طیب اردگان:عالم اسلام میں امید اور تبدیلی کااستعارہ

کون جانتا تھا کہ دسمبر 1997 میں ضیا گوک الپ کی نظم ”مساجد ہماری رہائش گاہیں، گنبد ہمارے سر کا تاج ، مینار ہمارے ہتھیار اور ہماری افواج با وفا ہیں۔۔“ پڑھنے کے جرم میں جیل جانے والے رجب طیب اردگان ترکی کے سب سے مقبول لیڈر بن کر ابھریں گے اور تین دفعہ ترکی کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہوں گے۔

رجب طیب اردگان ترکی کی وہ عہد ساز شخصیت ہیں جو 14 مارچ 2003 سے ترکی کے وزیر اعظم ہیں۔ طیب اردگان ترکی جیسے سیکولر ملک کے اسلامی نظریات رکھنے والے وزیر اعظم کی حیثیت سے ہمیشہ سے ہی سیاسی مبصرین اور حالات حاضرہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بحث کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کے جتنے زیادہ مداح ہیں اس سے کہیں بڑھ کر ایسے لوگ بھی ہیں جو انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔ ان کے ناقدین ان پر جتنا بھی طعن و تشنیع کریں اس کے باوجود رجب طیب اردگان نے مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی ترکی میں صنعتی اور اقتصادی انقلاب برپا کر دیا۔طیب اردگان نے کمال اتاترک کے سیکولرنظریات والی فوج اور عدلیہ سے تصادم کے بغیر انتہائی کامیابی سے ترکی کو اسلام پسند ریاست بنا دیا ہے۔ یہ ان کی ہی فہم و فراست ہے کہ ترکی اب ایک معتدل مسلم ریاست کے طور پر تمام عالم اسلام کی قیادت کرنے کے لیے دوبارہ پر تول رہا ہے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ طیب اردگان کی سیاسی تربیت میں ترکی کی ایک اور گراں قدر شخصیت نجم الدین اربکان کا بہت عمل دخل ہے۔نجم الدین اربکان بھی اسلامی نظریات کے حامل وزیر اعظم تھے جنھیں فوج نے ان کے اقتدار کے ایک سال کے اندر ہی وزارت عظمیٰ سے الگ کر دیا تھا۔نجم الدین اربکان نے اپنی قوم کو انتہائی مدلل اور مدبر انداز سے اسلام کے قریب کیا اور اپنی قوم کو یہ باور کروایا کہ اسلام ہی حقیقی نظام حیات کاسرچشمہ ہے۔نجم الدین اربکان نے اپنی رفاہ پارٹی کے ٹکٹ پر طیب اردگان کو الیکشن لڑوایا اور استنبول کا میئر منتخب کروایا۔ طیب اردگان نے اپنی علمی اور سیاسی بصیرت سے استنبول میں بہت سے رفاہی کام کیے ۔طیب اردگان نے میئر بنتے ہی استنبول میں شراب خانوں پر پابندی لگا دی جس نے سیکولر حلقوں میں کھلبلی مچادی۔

اپنے سیاسی استاد کی فوج کے ہاتھوں برطرفی کے باوجود طیب اردگان نے سیکولر نظریات کی حامی فوج کو اپنے مثبت اور ترقی پسند اسلامی نظریات کے ذریعے ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے للکارا۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 سے لے کر تا دم تحریر طیب اردگان کے آہنی عزم و استقلال کو افواج تک متزلزل نہیں کر سیکں۔ 2003 میں رجب طیب اردگان نے ترک فوج، جو کمال اتاترک کے نظریات کی محافظ گردانی جاتی ہے، کے چند ارکان بشمول حاضرسروس ایئر چیف مارشل کے خلاف بغاوت کا مقدمہ کامیابی سے چلایاجو طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ پاکستان کی طرح ترک افواج بھی جمہوری حکومتوں کو برخاست کر کے تین دفعہ مارشل لاءلگا چکی ہیں۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے طیب اردگان جیسی مدبر سیاسی شخصیت نے خود کو براہ راست فوج سے تصادم سے ہمیشہ دور رکھا ہے بلکہ طیب اردگان نے ایسی پالیسیاں وضع کی ہیں جن سے ترکی کی سیکولر ریاست میں اسلام پسندی، جدیدیت، برداشت اور تعصب سے پاک رجحانات کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ طیب اردگان نے خود کو ترک عوام کے دوست، ہمدرد، غم گسار، مغربی پالیسیوں کو بہتر سمجھنے والا، جدت پسنداور جمہوری روایات کے حامی سیاستدان کے طور پر منوایا ہے۔

ترک وزیر اعظم نے کرد اقلیت سے بہت حد تک نرم رویہ روا رکھا ہے یہی نہیں طیب اردگان نے خود کو ”جمہوری لیڈر“ثابت کرنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کرد زبان پر عائد پابندی ختم کر دی ۔تاہم کرد زبان کا استعمال سرکاری سطح پر ابھی تک ممنوع ہے۔ کردوں سے اپنی یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے2007میں طیب اردگان نے الیکشن کے موقع پر کہا:کردوں کا مسئلہ میرا ذاتی مسئلہ ہے۔

طیب اردگان جب ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اس وقت ترکی میں بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر تھی جب کہ آج کا ترکی یورپ کی سولھویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ سیاسی مبصرین کی رائے میں طیب اردگان ترکی کو دنیا کی پہلی دس معیشتوں میں شامل کر نا چاہتے ہیں۔ اس سے عام ترک شہری کی سالانہ آمدن پچیس ہزار ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ یہ طیب اردگان کی سیاسی بصیرت ہی تھی کہ جس نے چالیس سال بعد سعودی فرماں روا کو ایک سال میں دو دفعہ ترکی کا دورہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ حالات حاضرہ کے ماہرین کے بقول طیب اردگان اب ترکی کو مسلم دنیا سے دوبارہ جوڑنا چاہتے ہیں جیسے خلافت عثمانیہ میں تمام امت مسلمہ ایک حکومت کے زیر انتظام تھی۔ ترکی عرصہ دراز سے خود کو یورپی یونین کا ممبر بنانا چاہتا تھا مگر یورپی ممالک کے تعصب کی وجہ سے ترکی کا یہ خواب تا حال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ علاقے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ترک وزیر اعظم اب عرب ممالک سے بہتر تعلقات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ سعودی شاہ عبداللہ کے دورے پر طیب اردگان کے مخالفین اور اپوزیشن نے طیب اردگان اور ان کی پارٹی ”اے کے پی“ پر شدید تنقید کی اور طیب اردگان پر یہ الزام عائد کیا کہ طیب اردگان ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کا عزم و ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں سعودی شاہ کے ترکی کے دورے کو سیاسی مبصرین نے بہت اہمیت دی ہے ۔سعودی حکومت ایران اور ترکی کے بتدریج بڑھتے ہوئے روابط سے قدرے گھبراہٹ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے ترکی سے اپنی پرانی مخاصمت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ترکی سے تعلقات کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ ایران اور ترکی کے آپس کے تعلقات کا اندازہ ایران کے صدر احمدی نژاد کی اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: ”علاقائی قوموں کی قسمت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور انھیں ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرنی چاہیے۔“

گزشتہ سال ترکی سے غزہ کے محصورین کے لیے امدادی سامان لے جانے والے قافلے ”فریڈم فلوٹیلا “پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 19انسانی حقوق کے نمائندے ہلاک ہوئے تھے۔ فریڈم فلوٹیلا کو کھلے سمندروں پر روکنے اور نہتے انسانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے پر ترک وزیر اعظم نے اسرائیلی حکومت کو کھلے بندوں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان کے اسرائیل کے خلاف بیانات نے ان کی شخصیت کو عالمی سطح کا لیڈر بنا دیا۔ مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ ایک مسلم ہیرو کے طور پر ابھرے ہیں۔ یاد رہے ترکی وہ واحد غروب مسلم ریاست تھی جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار تھے مگر گذشتہ سال 13 مئی کو اسرائیل کی جانب سے فریڈم فلوٹیلا پر حملے سے ترکی اور اسرائیل کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے ۔ترک وزیر اعظم نے اسرائیلی بربریت کو پوری دنیا میں انتہائی مدلل انداز میں آشکار کیا اور اس مسئلے کو انسانی مسئلہ بنا کر پیش کیا جس سے تمام انسانی حقوق کے اداروں نے اسرائیل کے کردار پر انگشت نمائی کی ۔ طیب اردگان نے ورلڈ اکنامک فورم میں بھی اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو بہت خوبصورتی سے ان کے غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم یاد دلائے اور اکنامک فورم سے احتجاجاً واک آؤٹ کر کے اسرائیل کی سفاکی کو پوری دنیا کے میڈیا کے ذریعے زبان زد عام کر دیا ۔ ان کے اسی کارنامے کو سراہتے ہوئے مصر کے ایک آزاد اخبار ”المصر الیوم“نے طیب اردگان کو ”مسلمانوں کا خلیفہ‘ ‘کہا۔

ترک وزیر اعظم کی فلسطین کے مظلومین کے لیے ہمدردی اور حمایت کا یہ عالم ہے کہ اب ایک دفعہ پھر ترکی کے شہر استنبول سے فریڈم فلوٹیلا غزہ کے محصورین کے لیے ادویات، راشن اور دیگر ضروریات لے کرجائے گا اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کا گزشتہ پانچ سال سے جاری محاصرہ توڑے گا۔اس قافلے کو روکنے کے لیے اسرائیل کی جانب سے بہت کوششیں کی جا رہی ہیں حتی کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے بھی فریڈم فلوٹیلاکو روکنے کی سفارش کی گئی ہے۔

اگرچہ طیب اردگان تیسری دفعہ وزیر اعظم بن گئے ہیں مگر وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تیسری دفعہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں طیب اردگان نے اپنے روایتی جارحانہ انداز سے ہٹ کر تقریر کی اور آئین میں تبدیلی کرنے کاکے عزم کااعادہ کیاتاکہ آئین میں فوجی اقتدار کے دوران میں کی گئی اُن تبدیلیوں کو ختم کیا جائے جن کے ذریعے فوج کو اقتدار پر قبضے کا بہانہ مل جاتا ہے۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترک وزیر اعظم ترک آئین میں تبدیلی کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
Syed Zaki Abbas
About the Author: Syed Zaki Abbas Read More Articles by Syed Zaki Abbas: 22 Articles with 31516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.