الفاظ کا سحر الفاظ سے نہیں
اقدام سے ٹوٹتا ہے ۔نریندر مودی نے اپنی سالگرہ کے دن عوامی برت رکھنے سے
قبل گجرات کی عوام کو ایک کھلا خط لکھا تھا ۔اس ڈھکوسلے کے جواب میں سنجیو
بھٹ نے ایک کھلاخط مودی کو لکھا لیکن مودی کے نقار خانے میں وہ طوطی کی
آواز دب گئی۔بھٹ نے اپنے خط کا خاتمہ بھوشن سونم کی ایک نظم پر کیا تھا جس
کا آزاد ترجمہ یوں ہے:
میرے پاس اقدار ہیں اور اقتدار نہیں ہے
تیرے پاس اقتدار ہے مگر اقدار ندارد ہیں
تو ،توہے اور میں ، میں ہوں
مصالحت ممکن نہیں ہے
اس لئے ہوجائے آغازِ جنگ
ایک تماشے کا اہتمام کر کے مودی نے اپنے آپکو وزیرا عظم نہ سہی تو اس کا
امیدوارضرور بنا لیا ۔اس کی آواز اس قدر بلند تھی کہ امریکہ تک میں اسکی
بازگشت سنائی دی ۔جب ساری دنیا مودی کے کفارے کا راگ الاپ رہی تھی اور اسکے
سدبھا ؤنا کے سیلاب میں بہی جارہی تھی تو سنجیو بھٹ نے آگے بڑھ کر ایک
نہایت دلیرانہ اقدام کر ڈالا اور ہرین پنڈیا کے قتل کے بارے میں اپنا حلف
نامہ عدالت میں داخل کر دیا ۔ اس سے پہلے وہ فسادات کے حوالے سے حلف نامہ
عدالت میں داخل کر چکے تھے جس کی وجہ سے انہیں ملازمت سے معطل کر دیا گیا
تھا ۔ فسادات کے بارے میں انہوں نے انکشاف کیا کہ مودی نےبذاتِ خود نے
ہندووں کو اپنا غصہ نکالنے کی مکمل آزادی دی اور افسران کو اس میں تعاون کے
احکامات صادر کئے۔ ہرین پنڈیا کا جس وقت قتل ہوا اس وقت سنجیو بھٹ اسی سابر
متی جیل کے سپر انڈنٹ تھے جس میں فی الحال انہیں گرفتار کر کے رکھا گیا ہے
۔ اس وقت انہوں نے ہرین پنڈیا کے قتل میں ملوث اہم شخصیات پر اپنی رپورٹ
تیار کر کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو روانہ کی تھی لیکن اس کو پسند کرنے کے
بجائے شاہ اور مودی ان پر ناراض ہو گئے اور ان پررپورٹ واپس لینے و شواہد
مٹانے کیلئے دباؤ ڈالا جانے لگا اور چونکہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار
کردیا اس لئے ڈھائی مہینے کیلئے ان کوسابرمتی جیل سے ہٹا کر بغیر کسی ذمہ
داری کے خدمات سے محروم کر دیا گیا ۔ سنجیو بھٹ کے مطابق جس وقت وہ سابرمتی
جیل میں تھے اس وقت انہیں حیدرآباد سے پنڈیا کے قتل میں گرفتار شدہ اصغر
علی نے بتلایا کہ ہرین پنڈیا کودراصل سہراب الدین کے دستِ راست پرجا پتی نے
گولیوں کا نشانہ بنایا تھااور اب پولیس نے سہراب الدین اور پرجا پتی کا
انکاونٹر کر کے اس جرم کے سارے اہم ثبوت مٹا دئیے ہیں یہ بات قابلِ ذکر ہے
کہ اصغر علی سمیت سارے ملزمین کو گزشتہ دنوں عدالت نے رہا کردیا جس کے بعد
پرس ایک بار ہرین پنڈیا کی اہلیہ نے اپنے خاوند کے قاتلوں کو کیفرِ کردار
تک پہنچانے کی دہائی ۔ وہ اس مقصد کے لئے مودی کے سدبھاؤنا میلے میں آنا
چاہتی تھی لیکن اسے بزورِ قوت روک دیا جس سے مودی کی سدبھاؤنا کا پاکھنڈ
عوام کے سامنے آگیا ۔ جو شخص اپنے بچپن کے دوست کا قاتل ہو وہ بھلا غیروں
کا خیر خواہ کیوں کر ہو سکتا ہے ۔ سنجیو بھٹ کی جانب سے لگائے اس سنگین
الزام نے مودی کے ہوش اڑ ادئے اس کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی اور وہ بھٹ
کی گرفتاری کیلئے مجبور ہو گیا۔بھٹ پر لگایا جانے والا الزام اس قدر مضحکہ
خیز ہے کہ کوئی نیم پاگل انسان بھی اس پر یقین نہیں کر سکتا ۔انتظامیہ کے
مطابق سنجیو بھٹ نے اپنے ڈرائیور کے ڈی پنت کو ڈرا دھمکا کر مودی کے خلاف
حلف نامے پر دستخط کروائے ۔ وہ مودی جس کی آنکھوں کا تارہ اے ٹی ایس
آفیسر ونجارہ قتل کے الزام میں جیل میں ہے جس کا وزیر داخلہ قتل کے الزام
میں ضمانت پر ہے اور ملک سے باہر نہیں جا سکتا ۔جس کے ظلم کے چرچے ساری
دنیا میں ہیں اس کے خلاف ایک پولیس آفیسر ڈرا دھمکا کر شکایت درج کروادے
یہ بات کسی کی سمجھ میں آنے والی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ حلف نامے نے مودی
کی دم پر پیر رکھ دیا وہ بلبلااٹھابوکھلاہٹ میں اس نے ازخود اپنے چہرے پر
پڑی ہوئی سدبھاؤنا کی نقاب کو پھاڑ کر پھینک دیا ۔ جس وقت مودی ٹی وی
کیمرے کے سامنے اخوت و خیرسگالی کی میٹھی میٹھی باتیں کر رہا تھا اس وقت
بھوشن سونم کی نظم کا مندرجہ ذیل حصہ بے محل معلوم ہوتا تھا لیکن جب بھٹ کی
گرفتاری کے بعد پولیس نے ان گھر پر یکے بعد دیگرے چھاپے مارے تاکہ ہرین
پنڈیا کے قتل کے شواہد کو مٹایا جاسکے اورسنجیو کی بیوی شویتا نے جب اپنے
شوہر کی جان کو لاحق خطرے کا اظہار کیا تو گویا اس نظم میں جان پڑ گئی
میرے پاس صداقت ہے اور طاقت نہیں ہے
تیرے پاس طاقت ہے پر صداقت نہیں ہے
تو ،توہے اور میں ، میں ہوں
مصالحت ممکن نہیں ہے ۔
اس لئے ہوجائے آغازِ جنگ
نریندرمودی نے اس آپریشن کیلئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا جب سپریم کورٹ
میں دس دنوں کی تعطیلات کا آغاز ہونا تھا تاکہ عدالتِ عالیہ میں سنوائی نہ
ہو سکے اور سنجیو بھٹ کو پولیس حراست میں رکھ دہشت زدہ کیا جاسکے اتفاق سے
اسی دوران بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس دہلی میں ہونا تھا لیکن
مودی کیلئے دہلی کے اجلاس تو کیا دہلی کےتخت سے اہم یہ مسئلہ تھا جو اسے
تختہ دار تک پہونچا سکتا ہے اس لئے وہ بزدل گجرات ہی میں چھپا رہا ذرائع
ابلاغ سے منہ چھپاتا اس آپریشن کی بذاتِ خودنگرانی کرتا رہا ۔ بی جے پی
کےاندر اور باہر مودی کے حامی ومخالف بے بنیاد افواہیں اڑاتے رہے ۔ مخالفین
نے کہا وہ اڈوانی کی یاتراسے اختلاف کے باعث نہیں آیا حالانکہ یاترا کا
اعلان سدبھاؤنا تماشے سے قبل ہو چکا تھا اور سب جانتے تھے کہ اگر یہ یاترا
بہار سے نکلے گی تو نتیش کمار ہی اس کو ہری جھنڈی دکھلائیں گے بلکہ یہ خبر
بھی پہلے سے آچکی ہے کہ اڈوانی جی اپنی یاترا کا آغاز گجرات میں کرم ساڈ سے
کرنا چاہتے تھے جو ان کے چہیتے لوہ پرش کانگریسی رہنماولبھ بھائی پٹیل کی
جنم بھومی ہے لیکن خود مودی نے ان کولوک نایک جئے پرکاش نارائن کے مقام
ِپیدائش سارن ضلع میں واقع سیتابدیارہ گاؤں جانے کا مشورہ دیا ۔ اب اگر
کوئی یہ خیال کرتا ہے مودی نہیں جانتا کہ جئے پرکاش کس ریاست میں پیدا ہوئے
تھے اور بہار کا وزیرِ اعلیٰ اپنی گوں ناگوں مجبوریوں کے باعث بہار میں
آنے نہیں دیتا تو وہ مودی کو نہیں جانتا۔ اڈوانی نے اس مشورے کو اس لئے
ہاتھوں ہاتھ لیا کہ مودی کے ارادوں کے پیشِ نظر اب گاندھی نگر کا حلقہ
انتخاب ان کیلئے محفوظ نہیں ہے۔ مستقبل میں ممکن ہےمودی کوئی ایسی چال چلے
کہ پی ایم کی کرسی کا خواب دیکھنے والے اڈوانی جی اپنی عمر کے آخری مرحلے
میں ایم پی بھی نہ بن پائیں ۔
بی جے پی کے اندر جہاں تک وزارت عظمیٰ کی دوڑ کا سوال ہے اس میں صرف مودی
یا اڈوانی نہیں ہیں بلکہ سشما اور جیٹلی بھی اس کےمضبوط دعویدار ہیں لیکن
اس کے باوجودوہ سبھی لوگ احمد آباد آئے تھے گویا اختلاف کے باوجود باہم
مفاد کے پیشِ نظر یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔کچھ لوگوں نے یہ
خبر اڑائی کہ مودی پارٹی صدرنتن گڈکری سے ناراض ہیں جو احمدآباد نہیں آئے
تھے ۔سچ تو یہ ہے بی جے پی سارے بڑے رہنما ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھنے
لگے ہیں اس لئے کہ ہر کوئی وزیراعظم بن جانا چاہتا ہے ۔دیوے گوڑہ کے وزیرِ
اعظم بن جانے سے ایک نقصان تو یہ ہوا کہ سیاست کے گلیارے میں رہنے والا ہر
زید وبکر اپنے آپ کو وزیراعظم بننے کا اہل سمجھنے لگا ۔بی جے پی کے
رہنماؤں کا بھی یہی مسئلہ ہے وہ اس چکر میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا
کوئی موقع نہیں گنواتے اس کے باوجود دہلی میں مودی کے علاوہ لال کرشن
اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی ،سشما سوراج، ارون جیٹلی ،اوما بھارتی اور خود نتن
گڈکری موجود تھے اگر نہیں آئے تو یدورپاّ جو اپنی رسوائی کے زخموں سے ابھی
تک ابھر نہیں پائے ہیں۔ مودی کے ساتھ وہ معاملہ ابھی تک تو نہیں ہوا ہے اس
لئے اس کے نہ آنے کی وجہ وہ نہیں ہے جو بتلائی جارہی بلکہ اس بار تو مودی
کےلئے دہلی میں اپنے آپکو چمکانے کا نادر موقع تھا لیکن جب گھر کے اندر آگ
لگی ہوئی ہو تو کوئی احمق بھی دیوالی منانے کیلئے باہر نہیں جاتا۔
مودی کی غیر حاضری پربی جے پی کا بیان نہایت مضحکہ خیز تھا مودی جگدمباماتا
کا اپواس رکھتے ہیں اورنوراتری کے دوران باہر نہیں جاتے۔ اپواس کا بھلا
کہیں آنے جانے سے کیا تعلق وہ تو کہیں بھی رکھا جاسکتا ہے اور اس میں کھانے
پینے کی کافی کچھ گنجائش موجود ہوتی ہے ویسے بھی دہلی میں اپواس کے
وینجن{خوردونوش کا سامان}احمدآباد سے زیادہ اقسام کےتھے ۔پارٹی کے
اندرنریندرمودی کے ازلی دشمن سنیل جوشی کی بحالی کو جن احمقوں نے اچھالا وہ
اس بات کو بھول گئے کہ سنیل جوشی کے ذکر سے ان کی جنسی ویڈیو کا معاملہ پھر
تازہ ہوگیا ۔اس ویڈیو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے مودی کے ایماء
پر بنوایا گیا تھا تاکہ جوشی کا کانٹا نکالا جاسکے ۔
نریندر مودی جیسے لوگ جب ماتا کا اپواس رکھتے ہیں تو کیا کرتے ہیں اس کا
نمونہ تو ساری دنیا نے دیکھ لیا لیکن مودی کی اس گھبراہٹ نے اگر سب سے
زیادہ کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ بی جے پی ہے اور اس میں شک نہیں کہ بی
جے پی کا نقصان خود مودی کا خسارہ ہے اس لئے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو
اس کے مسافر اپنے آپ غرقاب ہو جاتے ہیں ۔ اس بار کانگریس کے بے وقوفوں نے
بی جے پی کی مجلسِ عاملہ سے قبل اس کے سامنے طلائی طشتری میں رکھ کر ایک
ترشول پیش کردیا تھا کہ اسے لو ہمارا سینہ چاک کر دو۔ یہ ترشول تھا چدمبرم
اور پرنب مکرجی کی مشترکہ پریس کانفرنس جس نے یہ ثابت کردیا کہ چور کی
داڑھی میں وہ تنکا موجود ہے جو نہ صرف انفرادی طور پر اس چور کو بلکہ
ڈاکوؤں کی اس پورے ٹولے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔
کانگریس کا سب سے بڑا مسئلہ فی الحال سونیا گاندھی کے اندر پائی جانے والی
خود اعتمادی کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ راہل گاندھی کو اقتدار سے دور رکھے
ہوئے ہیں ۔ خود راہل باباکا بچپنا ایسا ہے کہ وہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا
۔ایسے میں سونیا نے من موہن کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی اور خود ریموٹ سے
اسے چلانے لگیں لیکن من موہن بھی ایک عمر رسیدہ آدمی ہیں اس لئے کبھی بھی
کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ان کے بعد بھی اگر راہل بابااپنا لالی پاپ نہیں
پھنکتےج تو کون بنے گا پردھان منتری؟ یہ سوال پارٹی کے اندرونی حلقوں میں
اچھلتا رہتا ہے ۔ اول تو سونیا نے شیوراج پاٹل کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان
تھما کر من موہن کا ولی عہد بنایا تاکہ راہل کیلئےکوئی خطرہ نہ ہو لیکن وہ
گھوڑا زیادہ دور نہ چل سکا ان کے جانے کے بعد پرنب دا چاہتے تھے کہ انہیں
کم از کم ولی عہد بنا دیا جائے لیکن سونیا نے چدمبرم کو آگےبڑھا دیا ۔ اسی
کا غصہ پرنب مکرجی نے سونال کے بجائے چدمبرم پر نکالا اور نہ صرف ٹوجی
معاملے میں باقائدہ دفتری نوٹ لکھ کر چدمبرم کو پھنسایا بلکہ اس خط کو ایسے
وقت میں منظر عام پر پہنچا دیا جبکہ چدمبرم کے خلاف سپریم کورٹ میں شکایت
درج تھی۔ وہ تو بھلا ہو سی بی آئی کا جس نے ہاتھ اٹھا لئے ورنہ چدمبرم بھی
تہاڑ جیل میں راجہ کے ساتھ اڈلی دوسا نوش فرما رہے ہوتے ۔
پرنب مکرجی کی اس حرکت پر انہیں وزارت تو درکنارجماعت سے بھی نکال دیا جانا
چاہئے تھا لیکن سونیا گاندھی کے اندر نہ ہی جرأت ہے اور نہ متبادل ۔چدمبرم
کی نااہلی تلنگانہ کے معاملے میں جگ ظاہر ہوچکی ہے ۔اسی لئے دوسری بار ان
کو اس قضیہ سے دور رکھ کر پرنب کو اس میں ملوث کیا گیا ہے ۔انا ہزارے کی
تحریک کے دوران بھی وزیرِ داخلہ کے بجائےپہلے سلمان خورشید کو آگے کیا گیا
اور جب بات چیت نازک مرحلے میں پہنچی تو پرنب دا نمودار ہوگئے۔اس سے پہلے
بابا رام دیو سے ملنے بھی پرنب کو بھیجا گیا تھا حالانکہ یہ سب وزیر دفاع
کے نہیں بلکہ وزیر داخلہ کے کرنے کے کام ہیں ۔ وزیردفاع کا کام ملک وقوم کا
دفاع کرنا ہوتا ہے نہ کہ حکومت اور پارٹی کا لیکن فی الحال کانگریس بھی بی
جے پی کی مانند شدید قحط الرجال کا شکار ہے ۔ ایسے میں پرنب مکرجی اپنی
اہمیت سمجھتے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کے تحت نریندرمودی کی طرح اسی تھالی
میں سوراخ کرنے سے باز نہیں آتے جس میں کھاتے ہیں۔مودی کی غیر حاضری کے
باعث کانگریس کی باہمی رسہ کشی اور وزیر داخلہ پر لگائے گئے بدعنوانی کے
سنگین الزامات دب گئے گویا مودی نے نادانستہ طور پر اگر کسی کا بھلا کیا ہے
تو وہ ان کی حریف کانگریس پارٹی ہے ۔ لیکن مودی اب جس چکرویوہ میں پھنس چکا
ہے اس میں سے اسے نہ ہی سدبھاؤنا برت بچا پائے گا اور نہ نوراتری کا
اپواس۔ نہ ہی اس کا قتدار اس کے کسی کام آسکے گا اور نہ ہی اس کی پارٹی ۔
مودی کو اپنی تمام تر مکاریوں کے باوجود اس وقت شدید جھٹکا لگا جب
گھاٹلوڈیہ پولس تھانے کےوکل پروین ترویدی کے اصرار کو جوڈیشیل مجسٹریٹ بی
جی دوشی ٹھکراتے ہوئےسنجیو بھٹ کو پولس حراست میں دینے سے انکار کر دیا اور
سابرمتی جیل میں روانہ کردیا ۔ امید ہے کہ پیر کے دن ان کی درخواستِ ضمانت
منظور ہوجائیگی اور وہ رہا ہو جائیں گے ۔نچلی عدالت کا یہ فیصلہ اس بات کا
ثبوت ہے کہ احمد آباد سے فرار ہوکر دہلی کے تخت پر بیٹھنے کا خواب دیکھنے
والے مودی کی پکڑ ڈھیلی ہوتی جارہی ہے اور ہرین پنڈیا کیس میں اس کے گلے کا
پھندا دن بدن تنگ ہوتا جارہا ہے۔ یہی وہ خوشخبری ہے جس کی پیشن گوئی بھوشن
سونم کی مذکورہ نظم کےاختتامی بند میں کیا گیا ہے ؎
تو میری گردن ماردے ۔میں لڑوں گا
تومیری ہڈیاں توڑ دے ۔ میں لڑوں گا
تومجھے زندہ گاڑدے۔ میں لڑوں گا
میرے سچ کے ساتھ۔ میں لڑوں گا
اپنی آخری سانس تک ۔میں لڑوں گا
میں لڑوں گا جب تک کہ
تیرے جھوٹ کا قلعہ مسمار نہ ہوجائے
جب تک کہ تیرا معبودِ باطل شیطانِ
حق کی میری پری کےآگے سپر نہ ڈال دے |