سیاسی لیڈر اور سیاسی عمل پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہے؟

پاکستان میں کیا ہر جمہوری ملک میں معاشرے اور ریاست کے لیے سیاسی قیادت کا وجود بہت ضروری ہوتا ہے. کسی کے بھی لاکھ اختلاف ہوں سیاسی قیادت سے مگر جب یہ اچانک ان کی زندگی ساکن ہوجائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ سیاسی قیادت کتنی اہم ہوتی ہے. خاص کر ہمارے جیسے جمہوری ملکوں میں اس کا اندازہ اللہ تعالی محترمہ بے نظیر بھٹو کی مغفرت کرئے. جب محترمہ کو شہید کیا گیا تو ایسا لگا جیسے سر سے کسی نے سایہ چھین لیا ہو۔ اُس وقت واقعی پہلی بار یہ شدت سے احساس ہوا کہ سیاسی قیادت جیسی بھی ہو اس کا وجود معاشرے اور ریاست کے لیے کتنا باعث خیر ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں جو یک جہتی تھی بانی پاکستان کی رحلت کے فورا بعد ملک میں لسانی، علاقائی فرقہ واریت اور خود مسلیم لیگ جماعت کے اُن ممبروں اور عہدیداروں نے جنہوں نے پاکستان بنانے کی تحریکوں میں جو بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا وہ بھی مختلف حوالوں سے تقسیم در تقسیم ہوتے رہے۔ اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے . اس منقسم معاشرے کو قومی سیاسی قیادت جوڑ کر رکھتی ہے۔ یہ کسی باہر سے امپورٹ کیے ہوئے معین قریشی مرحوم یا شوکت عزیز جیسے مہرے کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام ملک کی سیاسی جماعت ہی کر سکتی ہے۔ مُلک کی قومی سیاسی جماعت اپنی ساری خرابیوں کے باوجود اسی لیے خیر کی قوت ہے کہ ملک بھر میں، جہاں جہاں اس کا ووٹر ہے وہ اپنی ساری عصبیتوں سے بالاتر ہو کر قومی دھارے سے جڑا رہتا ہے۔ اور تمام اکائیوں کو شراکت اقتدار کا احساس رہتا ہے۔ ہمارے مُلک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت میں خیر کے اس پہلو کو سمجھنے کے بجائے ایسے مکمل برائی سمجھا گیا اور اس کی سرکوبی کو راہ نجات تصور کی گیا۔ ڈکٹیٹر ایوب خان جس کے دور میں ہمارے ملک کی سیاست میں جو بگاڑ پیدا ہوا جسکا آج تک اُس کا اثر موجود ہے. اس کے دور میں "ایبڈو" جیسا قانون بنایا گیا اور قیام پاکستان کے وقت کے اہل سیاست دانوں کو جو اپنے تعلیمی لحاظ سے بھی ، سماجی اور دینی لحاظ سے ، اور زہنی پختگی کے حساب سے بھی اور اپنے شعور اعتبار سے بھی بہت مضبوط تھے ان محب وطن سیاست دانوں کو کرپٹ، قرار دے کر نا اہل قرار دے کر قومی سیاست سے نکال باہر کر دیا گیا ،تا کہ یہ ڈکٹیٹر ایوب خان کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ بنیں اور یہ بزرگ لوگ چھ سال کی نا اہلی کے بعد بوڑھے ہوجائنگے یا مر کھپ جائیں گے ۔ کرپشن کے جن الزامات میں تحریکی پاکستان کے وقتوں کے اہل سیاست اور سیاست دانوں کو رسوا کیا گیا ان میں فون کے استعمال سے لے کر تبادلوں تک جیسی " سنگین کرپشن" موجود تھی۔عالم یہ تھا کہ ڈکٹیٹر ایوب خان کو جس وزیر دفاع کے دفتر میں ملاقات کے لیے چند منٹ انتظار کرنا پڑا تھا. ایسے ایبڈو کے ذریعے اسے نا اہل قرار دلوا دیا۔ مشرق پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریک پاکستان کے نمایاں رہنما اور درد دل رکھنے والے اپنے ملک پاکستان سے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس سے قبل انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا اور پھر زبردستی مُلک سے جلاوطن کردیا آخر یہ محب وطن اپنی جلاوطنی کی حالت میں ایک ہوٹل میں انتقال کرگیا ۔ کہنے والے اسے ہارٹ اٹیک کہتے ہیں اور کچھ خاموش قتل ۔اس طرح کےقدآور رہنمائوں کو بڑی کامیابی سے " سائڈ لائن" کیا گیا۔جب بڑے اور بردبار لوگ منظر سے ہٹ جائیں تو چھوٹے لوگ بڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مُلک کے ساتھ یہی ہوا۔ اس کا انجام بھی ہم نے دیکھ لیا۔ معلوم نہیں مسئلہ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ٹیڑھے مہنہ سے انگریزی بولنے والے معین قریشی اورشوکت عزیز وغیرہ جیسے کردار تو ہمیں بہت پسند آتے ہیں لیکن مقبول عوامی قیادت ہمیں آج بھی راس نہیں آتی عوام کے دلوں میں کھٹکتی ہے. یہ گرہ ابھی تک کھلنے میں ہی نہیں آرہی کہ سیاسی قیادت اپنی ساری خوبیوں خامیوں سمیت اس ملک اور اس معاشرے کے لیے خیر کی قوت ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید بھی ایسی ہی بہادر قوت کانام تھا۔ زندہ رہیں تو ان کی حب الوطنی مشکوک ہی رہی۔ حتی کے کشمیر فروشی تک کے طعنے دیے جاتے رہے۔ لیکن قتل ہو گئیں تو یہ ہی جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سابق امیر جناب عبد الرشید ترابی ایک مجلس میں آف دی ریکارڈ کہنے لگے ،کشمیر پر سب سے زیادہ حساسیت بے نظیر بھٹو میں تھی۔ وہ نہ صرف ہماری بات سنتی تھیں بلکہ قیمتی مشورے بھی دیتی تھیں۔ تراب صاحب وارفتگی کے عالم میں، بی بی کی تعریف کر رہے تھے جب بی بی زندہ تھیں تو یہی جماعت ا سلامی کا موقف کیا ہوتا تھا جب اس طرح کی جماعتوں میں منافقت ہو تو پھر ہماری ملک کی سیاست کا اللہ ہی حافظ . محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں تو یہ بھی ہوا تھا کہ سلامتی کونسل نے کشمیر کو ایجنڈے سے بالکل خارج کر دیا تھا۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ نے نہ صرف اپنی کامیاب سفارت کاری سے اس مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر بحال کروایا بلکہ ایک اصول بھی طے کروا دیا کہ یہ مسئلہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر محض بھارت کی رضامندی سے آئندہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج ہو ہی نہیں سکتا. پھر وہی 1947 والی مُنافقت اور جھوٹے الزامات اور سازشی عناصر نے اپنا وہ شیطانی چکر سے جب زوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو یہی جماعت اسلامی ڈکٹیٹر ضیاء کا ہر اوّل دستہ بنی اور پاکستان کو جمہوری ریاست سے آمریت کے اندھیروں میں دھکیل کے دم لیا پھر محترمہ نظیر بھٹو کی کشمیر کو سلامتی کونسل میں دوبارہ شامل کرنے پر اس غیر معمولی سفارتی کامیابی کے باوجود بھی ایک ماہ بعدہی ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا. ( کیونکہ قاضی آئیگا انصاف دلائیگا). قاضی حسین احمد مرحوم جیسے نے" سکیورٹی رسک" بے نظیر بھٹو کے خلاف راولپنڈی کا مشہور زمان دھرنا دے کر" ملک دشمن حکومت" کی چولیں ہلا دی تھیں۔ اعلائے کلمۃ الحق بھی اس ملک میں شاید ایجنڈے کے تحت بلاوایا جاتا ہے اور حسب ضرورت بولا جاتا ہے. یہ سازشی عناصر روز حشر کیا کیا اللہ ترس منہہ دیکھلائینگے .اس ملک میں جمہوریت پاکستان کے لیے ناگزیر تو ہے مگر اس کیلیے سیاسی جماعتوں کو بھرپور جمہوری کلچر کو پروان چڑھانا ہو گا. جمہوری نظاموں میں حکومتوں کا آنا اور جانا طے شدہ آئینی طریقوں سے ہوتا ہے اور یہ ایک معمول کے عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر پاکستان میں منتخب حکومتوں کی رخصت پارلیمنٹ کی مدت کی تکمیل کے ذریعے تو ایک آدھ مرتبہ ہی ہوئی ہے، زیادہ تر حکومتیں یا تو فوجی بغاوت کے ذریعے معزول کی گئی ہیں یا پھر1988ءاور 1996ءکے درمیانی عرصے میں آٹھویں آئینی ترمیم ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے 1985ءمیں زبردستی آئین میں داخل کروائی تھی،اسکے تحت آرٹیکل 58(2)B کو بروئےکار لاتے ہوئے، پانچ حکومتیں (دومرتبہ بے نظی بھٹو کی اور تین مرتبہ ہی نواز شریف کی)دو دفعہ معزول کی گئیں۔اور ایک مرتبہ نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا گیا. اور پھر تحریک انصاف کو جس طرح سے حکومتی ایوانوں سے نکال باہر کیا . زبردستی پاکستان میں سویلین حکومتوں کے آنے اور جانے کا سلسلہ اس تواتر کے ساتھ جاری رہا ہے کہ جمہوری معاشروں میں سیاسی اداروں کو جو تقدس حاصل ہوتا ہے اور رائے دہندگان کے ووٹ کو جس اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے وہ تقدس اور اہمیت ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوسکی۔ خاص طور پر ہمارے پڑھے لکھے اور اعلیٰ اور متوسط طبقے کے لوگوں میں ایک خاصی بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل رہی ہے جن کے نزدیک جمہوریت اور آمریت، سویلین اور فوجی حکومتوں میں کوئی فرق ہی نہیں. پاکستان ایک سیاسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا لہٰذا آزادی کے بعد بھی اس کا ارتقا سیاسی اور جمہوری اندازہی سے ہونا چاہیے۔ تو یہ بہت آگے جایگا اگر زور زبردستی اس کو اپنی رضا اور منشا سے چلایا تو اس کا حشر بھی عراق، افغانستان, مصر ، صومالیہ ، انڈونیشیا، برما وغیرہ کی کی طرح نہ ہو جائے.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 192547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.