جانور ، پرندے اور کیڑے کیوں پیدا کئے گئے

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اس کائنات میں اللہ تعلی کی مخلوقات کا کوئی شمار نہیں ہے نہ جانے اس رب العالمین کی کون کون سی مخلوق کہاں کہاں اپنی زندگی گزارنے میں مصروف عمل ہے دریائوں سمندروں پہاڑوں ریگستانوں صحرائوں زمینوں اور آسمانوں میں اس خالق کائنات کی مخلوقات کا ہی بسیرا ہے جو اس رب العزت کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کا اسعمال کرتے ہیں لیکن ایک انسان ہی ایسی مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب بناتے ہوئے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا اور اسے اپنی نعمتوں کے شکرانے کا موقع فراہم کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد اور وجہ ضرور ہے جہاں تک جانوروں کا تعلق ہے تو ہر جانور چاہے وہ جنگلی جانور ہو پرندہ ہو سمندری جانور ہو یا کوئی کیڑا ہر کسی کی تخلیق میں اللہ رب العزت کی مصلحت کارفرما ہوتی ہے آج کی اس تحریر میں ہم یہ دیکھیں گے کہ ان جانوروں کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی کون سی تدابیر ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ جانور پہلے کچھ اور تھے اور پھر بعد میں انہیں موجودہ شکل دے دی گئی وہ کون سے جانور ہیں؟ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کس جانور پرندے یا کیڑے کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی ضرورت کے لئیے پیدا کیا ہے اور کون سے جانور میں کیا کیا خوبیاں اور خامیاں ہیں ان سب باتوں کا ہم مختصر جائزہ لیں گے یقینی طور پر یہ ایک معلوماتی تحریر ہوگی اور ہمیں بہت کچھ جاننے کو ملے گا سب سے پہلے ہم جانوروں کا ذکر کریں گے جن کا تعلق براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے رہا یعنی وہ آپ علیہ والیہ وسلم کے جانور کہے جاتے تھے اور وہ جانور جن کی کسی نہ کسی حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے نسبت ہے تو سب سے پہلے ہم جس جانور سے اپنی اس تحریر کا آغاز کریں گے وہ ہے " بُرَاق" ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سواری کے ساتھ ساتھ آپ کا معجزہ بھی ہے۔ اِس انوکھی اور جنّتی سُواری پر حضورِ پُرنور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مشہور قول کے مُطابِق 27 رجب المرجب کو مکّہ سے بیتُ الْمقدّس تک سفر فرمایا۔
(سیرتِ مصطفےٰ ، ص736)
اس کا رنگ سفید
مصنف ابنِ ابی شیبہ ، 7 / 422 ، حدیث : 60)
سینہ مثل یاقوت یعنی سرخ اور پرندوں کی طرح دو بازوں تھے ۔
سیرتِ حلبیہ ، 1 / 521 ، اخبار مکہ للازرقی ، 1 / 54) ۔
برق کا مطلب ہے بجلی اِسے بجلی کی مانند تیز رفتار ہونے کی وجہ سے بُراق کہا جاتا ہے۔ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ یہ جانور گدھے سے قدرے بُلند اور خچّر سے قدرے چھوٹا ہے (یعنی درمیانہ قد ہے) اور جہاں اس کی نظر کی انتہاء ہے وہاں اس کا قدم پڑتا ہے۔(مسلم ، ص87 ، حدیث : 411)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس براق کے بارے میں حدیث ملاحظہ کیجئے احادیث میں روایت ہے کہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس براق لایا گیا وہ سفید دراز جانور ہے گدھے سے اونچا خچر سے نیچا اپنی ٹاپ یعنی اپنا قدم اپنی نگاہ کی حد پر رکھتا ہے۔ میں اس پر سوار ہوگیا حتی کہ میں بیت المقدس میں آیا تو میں نے اسے اس کڑے سے باندھا جس سے حضرات انبیاء باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو اس میں دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو میرے پاس جبریل علیہ السلام ایک برتن شراب کا اور ایک برتن دودھ کا لائے تو میں نے دودھ اختیار کیا تو جبرئیل علیہ السلام بولے کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا پھر ہم کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا ۔ (مسلم شریف)
جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ فخر و اِنبساط سے جھومنے لگا کہ آج اسے سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ براق اس سعادتِ عظمیٰ پر وجد میں آ گیاتھا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس پر حضرت جبرئیلِ امین علیہ السلام نے اس سواری سے فرمایا : ’’رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا‘‘۔حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کرا کے انہیں بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں سوار کی نظر پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔یہاں کچھ علماء نے ایک بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ براق صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعزاز کے طور پر آپ کو پیش کیا گیا تھا۔ وگرنہ آپ کو اللہ تعالی اس کے بغیر بھی اس سے زائد تیزرفتاری سے بلوا سکتا تھا۔ یا یوں کہیں کہ انبیاء براق کے محتاج نہیں ان کی رفتار تو براق سے بھی تیز ہوتی ہے۔ وہ ایک پل میں یہاں ہیں تو دوسرے پل وہاں۔ دیکھو معراج کی رات بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت کروانے کے بعد آپ آسمان کی طرف براق پر تشریف لے جاتے ہیں۔ اور وہاں جن انبیاء نے آپ کی امامت میں نماز پڑھی تھی وہ پہلے ہی آسمانوں پر پہنچ چکے تھے۔ بہرحال براق کے متعلق زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں۔اصل حال اور اس کا ادراک تو ان شاء اللہ جنت میں جاکرہی ہوگا۔اللہ ہم سب کو جنت الفردوس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں جگہ عطاء فرمائے۔ اور جہنم سے اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔آمین۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد ہم جس جانور کا زکرنے جارہے ہیں وہ ہے ریگستانی جہاز یعنی اونٹ ریگستان وہ جگہ ہے جہاں سڑک یا پانی کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا بس صرف اور صرف ریت ہی ریت نظر آتی ہے جہاں دوڑنا تو درکنار چلنا بھی بہت دشوار ہوتا ہے لیکن اس ریگستان میں یہ اونٹ صرف کانٹے کھا کر چلتا ہے اور بغیر کچھ کھائے پیئے دس پندرہ دن آرام سے گزالیتا ہے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر شب جمعہ یہ صحرائی جانور اپنی گردنیں بلند کرکے بارگاہ الٰہی میں عرض کرتی ہیں کہ یااللہ مسلمانوں کے گناہوں کے باعث ہم پر عذاب مسلط نہ فرمانا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس ایک اونٹ اور کم و بیش پچیس اونٹنیاں تھیں " مُکْتَسَبْ" یہ حضور کے اونٹ کا نام ہے یہ ابو جہل کا اونٹ تھا جو غزوۂ بدر میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بطورِ غنیمت ملا۔ آپ اس پر جہاد کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔اس کے علاوہ میدان عرفات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ایک سرخ اونٹ پر جلوہ افروز ہونے کی بھی خبر ملتی ہے ۔
سیرتِ محمدیہ ، 2 / 393 ، زرقانی علی المواہب ، 5 / 111 ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور کی اونٹنیوں میں سب سے پہلے جس کا نام آتا ہے وہ ہے "قَصْویٰ" جسے حضرتِ سیّدُنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چار سو درھم کے بدلے خریدا تھا۔ یہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ہی رہی۔ اسی پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکّۂ معظّمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت فرمائی ۔
" عَضْبَاء " جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ کبھی دوڑ میں کسی اونٹ سے پیچھے نہیں رہی تھی۔ ایک مرتبہ ایک اَعْرابی کے اُونٹ سے دوڑ میں پیچھے رہ گئی ، جس پر مسلمانوں کو بہت افسوس ہوا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمانوں کا یہ حال جان لیا اور ارشاد فرمایا : اللہ پر یہ حق ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بُلند ہواسے پَست کردے۔ بخاری ، 2 / 274 ، حدیث : 2872)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں عَضْباء نے آپ کی وفات کے بعد غم میں نہ کچھ کھایا ، نہ پیا اور وفات پا گئی۔ بعض روایات کے مطابق قیامت کے دن اسی اونٹنی پر سوار ہو کر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میدانِ محشر میں تشریف لائیں گی ۔
" جَدْعَا" اس پر سوار ہو کر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجۃُ الوداع کا خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔
" صَھْبَاء " حجۃُ الوداع کے دن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس اونٹنی پر سوار ہوکر رَمِی فرمائی تھی یعنی مِنیٰ کے مقام پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں علماء کرام نے ان چار اونٹنیوں کے علاوہ باقی اونٹنیوں کے نام جو تحریر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں ۔
(5)مہرا (6)اَطْلَال (7)اَطراف (8)بردہ (9)بُغُوم (10)برکہ (11)حَنَّاء (12)زمزم (13)رَیَّا (14)سَعْدِیہ (15)سُقْیا (16)سَمرا (17)شَقرا (18)عَجرہ (19)عُرَیْس (20)غَوثہ (21)قَمریہ(22)مروہ(23)مُہرہ (24)وُرشہ (25)یَسییریہ۔ ۔
(زرقانی علی المواہب ، 5 / 111)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جانوروں میں ایک نام ایسا بھی ہے جو وفاداری کی علامت بھی سمجھ جاتا ہے اور جسے جنگوں میں بکثرت استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہیں گھوڑے علماء کرام کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس کم و بیش 20 گھوڑے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو گھوڑے بہت پسند تھے
" سَکْب"
یہ پہلا گھوڑا تھا جو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ملکیت میں آیا۔ آپ نے اسے بنو فَزارہ کے ایک شخص سے دس اَوْقِیہ میں خریدا تھا اور غزوۂ اُحُد میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی پر سوار ہوکر شرکت فرمائی تھی۔
" سَبْحَہ" یہ ایک گھوڑی تھی امام ابنِ سیرین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین فرماتے ہیں : یہ گھوڑی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک اَعْرابی سے خریدی تھی۔ اس گھوڑی پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوڑمیں مقابلہ کیا اور یہ دوڑ میں آگے نکل گئی جس پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہت مَسْرور ہوئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد
" لِزَازْ" یہ گھوڑا مُقَوْقِس (والیِ مصر) نے تحفہ میں دیا تھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے اس کی سیاہ رنگت کی وجہ سے پسند فرماتے تھے۔ آپ اکثر اِسی پر سوار ہوکر غزوات میں تشریف لے جاتے۔
" بَحْرْ" یہ گھوڑا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یمن سے آئے ہوئے تاجروں سے خریدا تھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس گھوڑے پر سوار ہوکر بارہا گُھڑدوڑ میں سَبْقت کی۔ (یعنی سب سے آگے رہے)۔
" المُرْتَجِزْ" وہی گھوڑا ہے جس کے بارے میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ خُزیمہ کی شہادت (گواہی) کو دو مردوں کی گواہی کے برابرقرار دیا تھا۔
" ظَرِبْ" یہ گھوڑا حضرتِ سیّدُنافروہ بن عمرو جذامی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو تحفہ دیا تھا
" لُحَیْفْ" یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو عامر بن مالِك عامِری نے تحفہ دیا تھا ۔
" وَرْدْ" یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحفہ میں دیا تھا ۔
" مِرْوَاح" حضرت سیّدُنا مرداس بن مؤیلک بن واقد رضی اللہ تعالٰی عنہ وفد کی صورت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ گھوڑا تحفہ میں پیش کیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزید گھوڑوں کا ذکر جو کتب سیرت میں آئے ہیں ان اسم گرامی یہ ہیں
10)یَعْبُوْب (11)ذواللِمّہ (12)ذُوالْعُقّال (13)سِرحَان (14)طِرْف (15)مِرْتَجَل (16)سِجْل (17)مُلاوِح (18)مَنْدُوْب (19)نَجِیْب (20)یَعْسُوْب۔
(زرقانی علی المواہب ، 5 / 97 تا 105 ،۔
اب ہم جس جانور کا ذکر یہاں کرنے جارہے ہیں وہ اب بہت کم ہی نظر آتے ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پسندیدہ جانوروں میں اس کا بھی ایک اہم حصہ ہے اور اس کو عام طور خچر کہا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس کم و بیش 6 خچر تھے ان 6 خچروں میں دو کے نام ہمیں کتابوں میں ملتے ہیں جن میں پہلا خچر
" دُلْدُلْ " اور دوسرے کا نام " فِضّہ" تھا تمام 6 خچر اس وقت کے بادشاہ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو تحفہ میں پیش کئیے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں رسولوں اور انبیاء کرام کی سواریوں میں ایک نام اور بھی آتا ہے جسے ہمارے یہاں آج کے دور میں کاہل اور سست جانور کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے اور وہ گدھا جسے درازگوش بھی کہا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس بھی دو درازگوش تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو بہت عزیز تھے جن میں پہلا تھا
" عُفَیْرْ" جو کہ مٌقَوْقِس نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوتحفہ میں بھیجا تھا ۔
" یَعْفُوْرْ" یعفور نامی دراز گوش آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خیبر میں ملا تھا۔ اس نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یا رسول اللہ! میرا نام یزید بن شِہاب ہے اور میرے باپ داداؤں میں ساٹھ ایسے گدھے گزرے ہیں جن پر نبیوں نے سواری فرمائی ہے۔ آپ بھی اللہ کے نبی ہیں لہٰذا میری تمنّا ہے کہ آپ کے بعد دوسرا کوئی میری پُشْت پر نہ بیٹھے۔ یعفور کی یہ تمنا اس طرح پوری ہوئی کہ وفات ِاقدس کے بعد یعفور شدّتِ غم سے نڈھال ہو کر ایک کنوئیں میں گر پڑا اور فوراً ہی موت سے ہمکنار ہو گیا۔ یہ بھی روایت ہے کہ سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یعفور کو بھیجا کرتے تھے کہ فلاں صَحابی کو بلا کر لاؤ تو یہ جاتا تھا اور صَحابی کے دروازہ کو اپنے سَر سے کھٹکھٹاتا تھا تو وہ صَحابی یعفور کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے بلایا ہے چنانچہ وہ فوراً ہی یعفور کے ساتھ دربارِ نبوی میں حاضِر ہوجایا کرتے تھے۔
(الشفا ، 1 / 314 تفسیر روح البیان ، پ14 ، النحل ، تحت الاٰیۃ : 8 ، 5 / 11 ، زرقانی علی المواہب5 / 108) .
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ذکر کریں گے بہت ہی پیارے جانور جو ہر انسان اور خاص طور پر بچوں کو بہت زیادہ پسند ہے اور وہ ہے بکرا یا بکری دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بکری کو زیادہ پسند فرمایا ہے چلئے سب سے پہلے اس بکری کے فضائل یعنی فائدوں کے بارے میں جان لیتے ہیں ۔(1)بکری بہت ہی شریف جانور ہے اور یہ انسانوں کے ساتھ جلدی گُھل مِل جاتا ہے۔ (2)اللہ پاک کے بہت سارے نبیوں نے بکریوں کو پالا ہے (3)بکری کا دودھ بہت فائدہ مند ہوتاہے (4)بکری کا دودھ پینے سے بھوک زیادہ لگتی ہے (5)بکری کا گوشت بہت فائدے والا ہوتاہے۔ اس لئے کہتے ہیں : بکری کا گوشت بیمار کا کھانا ہے (7)اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بکری کا گوشت بھی کھایا ہے اوراس کا دودھ بھی پیا ہے۔ ہمارے پیارے نبی نے فرمایا : بکری کی عزت کرو ، اس سے مٹی جھاڑو کیونکہ وہ جنتی جانور ہے۔۔
(مسند بزار ، 15 / 280 ، حدیث : 8771)
حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس 9 بکریاں اور 1 بکرا تھا
1. عجوہ۔ 2. زمزم 3۔ سقیا 4. برکہ 5۔ ورسہ
6. اطلال 7. اطراف 8. قمرہ 9. غوثیہ یا غوثہ جبکہ ایک بکرا تھا جس کا نام تھا یمن
حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ان بکریوں کو حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا چرواتی تھیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ابھی ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پالتو جانوروں کے بارے میں مختصر ذکر کررہے ہیں جبکہ ان میں سے کئی جانوروں کے واقعات ، معجزات اور کرامات کا ذکر بھی ہمیں بھی کتابوں میں ملتا ہے لیکن اللہ نے چاہا تو ان معجزات اور کرامات کا ذکر ہم کسی الگ مضمون میں کریں گے حضور سے محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پسندیدہ جانوروں میں ایک نام " بلی " کا بھی آتا ہے اور کتابوں میں ہمار علماء لکھتے ہیں کہ بلی کو مارنا بھگانا یا قتل کرنے کا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بلی کے بارے میں کچھ معلومات بڑے غور سے پڑھیئے گا
1۔ یہ متواضع جانور ہے جو لوگوں کے گھروں سے مانوس ہوجاتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اسے چوہوں کو دفع کرنے کے لئے پیدا فرمایا۔ جب حضرت نوح علیہ السلام کے امتی جو کشتی پر سوار تھے ان کو چوہوں سے تکلیف ہونے لگی تو حضرت نوح علیہ السلام نے شیر کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا تو شیر کو چھینک آئی اور چھینک سے بلی نکل پڑی اسی لیے بلی کی شکل شیر کی طرح ہے۔ 3۔ بلی اپنی ظرافت میں مشہور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلی اپنے لعاب دہن (تھوک) سے اپنے چہرہ کو صاف کرتی ہے۔ اس کے بدن پر کوئی چیز لگ جائے تو وہ اسے فوراً صاف کرلیتی ہے۔
4۔ جب بلی پاخانہ و پیشاب کرتی ہے تو اسے چھپا لیتی ہے تاکہ چوہا اس کی بُو نہ سونگھ سکے کیونکہ چوہا بلی کے پاخانہ وپیشاب کو پہچانتا ہے اس لیے وہ سونگھتے ہی بھاگ جاتا ہے۔ 5۔ جب بلی کسی گھر سے مانوس ہوجاتی ہے تو یہ اس گھر میں کسی دوسری بلی کو داخل نہیں ہونے دیتی اور اگر کوئی بلی وہاں آجائے تو سخت لڑائی کرتی ہے اور دونوں کے اندر دشمنی کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ گھریلو بلی خیال کرتی ہے کہ کہیں گھر کا اور میرا مالک دوسری بلی سے مانوس نہ ہوجائے اور اسے میری غذا میں شریک نہ کرلے اور مالک کی محبت تقسیم نہ ہوجائے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں 6۔ اگر بلی مالک کی کوئی ایسی چیز چرا لیتی ہے جو مالک نے بڑے احتیاط کے ساتھ اور سنبھال کر رکھی ہو تو بھاگ جاتی ہے اس ڈر سے کہ کہیں مالک سے اسے مار نہ پڑے۔ جب مالک بلی کو دفع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو بلی اس کے پاؤں میں اپنا جسم مس کرنے لگتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ایسا کرنے سے اسے خلاصی و معافی مل جائے گی اور اسے مالک کی طرف سے احسان ہوجائے گا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی کے دل میں بلی کا ڈر رکھ دیا ہے۔ جب ہاتھی بلی کو دیکھ لیتا ہے تو بھاگ جاتا ہے۔ 8۔ بلی کئی کاموں میں انسانوں کی طرح ہے مثلاً بلی انسان کی طرح چھینکتی ہے، انگڑائی لیتی ہے، نرم جگہ اور تکیہ پر سر رکھ کے سوتی ہے۔
9۔ بلی کی تین قسمیں ہیں: اہلی، وحشی اور سنور الزباد 10۔ بلی سال بھر میں دو مرتبہ بچے دیتی ہے۔ اس کی حمل کی مدت پچاس دن ہوتی ہے۔ 11۔ علماء بلی کا پالنا مستحب قرار دیتے ہیں۔ 12۔ گھریلو بلی کی خرید و فروخت جائز ہے اور جن روایات میں اس کی خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وحشی و جنگلی بلی ہے۔ 13۔ بلی کا کھانا حرام ہے کیونکہ یہ درندوں میں سے ہے۔ 14۔ ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا کہ نہ اسے کچھ کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اسے کھولتی تھی کہ وہ اپنا رزق خود تلاش کر کے کھا لے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہی نہیں
15۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس ایک بلی آتی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اس کے لئے پانی کا برتن جھکا دیتے تھے۔ وہ بلی پانی پی لیتی تھی پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اس کے بچے ہوئے پانی سے وضو فرماتے تھے۔ 16۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے اور ان کے قریب دوسرے گھروں میں تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ تو یہ بات ان پر گراں گزری۔ انہوں نے اس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے شکایت کی کہ حضور وہاں تو تشریف لے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں قدم رنجہ نہیں فرماتے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: تمہارے گھروں میں کتا ہے اس لئے میں تمہارے گھروں میں نہیں آتا۔ انہوں نے عرض کیا ان کے ہاں بھی تو بلی ہے (تو وہاں کیوں تشریف لے جاتے ہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا بلی تو سبع ہے۔ یعنی بلی اور کتے کا حکم ایک جیسا نہیں ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوسری روایت کے الفاظ یوں ہے: "بلی ناپاک نہیں ہے بلکہ یہ تمہارے پاس آتی جاتی رہتی ہے۔” 17۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھی بلی تھی۔ ان کا اصلی نام عبدالرحمن تھا۔ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بلی دیکھی تو ان کو "یا ابا ہریرة” (اے بلی والے یا اے بلی کے باپ) کہہ کر پکارا۔ اسی دن سے ان کی یہ کنیت اس قدر مشہور ہوگئی کہ لوگ ان کا اصلی نام ہی بھول گئے۔ (سیرالصحابہ و حزب الرحمن)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مجھے یہ تحریر لکھتے ہوئے محسوس ہوا ہے کہ یہ موضوع ایک طویل موضوع ہے ابھی تک ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پالتو اور پسندیدہ جانوروں کا ذکر کیا ہے جن میں سب سے پہلے ہم نے ذکر کیا براق کا پھر اونٹ ، گھوڑا ، بکرا ، خچر ، گدھا اور بلی اور ان کے بارے میں مختصر معلومات پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے اگر اس سے بھی مختصر ہم پڑھیں گے یا میں لکھوں گا تو پھر ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور موضوع کو زیادہ طول دینا بھی مناسب نہیں کیونکہ طویل مضمون چاہے اس میں دلچسپی کی عناصر ہوں یا معلومات کے پڑھنے والے کے لئے بوریت پیدا کردیتے ہیں لہذہ اس تحریر کو اس کا پہلا حصہ سمجھ کر اس کا مطالعہ کیجئے اور معلومات حاصل کرنے کی سعادت حاصل کیجئے ان شاءاللہ اللہ نے چاہا تو اسی سلسلے کو ہم دوسرے حصے میں دوبارہ وہیں سے شروع کریں گے جہاں ہم چھوڑے جارہے ہیں اور پھر وقت اور حالات ہمیں بتائیں گے کہ یہ موضوع دوسرے حصے میں مکمل ہو جائے گا یا اس سلسلے کو مزید کچھ حصوں تک لیکر جانا ہے ان شاءاللہ ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 136 Articles with 100563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.