میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
معزز یاروں " احادیث کا ہماری زندگی پر اثر " کے عنوان سے جو سلسلہ میں نے
شروع کیا ہے اس کے 6 حصے آپ تک پہنچا چکا ہوں آج ہم اس کے ساتویں حصے یعنی
حصہ ہفتم کی طرف بڑھ رہے ہیں آج کی حدیث میں نے سنن ابن ماجہ سے لی ہے جو
احادیث کی کتابوں میں اپنا ایک خاص اور منفرد مقام رکھتی ہے مختصر جامع اور
خوبصورت احادیث سے مزین ایک مستند کتاب ہے اس حدیث کا نمبر 4102 ہے جہاں ""
سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا
کہ یارسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے کہ جس کے کرنے سے اللہ تعالی بھی
مجھ سے محبت کرے اور اس کے بندے بھی مجھ سے محبت کریں تو سرکار صلی اللہ
علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا سے اعراض اور بے رخی اختیار کرلو اللہ
تعالی تم سے محبت کرنے لگے گا اور جو مال و اسباب لوگوں کے پاس ہے اس سے بے
رخی اختیار کرلو تو لوگ بھی تم سے محبت کرنے لگیں گے ""۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سنن ماجہ کی اس حدیث کے راوی ہیں سیدنا سہل
بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ اپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص سرکار علیہ وسلم کے
پاس حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ مجھے ایسا عمل بتایئے کہ جب وہ عمل میں کروں
تو اللہ مجھے اپنا محبوب بنالے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں تو آپ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ تم دنیا سے بے نیاز و بے رغبت ہوجائو اللہ تعالی تمہیں
اپنا محبوب بنالے گا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بھی بے نیاز ہوجائو
لوگ بھی تم سے محبت کرنے لگیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس حدیث
میں ادا ہونے والے الفاظوں کا مطلب کیا ہے اس حدیث سے یہ مراد بلکل نہیں یے
کہ انسان دنیا کے تمام معاملات کو چھوڑ کر الگ تھلگ ہوجائے بلکہ اصل مقصد
یہ ہے کہ حلال روزی کے لیئے سرگرداں رہے چاہے وہ تھوڑی ہی میسر کیوں نہ ہو
اور حرام کمائی کی راہیں تلاش نہ کرے یہ سوچنا چھوڑدے کہ مجھے کوئی کچھ دے
گا یہ حرص کی نشانی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوسروں کے مال سے بے رغبتی اور لاتعلقی زہد
و قناعت میں شامل ہوجانا یے دوسروں کے مال پر نظر رکھنا لالچ اور طمع کا
شکار ہونا ہے اس سے دوسروں کی نظروں میں ذلیل ہونا ہے اللہ تعالی سے امید
رکھنا اور حلال روزی کی تلاش میں رہنا ہی تقوی کی نشانی ہے اللہ تبارک و
تعالی سے اخرت کی نعمتیں مانگنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی بھی مانگتے
رہنا چاہیئے بس طلب دنیا کی دعا کم اور آخرت کی طلب زیادہ ہونے کی دعا کرنی
چاہیئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں المختصر یہ کہ اس حدیث میں محبوب کائنات
بننے کا گر اور طریقہ بتلایا گیا ہے کہ انسان دنیا اور اہل دنیا سے بے نیاز
ہوکر اللہ تعالی کا ہی ہوجائے تو وہ رب اسے اپنا خاص محبوب بنالیتا ہے یعنی
اس سے خوش ہوجاتا ہے اور دنیا لالچ اور رغبت سے بچتا رہے تو لوگ بھی اس سے
محبت کریں گے دنیا کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جہ ہے تماشہ نہیں ہے
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا سے بےرغبتی اور بے نیاز ہونے کا مطلب کیا ہے ؟
اور اس کی تلقین کیوں کی گئی ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالی نے قران مجید کی سورہ العمران
کی آیت نمبر 13اور 14 میں ارشاد فرمایا کہ
1۔ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآء وَالْبَنِيْنَ وَ
الْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ
الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا وَاللهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔ لوگوں کے آراستہ کی گئیں ان خواہشوں کی محبت عورتیں
اور بیٹے اور تلے اوپر سونے کے ڈھیر اور نشان کیئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے
اور کھیتی یہ جیتی دنیا پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے ۔
بلکل اسی طرح اس مالک و مولا نے سورہ انعام کی آیت نمبر 32 میں ارشاد
فرمایا کہ
وَمَا الْحَیٰـوةُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَلَلدَّارُ
الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَo
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔اور دنیاکی زندگی نہیں مگر کھیل کود اور بیشک پچھلا
گھر بھلا ان کے لئے جو ڈرتے ہیں تو کیا تمہیں سمجھ نہیں ۔
یعنی دنیا اور اس کی عیش و عشرت والی زندگی کھیل اور تماشےکے سوا کچھ بھی
نہیں اور آخرت ہی ان کے لیئے بہترٹھکانہ یے جو تقوی اختیار کرتے ہیں کیا تم
یہ حقیقت نہیں سمجھتے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان مذکورہ آیات میں اللہ رب العزت نے واضح
طور پر یہ بتادیا کہ دنیاوی زندگی اصل میں عارضی اور محدود ہے اس لیئے اس
میں اتنی دلچسپی اور رغبت اختیار کرو جتنا وقت یہاں گزارنا ہے جبکہ اصل
زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے لہذہ یہاں اس عارضی دنیا
میں رہکر ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی کی تیاری کرنی چاہیئے قران مجید کی
اور بھی بیشمار آیتیں موجود ہیں جن میں رب تعالی دنیا کی رغبت سے دور یا
کمی کی تلقین کی ہے جبکہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس عارضی دنیا کو ہی
سب کچھ سمجھ لیا اور اس میں ہر خواہش کی تکمیل کے لئے دن رات مصروف عمل ہیں
۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم تاریخ اسلام پر جب نظر ڈالتے ہیں تو
معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی کا حقیقی قرب اور محبت کے حصول کے لیئے اپنے آپ
کو اس دنیا کی رنگینیوں اور شور شرابے سے دور رکھناہوگا انبیاء کرام کی
زندگی ہویا صحابہ کرام کے واقعات اولیاء کرام کے حالات زندگی ہوں یا بزرگان
دین کے معمولات اللہ تعالی کے قرب کے حصول کی خاطر ان تمام لوگوں نے خلوت
اور گوشہ نشینی کا راستہ اختیار کیا یعنی تنہائی کا راستہ کیوں کہ جہاں
کوئی نہ ہو تو وہاں رب کی عبادت اور اس کے ذریعے اس کے حصول میں آسانی
ہوجاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں خلوت کیا ہے اور کسے کہتے ہیں خلوت کے لغوی
معنی تنہائی کے ہیں بندے کا اپنے رب کی رضا حاصل کرنے ، تقوی اور پرہیزگاری
کے درجات میں ترقی کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیئے کسی مخصوص مقام پر
لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوکر اپنے آپ کو نفلی عبادات میں مصروف کرلینے کا
نام " خلوت و گوشہ نشینی " ہے فی زمانہ لوگ اپنے گھروں میں بھی ایک مخصوص
جگہ پر یہ عمل کرسکتے ہیں لیکن فی زمانہ اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے
کہ حقوق اللہ یعنی ( فرائض واجبات اور سنن مئوکدہ ) اور شریعت کے مطابق
لازم ہونے والے تمام حقوق کی ادائگی والدین ،گھروالوں ،اولاد اور دیگر کے
حقوق یعنی حقوق العباد میں کوئی کوتاہی نہ ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صوفیاء کرام کے نزدیک ظاہری طور پر اپنے آپ
کو لوگوں کے سامنے رکھتے ہوئے اگر باطنی طور پر ان سے جدا رکھ کر رب تعالی
کی طرف متوجہ رہیں تو یہ بھی خلوت و گوشہ نشینی میں شمار ہوگا حالانکہ فی
زمانہ ایسا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اللہ تعالی کے قرب کے حصول کے لیئے
تاریخ اسلام میں جہاں عظیم اور اعلی مقام حاصل کرنے والے لوگوں کا ذکر آتا
ہے وہاں عورتوں کا بھی ذکر کافی آیا ہے اللہ تعالی نے قران مجید مجید کی
سورہ مریم میں ارشاد فرمایا کہ ترجمعہ کنزالائمان ۔۔۔
" اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جو اپنے گھر والوں سے پورب(مشرق ) کی طرف
الگ گئی "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے حضرت مریم
رضی اللہ تعالی عنہا کی خلوت کا ذکر کیا ہے کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ ہوکر
بیت المقدس کی شرقی جانب جا کر اپنے رب کی عبادت کے لیئے خلوت میں جاکر
بیٹھ گئیں ۔ میرے یاروں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیئے دنیا و مافیہا
سے جدا ہوکر تنہائی میں عبادت کرنے کے بیشمار واقعات آپ کو تاریخ اسلام میں
نظر آئیں گے کیوں کہ دنیا کی رنگینیوں اور شوروغل میں اللہ تعالی کا قرب
حاصل کرنا ناممکن یے ۔۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مکہ مکرمہ میں واقع ایک پہاڑ جسے " جبل نور
" کہا جاتا ہے اور اس پہاڑ پر موجود وہ غار جسے " غار حرا " کہا جاتا ہے آپ
میں سے وہ لوگ جنہوں نے حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کی ہوگی انہوں نے یہ پہاڑ
اور اس غار حرا کی زیارت ضرور کی ہوگی یہ وہ غار ہے جہاں سرکار صلی اللہ
علیہ وآلیہ وسلم اپنی عمر کے چالیسویں سال میں کچھ دنوں کے لئے سب سے کٹ کر
خلوت میں اپنے رب کی عبادت کے لیئے تشریف لائے اور اسی غار میں حضرت
جبرائیل علیہ السلام کے زریعے آپ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی جس کے
بعد رب تعالی نے آپ علیہ وسلم کو نبی اخری الزمان مبعوث کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ لوگوں نے تہجد کی نماز کے فضائل تو سنے
ہوں گے آخر اس نماز کے اتنے فضائل کیوں ہیں ؟ اس لیئے کہ اس نماز کا جو وقت
ہے وہ رات کے پچھلے پہر کا وقت ہے جب اللہ تعالی کا کوئی بندہ رات کے اس
پہر اٹھ کر اپنے رب کی عبادت کرتا ہے تو وہ رب براہ راست اس بندہ پر اپنا
فضل نازل فرماتا ہے کیوں کہ یہ وقت اور اس وقت کی عبادت بھی خلوت کی عبادت
یعنی تنہائی میں ذکر و ازکار کرنا کہلاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق سرکار
مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " رات میں ایک گھڑی ایسی ہے
جو مسلمان بندہ بھی اس کو پالیتا ہے اس میں وہ دنیا و آخرت کی کسی بھی خیر
اور بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ اسے وہ بھلائی ضرور عطا فرما دیتا ہے
اور یہ گھڑی ہر رات میں ہوتی ہے ۔" اس حدیث مبارکہ میں بھی رات کے اسی وقت
کی طرف اشارہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مذکورہ حدیث میں جہاں دنیا سے بے رغبتی اور
خلوت میں رہکر اللہ تعالی کے قرب کو حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے وہاں
دوسروں کے مال و اسباب پر نظر نہ رکھنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے میرے معزز
یاروں اللہ تعالی نے اس عارضی دنیا میں انسان کے لیئے بیشمار مال و اسباب
نعمتوں کی شکل میں فراہم کی ہیں لیکن اپنی منشاء مرضی اور مصلحت کے تحت کسی
کو کم اور کسی کو زیادہ نعمتوں سے نوازا ہے اور یہ تقسیم اس کی آزمائش اور
امتحان کے پیش نظر ہوتی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب اللہ تعالی جب کسی کو زیادہ نعمتیں عطا
کردیتا ہے تویہ اس بندے کی آزمائش کے لیئے ہوتی ہے وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے
کہ میرا بندہ اتنی نعمتیں پاکر اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ ان نعمتوں کو اپنی
محنت اور کاوش کا نتیجہ قرار دیکر اپنے رب تعالی کو بھول جاتا ہے اور وہ
لوگ جو دوسروں کے مال و اسباب کو دیکھکر برداشت نہیں کرتے اور وہ حسد کا
شکار ہوجاتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کا مال و اسباب کسی طرح ختم ہوجائے اور
وہ انہیں مل جائے ان کے اس رویے اور اس سوچ سے وہ حسد کی آگ میں جل کر اپنا
ایمان ضایع کربیٹھتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ایسے
لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ " ایمان اور حسد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے "
انسان کے لیئے صرف اتنا جائز ہے کہ وہ دوسروں کو ملی نعمتوں پر رشک کرسکتا
ہے اور آرزو کرسکتا ہے کہ یا اللہ تو نے جو نعمتیں فلاں کو دی ہیں وہ بہتر
ہوں تو مجھے بھی عطا کر ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی ملاقات حضرت کعب بن احبار رضی اللک عنہ سے
ہوئی تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ علم والے لوگ کون
ہیں ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت کعب بن احبار رضی اللہ عنہ نے فرمایا
جو لوگ اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ علم والے ہیں پھر پوچھا کہ کیا
کوئی عمل کسی عالم کا ایسا یے جس کی وجہ سے اس کے علم کے چھین جانے کا خطرہ
ہو تو فرمایا کہ ہاں لالچ حرص اور لوگوں سے اپنی ضرورتیں وابستہ رکھنے سے
علم رخصت ہوجاتا ہے ( کتاب القناعتہ) ۔
میرے یاروں المختصر آج کی اس حدیث سے ہمیں یہ سبق ملا کہ اللہ تعالی کی دی
ہوئی اس عارضی دنیا کو ایک نعمت سمجھ کر صرف اس کی پیروی کرتے ہوئے گزارنا
چاہے ہم لوگوں کے درمیان ہوں یا تنہا زبان ہر ذکر الہی جاری رہنا چاہیے اگر
اللہ تعالی کے ذکر و اذکار میں دنیا کے مخل ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر دنیا
کی فضولیات سے اپنے آپ کو دور رکھکر خلوت میں اپنے رب کی عبادت اور ذکرو
اذکار کرنا چاہیئے اور جو نعمتیں ملی ہوں چاہے کم ہوں اس رب کا شکر ادا
کرتے رہنا چاہیئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں احادیث کا ہماری زندگی پر اثر کے عنوان سے
آج کی حدیث آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی مجھے امید ہے کہ بہت سے لوگ اسے
پڑھکر اور اچھی طرح سمجھکر اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے اللہ نے
چاہا تو ان شاء اللہ اگلی حدیث کے ساتھ پھر حاضر ہوجائوں گا اللہ تعالی سے
دعا کے کہ وہ مجھے حق بات کہنے اور لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے
پڑھکر سمجھکر اس عمل کرنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء
النبی الکریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلیہ وسلم ۔
|