محب وطن مسیحا کی تلاش

تحریر:محمدآصف سندھو،پیال کلاں
پاکستان میں بدعنوانی ایک وسیع اور گہری جڑوں والا مسئلہ ہے جو معاشرے کے مختلف پہلوں بشمول سیاست، معیشت اور روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ یہ رشوت خوری، اقربا پروری، غبن، اور بدمعاشی جیسی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور عدم مساوات کو دوام بخشتا ہے۔پاکستان کئی دہائیوں سے بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے،پاکستانی سیاستدان ذاتی فائدے کے لیے اختیارات اور وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں،جس کی وجہ سے سرکاری دفاتر میں رشوت ستانی اور اقربا پروری عام ہوچکی ہے،پاکستان میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لئے نیب جیسے انسداد بدعنوانی کے اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے،تاہم، بدعنوانی سے نمٹنا پاکستان کے لیے ایک جاری چیلنج ہے، جس کے لیے مسلسل کوششوں اور شفافیت اور احتساب کے لیے اجتماعی عزم کی ضرورت ہے۔آج پاکستان میں بھوک، افلاس اورغربت اِس درجہ تک پہنچ چکی ہے کہ غریب کو دو وقت کی روٹی بھی آسانی سے میسر نہیں اور ایک وہ طبقہ جو آج بھی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے،کیایہ وہی پاکستان ہے؟ جس کی آزادی کے لئے 1947ء میں بہت سے بچوں نے اپنے والدین، بیوئیوں نے اپنے شوہر، بہنوں نے اپنے بھائی اور ماؤں نے اپنے بیٹوں کو وطن کی خاطرقربان ہوتے دیکھا، اِس و طن کو آزاد مملکت بنانے کے لئے خون کے نظرانے پیش کیئے، اور آج ہم اِس آزاد مملکت میں رہتے ہوئے بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے مسائل، یہ عوام دشمن نِظام آج کانِظام نہیں بلکہ یہ صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔،یہ ظالم اور کرپٹ نظام جس نے آج ہمیں پھر سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ وہ نظام جس نے ہمیں ہمارے دین ،ہمارے اسلاف، ہماری روایات، ہماری ثقافت اور ہمارے آباؤاجداد سے دور کر دیا۔ وہ نظام جس کی وجہ سے آج ہمارے دِلوں سے خلوص، محبت اور رواداری ختم ہو گئی ہے۔ آج اِسی نظام کی بدولت ملک پاکستان عالمی سطح پر دہشت گرد ملک تصّور کیا جاتاہے۔ آج وطنِ عزیز کی اِس حالتِ زار پر میرا دِل خون کے آنسو رو رہا ہے ،اِس نظام نے ہماری پوری قوم کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ طبقہ جو امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور ایک وہ طبقہ جو غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے ، ہمیں اب بھی یقین ہے کہ وہ دِن دور نہیں جب پاکستان تمام مسائل سے چھٹکارا پا لے گا، ہر طرف امن ہی امن ہوگا، چوروں اور لُٹیروں کا احتساب ہوگا، شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہوگا اور ہر ایک کو اُس کے بنیادی حقوق میسر ہونگے۔ہم سب آج پھر ایک ایسے رہنما کی تلاش میں ہیں،جس کے پاس اِقبال جیسی فکر ، قائد جیسی ہمت اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ ہو اور جو ذاتی مُفاد پر ملکی مُفاد کوترجیح دے۔مگر کب؟کب آئے گا وہ مردِ قلندر جو پوری قوم کو ایک صف میں کھڑا کر دے،یہ وہی نظام ہے جس کی بیعت سے حضرت امام حسین ؓنے اِنکار کر دیا تھا۔ اگر یہ نظام مسلمانوں کا خیرخواہ ہوتا تو قائدِاعظم محمد علی جناحؒکانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار نہ کرتے۔اگر یہ نظام ہمارے حق میں ہوتاتو آج پورا ملک بد انتظامی اور لوٹ کھسوٹ کا شکار نہ ہوتا۔آج لوڈشیڈنگ عروج پر نہ ہوتی، اور ملک تاریکیوں اور اندھیروں میں نہ ڈوبا رہتا۔لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا گلا نہ کاٹ رہے ہوتے، ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ ہوتا،ہر شہری کے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی ہوتی۔مگر اِن تمام مسائل کے پیشِ نظر ہم نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا۔اور آج بھی ہم کسی محب وطن مسیحا کی تلاش میں ہیں لیکن آخر کب تک؟
 

SAYAM AKRAM
About the Author: SAYAM AKRAM Read More Articles by SAYAM AKRAM: 63 Articles with 48599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.