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے ( کہ حلال ہیں یا حرام ) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو ( شاہی محفوظ ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے ( اور شاہی مجرم قرار پائے ) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔ ( پس ان سے بچو اور ) سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ جائے گا... (صحیح بخاری)

اب اگر کوئی باوجود اس کے کہ گناہ کرنے کے راستے دین کی تعلیمات نے دور کر دیئے، مثلا چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے مگر پہلے ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس کے شہری باروزگار ہیں ورنہ قحط سالی جیسی ہنگامی صورت حال میں تو عمر رضہ نے حدود اللہ بھی ساقط کر دی تھی.

اب ہم ریاست قانون بناتی ہے کہ اس کے 14 سال سے کم عمر بچے سے مزدوری نہ لی جائے گی، والدین کے لئے درست نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی مزدوری کھائیں... جناب قانون تو بڑا خوشنما معلوم ہوتا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں... یہ قانون تو ریاست کی چراگاہ تبھی کہلائے گا نا جب ریاست روزگار دے گی یر بچے کے والدین کو... اور ہر شہری کی مزدوری کم از کم اتنی ہو کہ وہ دو وقت کے کھانے، موسم کے کپڑے، رہائش کی سہولت اپنے اہل خانہ کو دے سکے، پھر اگر کوئی بچہ والد کی سرپرستی سے محروم ہو جائے اور قریبی رشتہ دار کفالت نہ کر سکتے ہوں یا یہ ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہ ہوں تو ایسے بچوں نے وظائف جاری کرنا حکومت کا کام یے. اینٹوں کے بھٹے، گھروں، فیکٹریوں، سڑکوں ہر کام کرنے والے بچے کے کفیل کو ریاست کی چراگاہ کی خلاف ورزی کا مرتکب تب ٹھہرایا جائے گا جب وہ تفریح طبع یا محض آمدنی میں اضافے کے لئے اپنے بچے کو کارخانے بھیجے گا....

اسلام اتنا خوبصورت مذہب ہے کہ اسے ایسے استثنائی صورتحال کے لئے قوانین نہیں لانے پڑتے.اس مکمل مذہب نے جامع تعلیمات دے دیں ہیں.اب اگر ہم ان تعلیمات پر عمل نہیں کرتے، دور عمر رضہ کو اپنے لئے مثالی نہیں بناتے تو محض قانون نافذ کرنا ایسا ہی ہو گا کہ نکاح ہر بھی پابندی لگا دی جائے اور زنا پر حدود بھی نافذ کی جائیں، بے روزگاری کا سد باب بھی حکومت نہ کرے اور چوری اور ڈاکے ہر حدود اللہ بھی نافذ کرے، شراب خانوں کو قانونی تحفظ بھی دے اور شرابی پر حدود بھی نافذ کرے... آئیے ،آدھے تیتر آدھے بٹیر بننے سے بچیں اور پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو کر ادخلو فی السلم کافتہ کا نمونہ بن جائیں.

آئیے ایسا دور پیدا کریں کہ زکوٰۃ لے لے کر پھریں اور لینے کا مستحق ملنے نہ پائے. یہی وہ دور ہو گا جب مغرب کے چائلڈ لیبر سے متاثر حکمران یہ قانون بھی نافذ کر سکے گا اور دہرے کردار سے بھی نکل پائے گا.
 

Nida Islam
About the Author: Nida Islam Read More Articles by Nida Islam: 95 Articles with 43325 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.