موسمِ باراں کی آمد آمد ہے۔محکمۂ موسمیات بادلوں کی
نقل و حرکت سے اندازہ لگا کر پیشنگوئی کردیتا ہے کہ کہاں پر کب بارش ہوگی؟
اسی طرح وزیر اعظم کے دوروں سے ملک کے عوام سمجھ جاتے ہیں کہ کس صوبے میں
بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں ۔ وزیر اعظم منی پور اس لیے نہیں جاتے
کیونکہ وہاں عنقریب الیکشن نہیں ہوگا مگر کشمیر پہنچ جاتے ہیں کیونکہ وہاں
الیکشن کروانا سرکار کی مجبوری بن گئی ہے۔ یہ مجبوری سرکار کے اپنے ہاتھوں
کی کمائی ہے ۔ پچھلے سال عدالتِ عظمیٰ کے اندر آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی
کو چیلنج کرنے والے مقدمہ میں سماعت کے دوران مودی حکومت نے سپریم کورٹ کو
بتایا تھا کہ وہ جموں و کشمیر میں ' کسی بھی وقت' انتخابات کروانےکے لیے
تیار ہے تاہم اس نے کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے سے متعلق کوئی وقت مقرر
کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سرکار نے اگست 2023میں الیکشن کی بابت حتمی
فیصلہ کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور ریاستی پولنگ پینل کو سونپ دی تھی
۔
سپریم کورٹ میں یہ معاملہ اس وقت ہوا کہ جب دفعہ 370 کے خاتمہ کو چیلنج
کرنے والی درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے جموں و کشمیر میں جمہوریت
کو بحال کرنے اور اس کا ریاستی درجہ بحال کرنے کی ضرورت پر زور دے کر پوچھا
تھا کہ آخر حکومت وہاں کب تک انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے اور کب اس
کا ریاستی درجہ بحال کیا جا سکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب میں مرکزی سرکار کے
وکیل یعنی سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے پانچ رکنی بینچ کو بتایا تھا کہ
''یونین ٹیریٹری ایک عارضی چیز ہے اور ہمیں کچھ ایسی چیزیں کرنے کی ضرورت
ہے تاکہ ریاست حقیقی معنوں میں ایک ریاست بن سکے۔'' ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ جج
صاحب نے یہ نہیں پوچھ لیا کہ حقیقی اور مجازی معنیٰ میں ریاست کے درمیان
کیا فرق ہے؟ اس لیے کہ موصوف کو اس کا علم ہوتا تو وہ نہیں کہتے کہ ''میں
اس کے لیے صحیح ٹائم فریم دینے سے قاصر ہوں کہ یہ عمل کب مکمل ہو گا۔ آگے
چل کر انہوں نے حکومت کی اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد پچھلے سال 31 اگست تک
جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی پر ایک ''مثبت'' بیان کے آنے کا
امکان ظاہر کیا تھا ۔ وہ سرکاری بیان دس ماہ کے بعد اب آیا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں جون 2018 سے کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔ کشمیر کو
دوسری ریاستوں کے برابر لانے کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والوں کو یہ بتانا
چاہیے کہ کیا ملک کے اندر کوئی اور صوبہ اتنا طویل عرصہ بغیر صوبائی حکومت
کے رہا ہے؟ اس سے قبل خود بی جے پی جموں کشمیر کی محبوبہ حکومت میں شریک
کار تھی۔ اپنی ہی حکومت کو برخواست کرنے کا کام پہلی اور آخری بار مودی
سرکار نے کیا ورنہ بی جے پی کی روایت تو یہ ہے کہ اس نےگجرات اور منی پور
میں اندوہناک فسادات کے باوجود سرکار برخواست کرنا تو دور وزیر اعلیٰ کو
ہٹانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اس سے آگے بڑھ کر پانچ اگست 2019 کو ریاست کی
خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے نہ صرف دو حصوں میں تقسیم کردیا بلکہ اس
کا درجہ گھٹا کر ہر دو حصے کا انتظام مرکزی حکومت کے متعین کردہ لیفٹننٹ
گورنر کو سونپ دیا گیا ۔ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کیونکہ بی
جے پی کے حلیف جماعتیں جے ڈی یو اور تیلگو دیشم اب بھی بہار اور آندھرا
پردیش کی ریاست کے لیے خصوصی درجہ کے خواہشمند ہیں ۔ ماضی میں دہلی و گوا
وغیرہ کو یونین ٹیریٹری سے بڑھا کر ریاست کا درجہ دے دیا گیا مگر جموں
کشمیر کے معاملے میں الٹا ہوگیا۔
مرکزی حکومت کی اس دھاندلی کے خلاف 'پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلیئریشن'
عدالتِ عظمیٰ میں جموں و کشمیر ریاست کی بحالی کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحال
کرنے پر اصرار کررہا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ، ''اگست 2019 میں جو کچھ بھی
ہوا وہ ناقابل قبول ہے۔ ریاست کو اس کا خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل
370کوغیر آئینی طور پر ہٹا یا گیا ‘‘۔ وہ لوگ آرٹیکل 370 کی بحالی سے کم پر
راضی ہونے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ، ''ہمہندوستانی آئین
کے اندر رہتے ہوئے لڑ رہے ہیں، دفعہ 370 بھی اسی کا حصہ تھا‘‘۔ انہوں نے
مزید کہا تھا کہ ''ہماری خصوصی حیثیت ہمیں آئین نے دی تھی، پاکستان، چین یا
اقوام متحدہ نے نہیں۔'' ان تمام معقول دلائل کے باوجود گزشتہ سال دسمبر میں
سبکدوشی سے قبل سپریم کورٹ میں جسٹس کول نے جاتے جاتے جموں و کشمیرکی خصوصی
آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے اقدام کو قانوناً درست ٹھہرادیا نیز ریاست کا
درجہ واپس کرکے انتخابات کرانے کے احکامات بھی دے دئیے۔ یعنی دو نوں فریقوں
کے ایک ایک مطالبات کو تسلیم کرلیا۔
عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے پر بغلیں بجاتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے جموں،
کشمیر اور لداخ کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کے خوابوں کو پورا کرنے
کے لیے موصوف کا عزم غیرمتزلزل ہے۔ انہوں نے ترقی کے ثمرات کو معاشرے کے سب
سے کمزور اور پسماندہ طبقات تک بھی پہنچانے کی یقین دہانی کرکے ان کی عدم
رسائی کے لیے دفعہ 370 کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا ۔ اس غلط بات کو اگر
درست مان بھی لیا جائے تو مودی جی کو یہ بتانا ہوگا کہ ملک کے دیگر حصوں
میں رہنے والوں کی کثیر تعداد تک ترقی کے ثمرات کی عدم رسائی کے لیے کون سی
دفعہ مانع ہے۔ آزادی کے 70؍ سال بعد بھی ملک کے 80؍کروڈ لوگ پانچ کلو اناج
کے محتاج کیوں ہیں؟ ’ ہم دو ہمارے دو ‘ کی حکومت چلانے والے وزیر اعظم
نریندرمودی کی زبان سے اس طرح کے الفاظ سن کر ہنسی آتی ہے۔ اس وقت سپریم
کورٹ نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ جلد از جلد واپس لوٹانے کی ہدایت
کرتے ہوئے کوئی مدت تو مقرر نہیں کی تھی مگر مرکزی حکومت کو 30 ستمبر 2024
تک انتخابات منعقد کرانے کا حکم ضرور دے دیا تھا ۔
اس فیصلے کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ قومی انتخابات کے ساتھ جہاں سکم،
اروناچل پردیش ، آندھرا پردیش اور اڑیشہ کے ریاستی الیکشن ہوں گے تو اس
میں جموں کشمیر کو بھی شامل کیاجائے گا مگر مودی سرکار نے پھر ایک بار جموں
کشمیر کے ساتھ تفریق و امتیاز کا سلوک کرکے اپنا چال، چرتر اور چہرا دکھا
دیا ۔ امسال کے اواخر میں مہاراشٹر اور ہریانہ کے ساتھ یہ لازمی ہوگیا ہے
ورنہ عدالت میں پھٹکار پڑے گی ۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب
ایوان پارلیمان کے ساتھ چار صوبوں کے انتخاب کا اعلان کیا گیا تو مودی
سرکار جموں کشمیر میں الیکشن کرانے کی ہمت کیوں نہیں کرسکی ؟ اس کی وجہ یہ
نہیں تھی کہ وہاں تشدد کا خطرہ تھا۔ سرینگر میں اپنی بھارت جوڑو یاترا کا
اختتام کرکے راہل گاندھی یہ ثابت کرچکے تھے محبت کی دوکان کو کشمیر میں
کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن نفرت کا کا روبار کرنے والوں کے اندر پایا
جانے والا احساسِ جرم انتخاب کروانے میں رکاوٹ پیدا کررہا تھا اور الیکشن
کے نتائج نے یہ بات ثابت کردی کہ ان کا اندیشہ غلط نہیں تھا ۔
پچھلی مرتبہ متحدہ ریاستِ جموں کشمیر کی جملہ ۶ میں سے تین بی جے پی کے پاس
تھیں اور دواین سی و ایک پی ڈی پی کے پاس تھی۔ اس بار بی جے پی نے لداخ سے
اپنا امیدوار بدل دیا اور وہ تیسرے نمبر پر رہا۔ کانگریس کے امیدوار کو
نیشنل کانفرنس کے باغی امیدوار نے ہرا دیا ۔ جموں کی دونوں نشستیں تو بی جے
پی جیت گئی مگر وادی میں اس کو امیدوار ہی نہیں ملا ۔ سابق علحٰیدگی پسند
رہنما سجاد لون کو بی جے پی کی بلاواسطہ حمایت حاصل تھی مگر وہ بھی تیسرے
نمبر پر رہے ۔ بارہ مولہ نشست کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں سے سابق وزیر
اعلیٰ عمر عبداللہ بھی اپنی قسمت آزما رہے تھے مگر ان دونوں کو عوامی
اتحاد پارٹی کے انجنیئر شیخ عبدالرشید نے شکست فاش دوچار کردیا۔ موصوف دو
مرتبہ لنگاٹے سے رکن اسمبلی رہے ہیں اور 2019 میں انہیں مرکز کی بی جے پی
سرکار نے دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیج دیا ۔ انجنیئر رشید کے بیٹوں
ابرار اور اصرار نے اپنے والد کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے اور بارہ مولہ
کی عوام نے انہیں کامیاب کرکے بتا دیا کہ وہ دفع 370 کوختم کرکے نہ تو شیر
دل لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں اور نہ جھکا سکتے ہیں۔
شیخ عبدالرشید کی ڈیڑھ لاکھ ووٹ کے فرق سے کامیابی ساڑھے چار سال تک 370کا
ڈھول پیٹنے والوں کے گال پر کشمیر ی عوام کا ایسا زبردست طمانچہ ہے جس کی
دھمک دیر تک اور دور تک گونجتی رہے گی۔ خیر یہ تو پہلی قسط ہے ۔ بہت جلد
جموں کشمیر میں انتخابات ہوں گے جہاں بی جے پی کے خلاف تینوں بڑی سیاسی
جماعتوں نے اتحاد کررکھا ہے اس لیے کمل کا مرجھانا دیوار پر لکھا ہوا ایک
ایسا سچ ہے جسے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔ اقتدار کے جنون میں گرفتار بی جے پی
کے لیے یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ دفع 370 کی موجودگی میں تو وہ کم از
کم جونیر پارٹنر کے طور پر سرکار میں حصہ دار تو تھی مگر اب اس کا بھی کوئی
امکان نہیں ہے۔ بی جے پی دفع 370 کو ختم کرکے ملک بھر میں 370نشستوں پر
کامیابی درج کروانا چاہتی تھی مگر 240 سے آگے نہیں بڑھ سکی اور اس نے
کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار گرم کرکے اس کے دروازے اپنے اوپر ہمیشہ کے
لیے بند کرلیے اور وقت کے زعفرانی بلند بانگ دعویٰ پوری طرح خاک میں مل گیا
۔
|