امن کی وادی سوات سے ایک بار پھر بری خبر نے پوری دنیا کے
لوگوں کو حیران اور پریشان کردیا، جس نے بھی خبر سنی سر پکڑ کر رہ گیا اور
یہ سوچھتا رہا کہ کیا سوات ایک بارپھر کشیدگی کی طرف جارہا ہے ، تفصیل اس
اجمال کی یوں ہے کہ جمعرات 20 جون کی شام اچانک خبر آئی کہ سوات کے سیاحتی
علاقے مدین میں مبینہ طورپر سیالکوٹ کا رہائشی سیاح محمد سلیمان ولد قمردین
توہین قرآن کا مرتکب ہوگیا ہے، ملزم کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے توہین
قرآن کا ارتکاب کرتے ہوئے قرآن کے نسخہ کو جلایا ہے جبکہ اس کے پاس موجود
باقی قرآن کے اوراق پر عجیب قسم کی شکلیں بنی ہوئی ہیں ، واقعہ کے بعد
مقامی پولیس نے ملزم کو تحویل میں لے کر مدین تھانہ پہنچایا جہاں پر اس سے
پوچھ گچھ ہورہی تھی کہ ا س دوران علاقے کے لوگوں میں خبر پھیل گئی ، چونکہ
اس علاقے کے لوگ حد سے زیادہ مذہبی رحجان رکھتے ہیں اور ایسی کسی بھی بات
کو برداشت کرنے کا یارا نہیں رکھتے اسی بناءپر جس نے بھی اعلان سنا وہ
مشتعل ہوگیااور تھانہ مدین کا رُخ کرکے ہجوم کی شکل میں اکھٹا ہونے شروع
ہوگئے ۔
عینی شاہدین کے مطابق مدین کے علاقے کی لوگوں میں اس قدر اشتعال پھیل گیا
تھا کہ لوگوں نے مساجد میں اعلانات کرکے دیگر لوگوں کو بھی باخبر کرتے ہوئے
تھانہ مدین پہنچنے کی ہدایت کردی جس کے بعد لوگوں کو کنٹرول کرنا کسی صورت
ممکن نہیں رہا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک مقامی شخص کا انٹرویو بھی
شیئر ہوا ہے جس میں وہ دعویٰ کررہا ہے کہ میں نے خود اس شخص کو توہین قرآن
کا مرتکب پایا جس کے بعد میں نے اسے پکڑا لیکن وہ اس سے جان چھڑا کر بھاگنے
میں کامیا ب ہوگیا اس کے بعد میں نے اس کا پیچھا کیا اور مدین بازار کے
نکھڑ پر اسے ایک بار پھر پکڑا جس کے بعد ہجوم اکھٹا ہونے پر میں نے تھانہ
مدین کے ایس ایچ او کو مطلع کیا اور اس نے آکر ملزم کو اپنی تحویل میں لے
کر مدین تھانہ منتقل کردیا۔
دل خراش واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مدین کے رہائشی مشتعل لوگوں نے
بعد ازاں قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی کی نہیں سنی اور تھانہ پر دھاوا بول
کر ملزم کو پولیس کے تحویل سے چھڑا کر سڑک پر لے آئے جہاں پر اول تو اسے
شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا بعد ازاں ڈنڈوں اور پتھروں کے وار کرکے اس
شخص کو قتل کردیا گیا لیکن اس پر بھی ان لوگوں کا غصہ کم نہ ہوا تو پٹرول
چھڑک کر لاش کو آگ لگا کر جلا ڈالا، واقعہ کے بعد علاقے میں کافی کشیدگی
رہی جس پر پولیس کی بھاری نفری بلا کر حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی
گئی۔
وقوعہ پر مقامی لوگوں کی جانب سے کئی طرح کے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں کہ
یہ سوات کے امن اور سیاحتی سیز ن کے خلاف ایک سازش ہے کیونکہ جب بھی سوات
میں سیاحتی سیزن شروع ہوتا ہے تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے
سیاح گھبرا کر سوات آنے سے کتراتے ہیں ،واضح رہے کہ سوات کے سیاحتی سیزن پر
مشکلات کے باعث حال ہی میں اس علاقے کے لوگوں نے حکومت سے مایوس ہوکراپنی
مدد آپ کے تحت بحرین تاکالام 6 کلومیٹر روڈ خود چندہ کرکے تعمیر کروائی
تاکہ سیاح آسانی کے ساتھ ان سیاحتی علاقوں میں پہنچ سکیں ، قرآن جلانے کے
واقعہ کو لوگ اسی تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ شائد دیگر سیاحتی علاقوں
کے لوگوں نے اپنے مفادات کیلئے اس طرح کا گھناﺅنا کھیل کھیلا ہو کیونکہ سب
جانتے ہیں کہ سوات کے لوگوں انتہا کی حد تک مذہبی رحجان رکھتے ہیں جس کا
فائدہ اُٹھایا گیا۔
دوسری جانب واقعہ کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھا جارہا ہے اور بعض لوگ
سمجھتے ہیں کہ سوات کے امن کو خراب کرنے اور دہشت گردی کی راہ ہموار کرنے
کیلئے کوشش کی جارہی ہے جس کا تانا بانا وہ حال ہی میں مالاکنڈ ڈویژن کے
ضلع بونیر کے رہائشی ایک شخص کے سوشل میڈیا اکاونٹ سے توہین رسالت کے واقعہ
اور موجودہ واقعہ کو ایک ہی کڑی کا تسلسل سمجھتے ہیں اور خدشہ ظاہر کررہے
ہیں کہ قصداً سوات کے پرامن فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آخری اطلاعات تک تھانہ مدین میں توڑ پھوڑ کے نتیجے میں ایک سرکاری موبائل ،
دو سرکاری موٹرسائیکل اور ڈی ایس پی کی V8 گاڑی سمیت دیگر اہلکاروں کی کئی
گاڑیوں کو آگ لگا کر تباہ کردیا گیا ، اس طرح کے واقعات اس سے قبل پنجاب
اور ملک کے مختلف علاقوں میں بھی پیش آئے جس میں بعض لوگ خوش قسمتی سے بچ
گئے اور بعض لوگوں کی تشدد کا نشانہ بن گئے جس پر سنجیدہ اور پرامن لوگوں
کا تشویش میں مبتلا ہونا قدرتی امر ہے ، مدین سوات کے واقعہ میں صورت حال
اب تک الزام سے آگے کچھ بھی نظر نہیں آیا کیونکہ نہ تو کسی کو بے حرمتی شدہ
قرآن کے اوراق ملے ہیں اور نہ ہی مبینہ ملزم کا موقف یا کوئی بیان سامنے
آیا ہے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پولیس حکام واقعہ کی شدت کو محسوس کرتے
ہوئے ملزم کو تفتیش تک محفوظ مقام پر منتقل کرتے اور اگر ملزم واقعی توہین
قرآن کا مرتکب پایاگیا ہوتا تو اسے قانون کے مطابق سزا دینے کا اہتما م
کرتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ،واقعہ میں پرتشدد مظاہرہ کے دوران 11
مظاہرین اور آٹھ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوگئے ہیں اس کے علاوہ 24 گھنٹے کا
وقت گزرنے کے باوجود تاحال واقعہ کا رپورٹ درج نہیں ہوا جس کے بارے میں
پولیس حکام کا موقف ہے کہ قانونی مشاورت کے بعد رپورٹ درج کی جائے گی ۔
واقعہ پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈا پور نے بھی نوٹس
لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات خان سے فوری رپورٹ پیش کرنے کی
ہدایت کردی ہے ، بہر حال اصل حقائق لوگوں کے سامنے لانے کیلئے فوری
کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ سوات کے لوگ اپنے امن کے حوالے سے کافی تشویش
میں مبتلا ہیں۔
|