میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اب تک ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پالتو جانوروں کے بارے میں
معلومات حاصل کی ہیں اب ہم اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جس جانور کا ذکر
کریں گے وہ ہے " کبوتر" جی ہاں کبوتر
کبوتر کے بارے میں پہلے کچھ دلچسپ باتوں کا ہم مطالعہ کرتے ہیں کبوتر وہ
جانور ہے جو شیشے میں اپنے آپ کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کبوتروں کودور دراز کے علاقوں سے اپنے گھر جانے کا راستہ اچھی طرح سے یاد
ہو تا ہے۔کبوتر مختلف کبوتروں میں فرق سمجھنے اور پہچاننے کی صلاحیت رکھتے
ہیں ۔ کبوتر ایک لمبے عرصے کے لئے مختلف تصاویر ذہن نشین کر سکتے ہیں۔
کبوتر پیچیدہ ریسپانسز اور ترتیبیں سیکھ سکتے ہیں۔
کبوتروں کی سُننے کی صلاحیت انسانوں سے بھی تیز ہے۔ وہ انسانوں کی نسبت
کہیں درجے کم فریکئیوئنسی کی آواز با آسانی سُن سکتے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کبوتر واحد پرندہ ہے جسے پانی نگلنے ک لئے
اپنا سر نہیں اٹھانا پڑتا۔ پانچ ہزار سال قبل یونانی قوم نے کبوتروں کا
استعمال پیغام رسانی کے لیے شروع کیا۔ کبوتروں کی اڑان کی برداشت ایک دن
میں سو کلومیٹر کی رفتار سے پندرہ سو سے سترہ سو کلو میٹر تک ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران پائیلٹ اپنے ساتھ کبوتر لے کر جاتے تھے کہ کہیں
اگر انھوں نے اپنا جہاز پھنسا لیا(یعنی تباہ ہونے سے بچ گیا یا تباہ ہونے
کے بعد وہ بچ گئے) تو کبوتر کو مدد کے لیے بطور پیغام رساں استعمال کر سکیں
اور اس طرح بہت سے پائلٹس نے اپنی زندگیاں بچائیں۔ آج کے دور میں بھی کبوتر
جنگی مقاصد کے تحت، فرانسیسیی،سوئس،اسرائیلی،سوئیڈن اور چائنیز فوج کے
استعمال میں ہیں۔ کبوتر اور فاختہ میں بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے۔چھبیس
میل کی دور تک کبوتر با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا کبوتر سینکڑوں میل
کی دوری سے ہواوں کا شور تک سن سکتا ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں ایک کی
اڑان کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی جسے افریقہ سے چھوڑا گیا اور وہ پچپن دن
بعد برطانیہ پہنچ گیا اس کبوتر نے پچپن دنوں میں سات ہزار میل (قریبا ساڑھے
گیارہ ہزار کلو میٹر) کا سفر طے کیا۔ ایک عام کبوتر کی چونچ سے دم تک
اوسطاً لمبائی تیرہ انچ ہوتی ہے۔ایک بالغ کبوتر کے قریبا دس ہزار پر ہوتے
ہیں۔ کبوتروں کی اوسطاً عمر تیس سال ہوتی ہے۔ کبوتر ایک سیکنڈ میں دس مرتبہ
پر ہلا سکتاہے اور اس کا دل ایک منٹ میں چھے سو بار دھڑکتا ہے۔ اسلام کے
علاوہ ہندووازم، سکھ ازم اور بدھ مت میں بھی کبوتروں کو دانہ ڈالنا ثواب
سمجھا جاتا ہے۔ جب کھانا کھانے کی باری آئے اور اگر وہاں بہت سے کبوتر ہیں
تو نر یا مادہ کبوتر جو بھی بچہ ملے اسے کھانا کھلا دیتے ہیں چاہے وہ ان کا
اپنا بچہ ہو یا نہ ہو۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پوری دنیا میں لاکھوں ڈالرز کے جوئے کے
ساتھ کبوتروں کی پانچ بڑی ریس ہوتی ہیں۔ جنگ عظیم اول کے دوران ایک چر
آمی(پیارا دوست) نامی کبوتر نے دشمن کی حدود پار کرتے ہوئے ایک پیغام پہنچا
کر کئی فرانسیسی فوجیوں کی جان بچائی۔ اس کبوتر کو سینے میں اور ٹانگ پہ
گولی لگی اور اس ٹانگ میں گولی جس ٹانگ کے ساتھ پیغام بندھا ہوا تھا، اس
ٹانگ سے بہت زیادہ گوشت اتر گیا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے رہریلی گیسوں سے
بچتے ہوئے پچیس منٹ تک پرواز جاری رکھی اور پیغام پہنچا دیا۔ اس کبوتر کو
امتیازی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے دیکھا ہوگا کی کبوتر کی ٹانگیں سرخ
ہوتی ہیں آئیے پڑھتے ہیں کی ایسا کیوں ہے کبوتر کے دونوں پائوں سرخ کیوں
ہوتے ہیں۔ طوفان نوح گزر جانے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی
پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہر گئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے روئے زمین کی خبر
لانے کے لئے کبوتر کو بھیجاتو وہ زمین پر نہیں اترا بلکہ ملک سبا سے زیتون
کی ایک پتی چونچ میں لے کر آ گیاتو آپ نے فرمایا کہ تم زمین پر نہیں اترے
اس لئے پھر جاؤ اور روئے زمین سے خبر لاؤ ۔تو کبوتر دوبارہ روانہ ہوا اور
مکہ مکرمہ میں حرم کعبہ کی زمین پر اترااوردیکھ لیا کہ پانی زمین حرم سے
ختم ہو چکا ہے اور سرخ رنگ کی مٹی ظاہر ہو گئی ہے۔کبوتر کے دونوں پاؤں سرخ
مٹی سے رنگین ہو گئے۔ اور وہ اسی حالت میں حضرت نوح علیہ السلام کے پاس
واپس آ گیا اور عرض کیا کہ اے خدا کے پیغمبر !آپ میرے گلے میں ایک
خوبصورت طوق عطا فرمائیے اور مجھے زمین حرم میں سکونت کا شرف عطا
فرمائیے۔چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے کبوتر کے سر پر دست شفقت پھیرا
اوراس کے لئے دعا فرمائی کہ اس کے گلے میں دھاری کا ایک خوبصورت ہار پڑا
رہے اور اس کے پاؤں سرخ ہو جائیں اور اس کی نسل میں خیر و برکت رہے اور اس
کو زمین حرم میں سکونت کا شرف ملے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کبوتر کی خاص عادت یہ ہے کہ اگر اس کو ایک
ہزار میل کے فاصلے سے بھی چھوڑا جائے تو یہ اُڑ کر اپنے گھر پَہُنچ جاتا ہے
نیز دُور دراز ملکوں سے خبریں لاتا اور لے جاتا ہے۔اور یہ بھی دیکھنے میں
آیا ہے کہ اگر کبھی کسی کا پالتو کبوتر اور کسی جگہ پکڑا گیا اورتین تین
سال یا اس سے بھی زیادہ مُدَّت تک اپنے گھر سے غائب رہا مگر باوُجُود اس
طویل غیر حاضری کے وہ اپنے گھر کو نہیں بھولتا اور اپنی ثباتِ عقل ،قُوَّتِ
حافِظہ اور کششِ گھر پر برابر قائم رہتا ہے اور جب کبھی اسے موقع ملتا ہے
اُڑ کر اپنے گھر آجاتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر کسی شخص کے اَعْضاء شل ہوجائیں یا
لَقْوہ ، فالج کا اَثر ہو جائے تو ایسے شخص کو کسی ایسی جگہ جہاں کبوتر
رہتے ہوں وہاں یا کبوتر کے قریب رہنا مفید ہے ،یہ کبوتر کی عجیب و غریب
خاصیّت ہے ،اس کے علاوہ ایسےشخص کے لیے اس کا گوشت بھی فائدہ مند ہے۔
عجائب القرآن صفحہ 318 تفسیر صاوی جلد 3 صفحہ 912۔
حضرت سیدنا امام ابو شکورسالمی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ
اعقل الطیور الحمام
یعنی پرندوں میں سب سے عقل والا پرندہ کبوتر ہے
(تمہید عبد الشکور سالمی مترجم ص 43).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم جس جانور کا ذکر خیر کرنے جارہے ہیں
وہ کم و بیش کئی انسانوں کی پسندیدہ خوراک ہونے کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ
علیہ وآلیہ وسلم کو بھی بیحد پسند تھی اور قرآن مجید میں اس کا ذکر بھی
موجود ہے اور وہ ہے " مچھلی "
مچھلی قدیم زمانے سے انسان کی غذاؤں میں شامل ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی مچھلی کا گوشت تناول فرمایا ہے۔
مچھلی کا گوشت ذائقہ دار اور بہت فائدہ مند غذاؤں میں شمار ہوتا ہے۔ خصوصاً
علمِ طب اس کے فوائد سے بھرا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں مچھلی کی کئی اقسام پائی
جاتی ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں۔ قراٰنِ کریم میں پانچ مقامات پر مچھلی کا
ذکر آیا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے پاکیزہ کلام میں جہاں بنی اسرائیل کو ہفتہ
کے دن شکار سے منع فرمایا، اس مقام پر ایک جگہ مچھلی کا ذکر آیا ہے۔ اور
جہاں حضرت موسیٰ و خضر علیہما السّلام کی ملاقات کا واقعہ ذکر فرمایا ہے
وہاں بھی دو جگہ مچھلی کا ذکر آیا ہے۔ یادرہے! مچھلی وہ خوش نصیب جانور ہے
جس کے پیٹ میں اللہ پاک کے نبی حضرت یونس علیہ السّلام تشریف فرما ہوئے۔
قراٰنِ مجید میں موجود اس واقعہ میں دو جگہ مچھلی کا ذکر آیا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں احادیث میں بھی مچھلی کا ذکر ہمیں بکثرت
ملتا ہے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تین سو مجاہدین اسلام کے لشکر
پر سپہ سالار بن کر سیفُ البحر میں جہاد کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں لشکر کا
راشن ختم ہو گیا یہاں تک کہ پورے دن میں ایک ایک کھجور بطورِ راشن کے
مجاہدین کو دینے لگے۔ پھر وہ کھجوریں بھی ختم ہو گئیں۔ اس موقع پر اچانک
سمندر کی طوفانی موجوں نے ساحل پر ایک بہت بڑی مچھلی کو پھینک دیا، اس
مچھلی کو تین سو مجاہدین کی فوج اٹھارہ دنوں تک شکم سیر ہو کر کھاتی رہی
اور اس کی چربی کو اپنے جسموں پر ملتی رہی یہاں تک کہ سب لوگ تندرست اور
خوب فربہ ہو گئے۔ پھر چلتے وقت اس مچھلی کا کچھ حصہ کاٹ کر اپنے ساتھ لے کر
مدینہ منورہ واپس آئےاور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
خدمت میں اس مچھلی کا ایک ٹکڑا پیش کیا۔ جس کو آپ نے تناول فرمایا اور
ارشاد فرمایا کہ اس مچھلی کو اللہ پاک نے تمہارا رزق بنا کر بھیج دیا۔ یہ
مچھلی کتنی بڑی تھی لوگوں کو اس کا اندازہ بتانے کے لئے امیرِ لشکر حضرت
ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس مچھلی کی دو پسلیوں کو
زمین میں گاڑ دیں۔ چنانچہ دونوں پسلیاں زمین پر گاڑ دی گئیں تو (اتنی بڑی
محراب بن گئی کہ) اس کے نیچے سے کجاوہ بندھا ہوا اونٹ گزر گیا۔
(خزائن الادویہ،3/659)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک مشہور بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے
مچھلی کو زبان نہیں دی یعنی زبان سے محروم رکھا کیوں ؟ تو اس کے متعلق
ہمارے علماء لکھتے ہیں کہ جب رب تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ
کرنے کا فرشتوں کو حکم دیا اور ابلیس کے انکار کی وجہ سے اس کا چہرہ مسخ
کرکے زمین پر پھینک دیا گیا تو وہ سب سے پہلے سمندر کی طرف گیا تو اسے وہاں
سب سے پہلے ایک مچھلی نظر آئی ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی
کہانی اسے سنائی اور یہ بھی کہا کہ وہ سمندری جانوروں کا شکار بھی کرے گا
تو مچھلی نے شیطان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سمندر کی ساری مخلوق کو حضرت
آدم علیہ السلام کہ کہانی کہ سنائی اس لئیے اللہ تعالیٰ نے اسے زبان کے شرف
سے محروم کردیا ۔۔ (مکاشفتہ القلوب ص 139)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم اس تحریر میں جس خطرناک جانور کا ذکر
کرنے جارہے ہیں میرے خیال سے کم و بیش ہر انسان اگر ہر انسان نہیں تو زیادہ
تر لوگ اس سے بہت زیادہ خوف کھاتے ہیں یا ڈرتے ہیں اور وہ ہے " سانپ"
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ میں قرآن مجید میں سورہ الشعرہ
، سورہ الاعراف، سورہ القصص ، اور سورہ النحل میں مختلف انداز میں سانپ کا
ذکر آیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک سانپ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنا منہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے کان
مبارک کے پاس لے گیا اور کچھ عرض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے
کہا ٹھیک ہے اور پھر وہ سانپ لوٹ گیا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے
ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو حضور
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک جن تھا اور اس نے مجھ سے یہ
درخواست کی کہ اپنی امت کو حکم فرمایئے کہ وہ لید اور بوسیدہ ہڈیوں سے
استنجا نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمارے لئے رزق رکھا ہے ۔
( آکام المرجان فی احکام الجان ص 32)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں کئی باتوں کا ہمیں علم ہوتا ہے ایک تو
یہ کہ سانپ کہیں بھی کسی کا بھی روپ بدل کر آسکتا ہے اور زیادہ تر یہ جنات
ہی ہیں جو سانپ کی شکل میں آجاتے ہیں دوسرا یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین بناکر بھیجا اس لئے جانور بھی اپنے
مسائل کے حل کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے
ہیں اب وہ چاہے سانپ ہی کیوں نہ ہو یا جن ہی کیوں نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ
وآلیہ وسلم کی محبت اور شفقت سے ہر جن و انس اور ہر جانور اور پرندہ مستفید
ہوتے رہے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ
کو قرآن مجید کی کئی سورہ کی کئی آیتوں میں ذکر کیا گیا ہے اور اس واقعہ
میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو معجزہ عطا کیا تھا وہ ایک
عصا تھا جو بعد میں سانپ کی شکل اختیار کرگیا تھا اس واقعہ میں دو سانپوں
کا ہمیں ذکر ملتا ایک کا نام تھا " ثعبان " جو ایک بڑے سانپ کی شکل میں تھا
اور دوسرے کا نام " جان " جو ایک چھوٹے سانپ کی شکل میں تھا قرآن مجید میں
یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ آیا ہے اسے پڑھنے کی سعادت ضرور حاصل کیجئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں احادیث میں بھی ہمیں سانپ کا ذکر بکثرت
ملتا ہے جیسے کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " نماز میں دو کالوں یعنی
سانپ اور بچھو کو مارڈالو ".(صحيح أبي داود:921)
یعنی ان کو مارنے کے حکم میں یہاں تک کہا گیا کہ اگر کوئی شخص نماز کی حالت
میں ہو اور اسے یہ دونوں جانور نظر آجائیں تو نماز توڑ کر انہیں ماردے کہ
یہ انتہائی نقصان پہنچانے والے جانور ہیں
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن اس کے برعکس ایک روایت میں سرکار صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے گھروں میں پائے جانے والے سانپ کے لئے حکم فرمایا
کہ ان کو مارنے میں کچھ احتیاط کرنی چاہئے کیونکہ وہ جنات بھی ہوسکتے ہیں
لہذہ ان کے لئے حکم یہ ہے کہ گھر میں اگر سانپ آجائے تو اسے تین دن تک کچھ
نہ کہیں اور اسے بار بار جانے کا کہتے رہیں اگر وہ صحیح ہوں گے تو چلے
جائیں گے اور اگر وہ تین دن تک نہ جائے تو وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں
لہذہ انہیں پھر مار دیا جائے یعنی قتل کردیا جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک روایت یہ ملتی ہے کہ تمام سانپوں کو
مار دینے کا حکم ہے سوائے سفید سانپوں کے کہ یہ جنات کی ایک قسم ہے ۔۔ (
ابوداؤد 5249 ،5261) ہمارے یہاں سانپ کی کھال سے کئی اشیاء بنا کر مارکیٹ
میں فروخت کی جاتی ہیں اور سانپ کا تیل بھی اکثر بازار میں درد وغیرہ کے
استعمال کے لئے بازار میں ملتا ہے لیکن شریعت نے سانپ کو ایک موذی اور حرام
جانور قرار دیا ہے لہذہ اس سے بنی ہوئی کوئی بھی شہ یا تیل استعمال کرنے کی
سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے کہ حرام جانور کا خون ، تیل یا کھال حلال
نہیں ہوتی اس لئے اس سے بچنا چاہیئے اور ہمیں ان سے ہر ممکن طور پر دور
رہنا چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم بڑھتے ہیں اس جانور کی طرف جو بچوں
میں خاص طور پر پسند کیا جاتا اور کسی بھی ملک یا شہر میں موجود چڑیا گھر
کی اس کو جان سمجھا جاتا ہے جی ہاں " ہاتھی " ہاتھی کو جنگلی حیات میں
مظبوط جسم اور طاقتور ترین ممالیہ جانور سمجھا جاتاہے محقق نے ہاتھیوں کی
تین اقسام کا ذکر کیا ہے جس میں پہلا افریقی جھاڑیوں والا ہاتھی دوسرا
افریقی جنگلی ہاتھی جبکہ تیسرا ہاتھی ایشیائی ہاتھی کہلایا جاتا ہے جو
انڈیا میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک ہاتھی کی طبعی زندگی عموماً 70 سال تک
ہوتی ہے، جبکہ کچھ ہاتھی اس سے زیادہ عرصے تک بھی زندہ رہتے ہیں۔ دنیا کا
طویل العمر ہاتھی انگولا میں 1956ء میں دیکھا گیا تھا۔ ہاتھی وہ واحد جانور
ہے جو چھلانگ نہیں لگا سکتا ان کی لمبی سونڈ، چوڑے کان، ستون نما ٹانگیں
اور سخت مگر حساس بھوری کھال ہوتی ہے۔ سونڈ لٹکی ہوتی ہے جس کی مدد سے پانی
اور خوراک کو منہ تک لانا اور مختلف چیزیں پکڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔ بیرونی
دانت کاٹنے والے دانتوں کی تبدیل شدہ شکل ہے اور ہتھیار اور آلے کے طور پر
کام کرتے ہیں اور کھدائی اور چیزوں کو حرکت دینے میں مدد دیتے ہیں۔ افریقی
ہاتھی کے کان زیادہ بڑے اور پشت مقعر ہوتی ہے جبکہ ایشیائی ہاتھیوں کے کان
نسبتاً چھوٹے اور پشت ہموار یا مقعر ہوتی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ الفیل میں
ہاتھی کا ذکر ہمیں ملتا ہے اور عربی میں فیل کے معنی ہاتھی کے ہیں گویا اس
پوری سورہ مبارکہ میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ہاتھی والوں سے
ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے کم و بیش پچاس یا
پچپن دن قبل ایک واقعہ کی صورت میں پیش آیا قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ میں
اس واقعہ کا ذکر اس سورہ میں ترجمعہ میں ہمیں ملتا ہے جبکہ ہمارے علماء نے
تفسیر کے ساتھ اس واقعہ کو لکھا بھی ہے اور اپنے بیان میں سنایا بھی ہے اس
پورے واقعہ کو یہاں لکھنا موضوع سے ہٹ جانا ہوگا لہذہ یہاں معلومات کے لئے
اتنا بتانا مقصود ہے کہ ہاتھی کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے متعلق اتنا بتانا ضروری سمجھتا
ہوں کہ ہاتھی والوں کا یہ لشکر دشمنان اسلام کا ایک شخص جو حبشہ کا سردار
تھا اس کا نام ابراہہ تھا اور مکہ معظمہ کو گرانے کی نیت سے جن ہاتھیوں کا
لشکر لیکر آیا تھا ان میں ہاتھیوں کا سردار ہاتھی جس کانام محمود تھا جب
ابراہہ نے حملے کا حکم دیا تو محمود اپنی جگہ سے نہیں ہٹا گویا اس نے
ابراہہ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا اور وہ اللہ کے اس گھر کو شہید
کرنے کے حق میں نہیں تھا لہذہ تاریخ اسلام میں اس ہاتھی کا نام سنہرے
الفاظوں میں لکھ دیا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی تحریر میں ہم نے کبوتر ، مچھلی ،
سانپ ، اور ہاتھی کے بارے میں پڑھا اور ان کے بارے میں میرے پاس جو معلومات
تھیں ان کو مختصر کرکے آپ تک پہنچانے کی کوشش کی اور کوشش کرنے کی سعادت
حاصل کی لیکن ہمارا یہ مضمون ابھی جاری وساری ہے اور ہم ان شاءاللہ اس کے
تیسرے حصے کو لیکر دوبارا حاضر ہوں گے تب تک اپنا خیال رکھیئے گا اور مجھے
دعاؤں میں یاد رکھیئے گا اللہ نگہبان ۔
|