اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا

میری والدہ کو ہمیشہ سورۃ نشرح سے خاص لگاؤ تھا،وہ کہتی تھیں اس سورت کو پڑھنے سے نجانے کیوں قلبی اطمینان محسوس ہوتا ہے،میں نے کبھی اس بات پہ ذیادہ غور نہیں کیا۔وقت گزرتا گیا وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں اور زندگی اپنی ڈگر پہ چلتی رہی۔۔۔

2022 کہ جب زندگی نے وہ دھچکہ دیا کہ اب تک سنبھلنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ مجھے بھی ایک دن کینسر جیسی عفریت کا سامنا کرنا پڑے گا،آج بھی وہ لمحہ یاد ہے جب بائیپسی(biopsy) کی رپورٹ آتے ہی آغاخان ہاسپٹل سے ڈاکٹر کی کال آئی کہ فوراً آکر ملیں،عباس(میاں صاحب)اکیلے جارہے تھے،ضد کر کے میں بھی ساتھ چل دی۔ جب ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے بلڈ کینسر ڈائگنوز ہوا ہے، عباس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،مجھے تو اپنا کچھ یاد نہیں کہ اس لمحے میری کیا سوچ تھی،دماغ ہی سن ہوگیا تھا،بس میرے منہ سے اتنا نکلا کہ "میرے پاس کتنا ٹائم ہے؟" ڈاکٹر مسکرا دئے اور عباس سے کہا "دیکھیں ان کو، کتنی ہمت دکھا رہی ہیں،آپ ان کو حوصلہ دیں نا کہ خود ہمت ہار رہے ہیں۔۔۔۔" میں خود عباس کو تسلی دے رہی تھی کہ بے فکر رہو اتنی جلدی تمہاری جان نہیں چھوڑوں گی۔پھر ڈاکٹر تمام تفصیلات بتانے لگے مگر میرا ذہن تو جیسے ان کے اس جملے پر ہی اٹک گیا تھا،"آپ کو بلڈ۔۔۔۔" بوجھل قدموں ہی نہیں بلکہ دل و دماغ کے ساتھ گھر آئے ایک دوسرے کو تسلی اور حوصلہ دیتے رہے،عباس نے ہمیشہ ہر طرح میرا بہت محبت سے خیال رکھا، مرحوم ماں کی دعائیں تھیں اور میری خوش نصیبی کہ اللہ نے سادات گھرانے کے سید زادے کو میرا ہمسفر بنایا، جس نے میری ہر بیماری میں میرا سب سے بڑھکر ساتھ دیا اور دے رہے ہیں،اللہ پاک عباس کا سایہ میرے سر پہ میرے مرتے دم تک سلامت رکھے،آمین۔

اس بیماری کے دوران، تمام عرصے میں مجھے لوگوں کے اچھے برے رویوں کا بہت اچھی طرح تجربہ ہوا۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ کینسر کوئ موسمی بخار یا کوئ وائرل انفیکشنز نہیں کی چند دنوں میں ٹھیک ہو جاۓ گا۔ ایک کینسر پیشنٹ کو اس بیماری اور اس کے علاج کے دوران کس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پہ بھی، اسکے مزاج پہ کیا اثر پڑتا ہے ،کیسے اسکے موڈ بدلتے ہیں ،اس کے رویوں پر یہ بیماری کس طرح اثر انداز ہوتی ہے، اس بیماری سے گزرتے ہوئے مریض کو اپنوں کے پیار توجہ اپنائیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بیماری کے دوران لوگوں کے رویوں کو بہت قریب سے جاننے کا تجربہ ہوا۔

کسی نے دعائیں دیں تو کسی نے سیاسی اختلاف پہ بددعائیں (جی ہاں آجکل سیاسی اختلاف پہ گہری دوستی ہو یا سچی محبت سب ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں)، تو کسی نے بے پناہ محبتوں سے گلے لگایا، کسی نے شکوے شکایتوں کے انبار لگائے تو کسی نے خلوص کے پھول پیش کئے، کوئی بے وجہ ناراض ہو کر بیٹھ گیا تو کسی نے چاہتوں کے دیئے جلائے، کوئ کسی کے بھڑکانے سے بدگمان ہوگیا تو کسی نے حسن ظن سے نوازا۔منافقت کے نقاب بھی عیاں ہوئے جو بظاہر دین کا پرچار کرنے والے مگر حقیقی اخلاق سے نابلد، بچپن میں یہ شعر سنا تھا:

دنیا کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے
لب پر ہنسی دل میں کدورت لئے ہوئے

یہی سچائی ہے۔۔۔بہرحال ہر اچھا برا وقت گزر ہی جاتا ہے!!!

ان مشکل لمحات میں صرف اللٰہ ہی کی ذات ہے جس نے سب سے بڑھکر ساتھ دیا،میں نے شاید کبھی اللہ کو اتنے دل سے نہ یاد کیا ہو یا اتنا قریب نہ محسوس کیا ہو جتنا اس بیماری میں کیا۔۔۔

معاشرے کے ان تمام بے حس لوگوں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ کسی بھی کینسر کے مریض سے نہ لڑیں،اس کو اپنی بیماری سے لڑنے دیں! اگر آپ اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تو اس کو اپنے رویوں سے دکھ تکلیف بھی دیں، خدا نہ کرے آپ کو بھی اس بیماری سے گزرنا پڑے تو شاید جب آپ کو سمجھ آئے!
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ رشتے، رشتےدار کسی حال میں نہیں بخشتے ،چاہے آپ بستر مرگ پہ ہی کیوں نا ہوں، یاد رکھیں صرف اللہ ہی بخشنے والا ہے!!!

بس آپ کو اللّٰہ پہ یقین مضبوط رکھنا ہے، اس رب نے کہا ہے نا کہ : اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا: "بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے"۔ اس آیت نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔ اور مجھے اب احساس ہوا کے امّی کیوں اس سورۃ پہ اپنے قلبی اطمینان کا اظہار کیا کرتی تھیں ، واقعی اللّٰہ تعالیٰ اگر مشکل دیتا ہے تو اس کے ساتھ آسانی کی راہ بھی دکھاتا ہے۔ اور وہ راہ مجھے مل چکی تھی۔ اور یہ اللّٰہ ہی کا احسان اور اس کی دی ہوئی آسانی تھی کہ اس نے ملک کے بہترین ہاسپٹل میں بہترین علاج کروانے کی توفیق عطا کی جو تا حال جاری ہے ، فیملی نے میرے دوستوں نے اور میرے اسٹوڈنٹس نے میرا بھرپور ساتھ دیا، انشاءاللہ جلد ایک دن اس عفریت سے جان چھڑا لونگی اللہ کے کرم سے!

ہاں2023 میرے لئے ہمیشہ خاص رہے گا کیونکہ مجھے ایک گوہر نایاب ملا جرمنی سے درآمد شدہ جس نے مجھے زندگی کو اک نئے رخ سے دیکھنے کی سمت دکھائ، جس سے میرا یقین اپنے رب پر مزید پختہ ہوگیا۔ یہ بھی خدا کی دی ہوئی آسانیوں میں سے ایک تھی! ہر حال میں اللّٰہ کا شکر ادا کرنا اپنا معمول بنالیں پھر دیکھیں اس رب کی رحمت!

اپنے تمام پرخلوص ساتھیوں کا تہہ دل سے شکریہ ان تمام لوگوں کے لئے دعائے خیر جنھوں نے ساتھ دیا اور جنھوں نے نہیں دیا۔ اس بیماری کے دوران میں نے اپنا احتساب بھی کیا اور اعتراف بھی کیا!

اپنا محاسبہ کرنے کے لئے کسی بیماری کا انتظار نہ کریں بلکہ ہر لمحہ اس عمل کو جاری رکھیں۔ پتہ نہیں کیوں اور کب تک ہم اپنی غلطیوں کوتاہیوں رویوں کی ذمے داری ہمیشہ دوسروں پہ ہی ڈالتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟ یا اللہ ہم سب کو ہدایت دے، اور تمام بیماروں کو شفاء و سلامتی دے۔ آمین

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

Sabeen Abbas
About the Author: Sabeen Abbas Read More Articles by Sabeen Abbas: 3 Articles with 2029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.