سال بعدپھرتین چار دن گاؤں میں قیام کرناپڑا۔پچھلی
بارعیدپرگاؤں جاناہواتھالیکن اب کی باردامن میں گراغم کاایک پہاڑہمیں
پہاڑوں کے آغوش میں کھینچ کے لے گیا,جون کاپہلاہفتہ بھاری بہت بھاری
رہا۔بدھ کی شام گاؤں سے قریبی عزیزماسٹریاسرکی کال آئی کہ بزرگوں کی وراثت
حیات میں باقی آخری شمع بجھ گئی ہے۔یہ ساس ماں کی دنیاسے جانے کے بارے میں
ایک پیغام تھاجوسورج ڈھلنے کے ساتھ ہی قیامت بن کے ٹوٹ پڑا۔ساس ماں کی اس
اچانک جدائی پرقیامت کے اسی عالم میں پھرراتوں رات گاؤں جاناہوا،اﷲ ماں جی
کوجنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام نصیب فرمائے۔آمین۔ہماری ساس ماں یہ
ہمارے پاس اپنے بڑوں اوربزرگوں کی آخری نشانی تھی۔بڑی پاک سیرت اورانتہاء
درجے کی نیک خاتون تھیں،ان کی زندگی کااکثرحصہ اﷲ کی عبادت میں گزرا،یوں
تووہ سالوں سے صاحب فراش اوراس کی زندگی داواؤں پرگزررہی تھی لیکن پچھلے
ایک سال سے جسمانی وذہنی حالات کچھ زیادہ ہی بگڑگئے تھے،عمرکاتقاضاتھاکہ
بہت سارے ڈاکٹروں سے علاج معالجہ کے باوجودکوئی افاقہ نہیں ہورہاتھا۔ہمیں
یادہے کہ آخری بارجب ہم گاؤں گئے تھے ساس ماں کی طبعیت اس وقت کچھ زیادہ ہی
خراب تھی،ایک تومسلسل خرابی صحت کے باعث جسم بھی بہت کمزورہوگیاتھااوپرسے
داواؤں کانشہ اوراثراس قدرگہراہوتاکہ اسے اکثراوقات دن رات اورصبح وشام
کاپتہ ہی نہ چلتالیکن اس حال میں بھی اس نے اپنے رب سے واسطہ اورناطہ کبھی
نہیں توڑا۔ایک دن اسی طرح ہم سب اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے تھے اوروہ
بیڈپرنیم بے ہوشی کے عالم میں دردوتکلیف سے کراہ رہی تھی کہ اسی حال میں
اچانک دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اورپھرآہستہ آہستہ ہونٹ ہلانے لگی
قریب بیٹھے ہمارے سالے ڈاکٹرروح الامین نے پوچھاماں جی کیاکررہی ہیں آپ؟وہ
بولی،نمازپڑھ رہی ہوں۔اس نے ہنستے ہوئے پوچھااب تونمازکاٹائم نہیں کونسی
نمازپڑھ رہی ہیں آپ۔؟وہ دھیمے لہجے میں بولی،عشاء کی نماز۔ماں جی تہجدکی
بھی بڑی پابندتھیں،ہمیں نہیں یادکہ صحت وتندرستی کے زمانے میں تہجدکی
نمازاس سے کبھی رہ گئی ہو۔فجرکی نمازکے بعداشراق تک توذکرواذکارمیں مشغول
رہنااس کی ایک عادت تھی،ہم نے اس کی زبان سے کبھی کسی کی غیبت اورکوئی
برائی نہیں سنی۔ہم بھی اگرغیبت کے ذریعے اپنے کسی مسلمان بہن بھائی کاگوشت
کھانے اورنوچنے کی کوشش کرتے تووہ ہمیں فوراقبرحشریادکرکے اس گناہ سے بچنے
کی تلقین وتاکیدکرتی۔ہائے۔کیسے ہیرے لوگ تھے،ایسے لوگ اب مشکل ہے کہ یہ
دنیاپھرکبھی دیکھے۔ہماراگاؤں بزرگوں اورماں جی جیسے نیک لوگوں سے اب
تقریباخالی ہوگیاہے۔اﷲ سے ڈرنے والے لوگ ایک ایک کرکے اب سارے جاچکے
ہیں۔ماں جی اس نیک قافلے کی آخری سوار تھی اب وہ بھی رخصت ہوگئیں۔خیمہ اب
خالی ہوچکا،وہ گاؤں،وہ درودیوارجوبڑوں اوربزرگوں کی برکت سے چودہویں کی
چاندکی طرح چمکاکرتے تھے اب وہ ویران اورمکین اداس ہیں۔بڑوں کے وجودسے
گھروں میں برکت اورعلاقے میں ہرطرف رونق سی تھی،بڑے جہاں رہتے وہاں عزت
کاسماں ہوتا،ان کے چلنے اورگزرنے پرراستے بھی رشک کیاکرتے تھے،جوں جوں بڑے
ہم سے روٹھتے جارہے ہیں اتنے ہم،ہمارے گھراورعلاقے ویران ہوتے جارہے
ہیں۔پہلے اتنے وسائل تھے اورنہ یہ ہزاروں سہولیات لیکن پھربھی بڑوں کی برکت
سے ہرطرف امن،سکون اورخوشحالی کاراج ہواکرتاتھا،آج وسائل بھی بے
شماراورسہولیات بھی ہزاروں پربڑوں اوربزرگوں کے نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے
میں نہ امن ہے نہ سکون اورنہ خوشحالی۔ہمیں مانناپڑے گاکہ ہمارے بڑے ہمارے
سب کچھ تھے اورہے۔دنیامیں ہماری یہ جوکوئی عزت،شہرت اورکامیابیاں ہیں یہ
ہمارے انہی بڑوں کی مرہون منت ہے۔ہمیں اپنے بڑوں اوربزرگوں کی قدرکرنی
چاہیئے۔جہاں بڑے نہیں ہوتے وہاں پھروسائل کے ہوتے ہوئے بھی قدم قدم
پرہزاروں قسم کے مسائل سے گزرناپڑتاہے۔نادانوں کوبڑوں اوربزرگوں کی
قدروقیمت کااس لئے نہیں پتہ کہ ان کے سروں پربڑوں کاسایہ قائم ہے۔بڑوں کی
قدروقیمت ان سے پوچھیں جواس سائے کوترستے ہوئے کھلے آسمان تلے تپتی دھوپ
میں سائبان ڈھونڈرہے ہیں۔جس گھر،علاقے،ملک اورمعاشرے میں بڑانہ ہووہ
گھر،علاقہ،ملک اورمعاشرہ تباہ ہوکررہ جاتاہے۔بڑے اوربزرگ لوگ یہ معاشرے
کاحسن اورہرخاص وعام کے لئے رحمت کاباعث ہوتے ہیں۔جہاں بزرگ اورنیک لوگ ہوں
وہاں اﷲ کی رحمتیں برستی ہیں۔سوچھوٹے مل کربھی ایک بزرگ کی خلاپرنہیں
کرسکتے۔بڑوں پربڑی دنیاآبادہوتی ہے۔اس کااحساس تب ہوتاہے جب بڑوں کاسایہ
سرسے اٹھ جاتاہے۔بڑے یہ ہماراآسرابھی ہیں اورسہارابھی۔اﷲ کسی کوبڑوں کے
سایہ سے محروم نہ کرے ۔آمین
|